بارہ اکتوبر 99: 21 برس میں کیا تبدیلی آئی؟


مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 12 اکتوبر 1999 ء شام پانچ بجے کے قریب پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات رک گئی۔ سکرینوں پر سیاہ دھبے نمودار ہو گئے۔ لینڈ لائن نمبر بند ہو گئے۔ ہر کوئی اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق تبصرے کر رہا تھا۔ کسی عقل مند نے کہا میرا قیاس ہے، پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کو فتح کر لیا ہو گا۔ ایک اور شخص بولا ابھی چند دن قبل کی بات ہے کہ پرنٹ میڈیا میں سپہ سالار نے منتخب جمہوری حکومت کی آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے مدد کرنے کے حق میں بیان دیا تھا۔ انتظار طویل ہوتا گیا۔ نصف شب کے قریب ٹیلی ویژن کی سکرینوں سے سیاہ دھبے چھٹے اور اعلان ہوا کہ نواز شریف کی حکومت بر طرف کر دی گئی ہے۔ سپہ سالار پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا ہے۔ نواز شریف کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ پرویز مشرف تھوڑی دیر میں قوم کو اعتماد میں لیں گے۔

رات اڑھائی بجے، پرویز مشرف ٹی وی پر آئے اور قوم سے انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے کہا، میرے عزیز ہم وطنو، فوج کا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ نواز شریف کی پالیسیوں کی وجہ سے ملکی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ مجھے بادل نخواستہ یہ قدم، پاکستان اور خصوصاً پاکستان کی فوج کو بچانے کے لیے اٹھانا پڑا۔

مشرف اور نواز شریف کے درمیان اختلافات کہاں سے شروع ہوئے؟ جنرل مجید ملک مرحوم اپنی کتاب ”ہم بھی وہاں موجود تھے“ میں لکھتے ہیں :

”جنرل جہانگیر کرامت کو ہٹانے کے بعد نواز شریف نے اپنے اقربا کے مشورے پر سینیئر جرنیلوں کو سپر سیڈ کر کے مشرف کو سپہ سالار بنایا۔ کچھ عرصے بعد دونوں میں سرد مہری اور چپقلش شروع ہو گئی۔ نواز شریف بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر آئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ آئین اور قانون کے مطابق ہر ادارہ ان کے تابع رہے۔“

”پاکستانی فوج مضبوط اور منظم ادارہ ہے۔ بد قسمتی سے اسے ماضی سے ایسی عادتیں پڑی ہوئی ہیں کہ وہ خود کو سپر پاور سمجھتی ہے۔ نواز شریف اور پرویز مشرف کا خاصہ تھا کہ وہ اپنے اختیارات میں کسی اور کی دخل اندازی برداشت کرنے کے روا دار نہیں تھے اور باہم شخصی عناد بھی رکھتے تھے۔ نواز شریف نے پہلے ایک آرمی چیف کو برطرف کر رکھا تھا، جس کی وجہ سے فوج اسے بھولی نہیں تھی۔ حالات اس وقت خراب ہوئے، جب جنرل پرویز مشرف نے اپنے تین ساتھیوں جنرل محمود، جنرل عزیز اور جنرل جاوید کے ساتھ مل کر کارگل کی چوٹیوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کی وزیر اعظم سے منظوری نہیں لی۔“

”ایک جانب کارگل کی صورت احوال کے باعث نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیان بد اعتمادی کا سلسلہ چل نکلا اور دوسری جانب پرویز مشرف کے ذہن میں، اس خیال نے جگہ بنا لی، نواز شریف ان کو بھی فوج سے اس طرح نکالیں گے، جس طرح انھوں نے جہانگیر کرامت کو نکالا تھا۔ دوسری طرف نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں یہ بات چل نکلی کہ مشرف نواز حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ دونوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں نواز شریف کے والد میاں شریف نے شعوری کوشش کی۔ دونوں کے درمیان ملاقات کروائی گئی، جس سے تعلقات میں بہتری آئی۔ میاں شریف نے پرویز مشرف اور ان کی اہلیہ کو رائے ونڈ کھانے پر دعوت دی اور کچھ تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔ میاں نواز شریف ان دنوں عمرے پر جانا چاہتے تھے۔ میاں شریف نے نواز شریف سے کہا کہ پرویز مشرف کو بھی ساتھ لے جائیں۔ تعلقات کی بہتری کے لیے نواز شریف نے پرویز مشرف کے چیف آف سروسز سٹاف کے خالی عہدے پر اضافی تعیناتی کے احکامات جاری کر دیے۔ مشرف نے اپنی نئی تعیناتی کے فوراً بعد بیان دیا کہ میں نے اضافی عہدہ لینے پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ حالات کے سدھار کی جو امید، مشرف اور نواز شریف کی ملاقاتوں کے بعد بندھی تھی، وہ دیرپا ثابت نہ ہوئی اور عمرے کی ادائیگی کے بعد بھی، دونوں کے دلوں سے کدورت کلی طور پر ختم نہ ہوئی۔“

اس وقت یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ ملٹری انٹیلی جینس نے وزیر اعظم اور وزرا کے ٹیلی فون ٹیپ کر لیے، جن میں بہ زبان مشرف ان کو عہدے سے ہٹانے کے اشارے مل گئے۔ ان تمام حالات اور واقعات کے باعث وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان پائی جانے والی بد اعتمادی اب بڑھ کر عداوت کا روپ دھار چکی تھی۔

فوج کو اسلام آباد فتح کرنے کا اچانک پروگرام نہیں بنا، واجپائی کی لاہور آمد اور کارگل واقعے کے بعد فوج، نواز حکومت کو ہٹانے کے در پے تھی۔ جنرل شاید عزیز اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ میں لکھتے ہیں :

”آپ تینوں میں سے ہر ایک انفرادی طور پر اس بات کا مجاز ہو گا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے احکامات جاری کرے۔ میں آپ تینوں کو اس کی ذمہ داری دیتا ہوں۔ جنرل محمود، جنرل عزیز اور جنرل شاہد، آپ۔ جنرل مشرف نے میٹنگ ختم کرتے ہوئے، ہمیں اس سلسلے میں بااختیار کیا اور ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر کوئی دشواری پیش آئے تو پھر بھی کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور ہم نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔ سری لنکا جانے سے قبل، یہ آخری ملاقات تھی۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ مشرف کی عدم موجودگی میں، نواز شریف نے انھیں ہٹایا تو ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا جائے گا۔ جنرل محمود کمانڈر دہم کور، جنرل عزیز سی جی ایس، جنرل احسان الحق ڈی جی ایم آئی کے علاوہ منصوبہ سازی میں جنرل راشد قریشی شامل تھے۔“

”سر، جلدی ٹی وی لگائیں۔ دیکھیں کیا آ رہا ہے۔ جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف بنا دیا گیا۔ ایم او سے ایک کرنل کا فون تھا۔ اکتوبر کی بارہ تاریخ 99 ء کے تقریباً شام کے پانچ بج رہے تھے۔ سوٹ کیسوں کو پھلانگتے ہوئے فوراً واپس دفتر کی طرف بھاگا۔ جاتے ہوئے انجم سے کہا، فوراً دروازہ بند کر لو اور ہاں میرا لیپ ٹاپ بھائی کے گھر بھجوا دو۔ اس میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ساری تفصیلات پر کام تھا۔ نہ جانے آج کیا ہو گا۔ اگر نا کام رہا تو شاید آنے میں دیر ہو جائے۔“

”گاڑی لے کر سڑک پر نکل۔ ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ مجھے خوف ہوا کہ کہیں راستے میں روک نہ لیا جاؤں۔ دفتر پہنچ کر جنرل عزیز کو فون کیا۔ پتا چلا کہ جنرل محمود 111 بریگیڈ کو go دے چکے تھے۔ کہنے لگے۔ تم باقی جگہوں پر کارروائی شروع کراو، میں دفتر پہنچ رہا ہوں۔ لاہور فون کیا تو پتا چلا کہ کور کمانڈر جنرل خالد مقبول غیر حاضر ہیں۔ ڈھونڈنے پر پتا چلا کہ گوجرانوالہ گالف کھیلنے گئے ہیں۔ میجر جنرل طارق مجید کو فون کیا، جو لاہور میں ڈویژن کمانڈ کر رہے تھے۔ انھیں تمام احکامات دیے اور کہا کہ آپ کور کمانڈر کے آنے تک کور کمانڈ سنبھال لیں۔ قابل اور بھروسے والے افسر تھے انھوں نے خوش اسلوبی سے لاہور کو سنبھالا۔“

”جنرل مشرف، سری لنکا سے چل چکے تھے۔ جہاز کراچی کی طرف محو پرواز تھا۔ ملیر کے کمانڈر میجر جنرل افتخار کو فون کیا۔ حالات بتائے اور کہا فوراً ائرپورٹ پہنچیں اور اس کا کنٹرول سنبھال لیں۔ پشاور کو ساری کارروائی سے باہر رکھا۔ کیوں کہ جنرل سعید الظفر قابل بھروسا نہیں تھے۔

اسلام آباد میں وزیر اعظم اور صدارتی ہاؤس گھیرے میں لئے جا چکے تھے۔ ٹی وی سٹیشن پر کنٹرول کیا جا چکا تھا۔ اور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہاں سے لگاتار نئے چیف کو رینک لگانے کی ویڈیو کو بند کیا۔

وزیر اعظم کے گھر لگی پلٹن کے CO کرنل شاہد علی وزیر اعظم ہاؤس کے اندر گئے، تو وہاں جنرل ضیا الدین کی گاڑی چار ستاروں اور چیف کے جھنڈے کے ساتھ کھڑی تھی۔ جنرل ضیا الدین کچھ فوجی افسروں سے ملے اور انھیں کہا، تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو۔ تم خسارے میں رہو گے۔ ابھی پشاور سے سپاہ پہنچنے والی ہے، تمھارا سارا ڈراما ادھورا رہ جائے گا۔ ان کے ساتھ سپاہ نے ہتھیار تان لیے اور وہاں موجود فوجی افسروں سے کہا کہ دروازے سے ہٹ جاو اور نئے چیف کو GHQ جانے دو۔ کرنل شاہد علی نے جواب دیا، اگر گولی چلائی تو میرے جوانوں نے پورا گھر گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ کسی کی بھی خیر نہیں ہو گی۔ نواز حکومت کو ہٹانے میں جنرل محمود، جنرل عزیز اور جنرل عثمانی نے اہم کردار ادا کیا۔ یوں رات ڈھائی بجے جنرل مشرف نے SSG کی وردی پہن کر ملک کے نئے سربراہ کی حیثیت سے قوم سے خطاب کیا۔ ”

99 ء کو گزرے اکیس سال ہو گئے، مگر سوال یہ ہے کہ حالات میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ دو سے تین روز قبل جنرل باجوہ نے کہا کہ “ہم منتخب جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں”۔ مملکت خدا داد میں منتخب وزیر اعظم کو بار بار کہنا پڑتا ہے کہ فوج ہمارے ساتھ ہے۔ نواز شریف اکیس سال قبل آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کرتے تھے، جس وجہ سے ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا گیا اور آج بھی وہ جد و جہد کر رہے ہیں کہ قوم کی امیدوں کا خون نہ ہو۔ اکیس سال قبل انھیں اقتدار سے نکالا گیا اور آج بھی وہ ملک سے باہر ہیں۔ فوج کو آئین اور قانون کے دائرے میں واپس لانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریق مل کر عمرانی معاہدہ کریں اور اس کی روشنی میں آگے بڑھیں۔ تمام سیاستدان عہد کریں کہ حالات جیسے بھی ہوں، انھیں سیاسی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ کوئی بھی فریق فوج کی مدد نہیں لے گا اور نہ رات کے اندھیروں میں جرنیلوں سے ملاقات کرے گا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui