ترکی اور یونان میں قدرتی وسائل کا تنازع: ترکی کا تیل کی تلاش میں اپنا بحری جہاز متنازع پانیوں میں بھیجنے کا اعلان


بحری جہاز
انقرہ کا کہنا ہے کہ یہ بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم میں تیل کے ذخائر کی تلاش کے لیے 10 دن گزارے گا
ترک بحریہ نے تیل اور گیس کے ممکنہ ذخائر تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اپنا ریسرچ شپ بحیرہ روم کے متنازع علاقے میں دوبارہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

یاد رہے ترکی اور یونان کے درمیان توانائی کے وسائل تک رسائی اور سمندری سرحدوں پر تنازع جاری ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان اگست میں اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا جب ترکی نے یونان کے ایک جزیرے کاسٹیلوریزو کے جنوب میں اپنے ایک بحری جہاز کو سروے کے لیے بھیجا تھا۔ اس علاقے پر ترکی، یونان اور قبرص تینوں ہی دعویدار ہیں۔

یاد رہے یونان کا یہ جھوٹا جزیرہ کاسٹلریزو ترکی کے ساحل سے صرف دو کلومیٹر کی دوری پر ہے۔

تاہم ستمبر میں کشیدگی میں اس وقت کمی ہوئی جب اورک ریس نامی یہ جہاز ترک حدود میں واپس لوٹ آیا اور دونوں جانب سے کہا گیا کہ وہ سفارتی طور پر یہ تنازع حل کرنے کے لیے مذاکرات پر راضی ہیں۔

لیکن اب انقرہ کا کہنا ہے کہ یہ بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم میں تیل کے ذخائر کی تلاش کے لیے 10 دن گزارے گا۔

اس تحقیقی جہاز کے ساتھ دو دیگر معاون بحری جہاز اتمان اور جینگیز ہان بھی ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

یورپی یونین کی جانب سے ترکی کی ‘اشتعال انگیزی‘ کے خلاف پابندیوں کی دھمکی

ترکی اور یونان کے درمیان بحیرۂ روم میں بڑھتی کشیدگی کی وجہ کیا ہے؟

ترکی اور یونان: قدرتی وسائل کا تنازع جنگ میں بدلنے کا خدشہ

یار رہے ترکی اور یونان دونوں نیٹو کے رکن ہیں مگر ان کے درمیان سمندری حدود پر تنازع کی ایک تاریخ بھی ہے۔

اگست میں یونان کی وزارتِ خارجہ نے ترکی کے اقدام کو ’سنگین اشتعال انگیزی‘ کہا تھا اور یورپی یونین نے یونان اور قبرص کی حمایت کی تھی۔

اگست میں ہونے والی کشیدگی کے بعد ترکی اور یونان دونوں ممالک نے قبرص اور یونانی جزیرے کریٹ کے درمیان پانیوں میں فضائی اور بحری مشقیں شروع کر دیں تھیں۔

ترک صدر

بلآخر گذشتہ ماہ ترکی نے اوروک ریس کو واپس بلا لیا، جس سے یہ امید پیدا ہوئی کہ دونوں ممالک اس بحران کو حل کر سکتے ہیں۔

تاہم اس وقت ترک عہدیداروں کا اصرار تھا کہ جہاز پر معمول کی مرمت اور دیکھ بھال چل رہی ہے اور یہ جلد ہی سمندر میں واپس جائے گا۔

اس ماہ کے شروع میں یورپی یونین نے خبردار کیا تھا کہ ترکی کی جانب سے یونان کے ساتھ توانائی کے وسائل اور سمندری سرحدوں کے تنازع کے حوالے سے ’اشتعال انگیزی اور دباؤ‘ کی وجہ سے وہ ترکی پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسلہ وان ڈرلائن نے ترکی سے کہا تھا کہ وہ مشرقی بحیرہِ روم میں یکطرفہ اقدامات سے اجتناب کریں۔

تاہم ترکی کا کہنا تھا کہ پابندیوں کی دھمکی کا کوئی فائدہ نہیں۔

معاملہ ہے کیا؟

یورپی یونین اور ترکی کا رشتہ بہت عرصے سے کشیدہ رہا ہے۔

ترکی کافی عرصے سے یورپی یونین کا رکن بننے کا امیدوار ہے مگر اس سلسلے میں کوششیں تاخیر کی شکار رہی ہیں۔ یورپی یونین کے رہنماؤں نے ترکی میں انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے ریکارڈ پر تنقید کی ہے خصوصاً 2016 میں ایک فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے تناظر میں۔

مگر تناؤ کے باوجود ترکی یورپی یونین کے لیے ایک اہم پارٹنر ہے۔ ترکی میں لاکھوں پناہ گزین موجود ہیں اور انھوں نے یورپی یونین کے ساتھ اس سلسلے میں ایک محدود معاہدہ بھی کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سمندری قانون کے مطابق کسی ملک کا اپنی حدود کے اندر دو سو ناٹیکل میل تک کا علاقہ اس کا خصوصی اکنامک زون تصور کیا جاتا ہے۔ ترکی اقوام متحدہ کے اس کنونشن کا حصہ نہیں ہے۔

ترکی سمندری حدود کی اس نئی تشریح کی سختی سے مخالفت کرتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرقی بحیرۂ روم کا بڑا حصہ یونان کا تصور ہو گا۔

ترکی کا بحری جہاز

کیا ترکی کی دھمکیاں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں؟

ترکی اور یونان کے مابین سمندری حدود پر پہلی بار کشیدگی سنہ 2019 میں پیدا ہوئی جب ترکی اور لیبیا کی اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت نے سمندری حدود کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ ترکی اور لیبیا کے معاہدے میں ایسی سمندری حدود کو شامل کیا گیا جن کو یونان اپنا سمجھتا ہے۔

اس پر کئی یورپی ممالک کے علاوہ مصر اور متحدہ عرب امارات نے اعتراض کیا۔

ترکی کا کہنا ہے اس نے ’بلیو ہوم لینڈ‘ کا نظریہ اپنا لیا ہے جس کا مقصد اپنے ساحلوں کے اردگرد سمندری حدود کو محفوظ بنانا ہے۔

ترکی کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ کسی ملک کو اسے جنوبی ساحلوں پر محصور بنانے کی اجازت نہیں دے گا۔

ترکی کے نائب صدر فواد اوکتائے نے کہا تھا کہ انقرہ ان تمام نقشوں کو پھاڑ دے گا جو ان کے ملک کو محصور کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔

ترکی کے صدر اور دوسرے اہلکار جارحانہ بیان بازی کے ساتھ ساتھ مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا عہد رکھتے ہیں۔

صدر اردوغان نے 26 اگست کو ایک تقریر میں کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی دیکھ لے کہ ترکی ایسا ملک نہیں رہا جس کے عزم، حوصلے اور صبر کو آزمایا جا سکتا ہے۔ ہم سیاسی، فوجی اور معاشی طور پر سب کچھ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہم کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں۔‘

جب ترکی اور یونان کے مابین کشیدگی بڑھی تو نیٹو اتحاد کے ان ارکان نے اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے خطے کے اتحادوں سے مدد کے لیے رابطہ کیا۔

یونان اور قبرص نے یورپی یونین سے مدد مانگی

ترکی کو ڈر ہے کہ مشرقی بحیرۂ روم کی بانٹ ہو رہی ہے جس میں سے اسے دور رکھا جا رہا ہے۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینز سٹولٹنبرگ نے تین ستمبر کو اعلان کیا کہ دونوں ممالک، یونان اور ترکی ’تکنیکی بات چیت‘ پر رضامند ہو گئے تاکہ کشیدگی کو کم کرنے کا طریقہ ڈھونڈا جا سکے۔

ترکی نے کہا کہ وہ یونان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن یونان نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔

فرانس کی طرف سے یونان کی حمایت کے اعلان پر ترکی نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ترکی نے کہا کہ پیرس یونان کو اشتعال دلا رہا ہے تاکہ وہ سخت مؤقف اپنائے۔

اس کشیدگی میں نیا موڑ اس وقت آیا جب امریکہ نے یونانی قبرص پر اسلحے کی خریداری کے حوالے سے عشروں سے عائد پابندیوں کو اٹھانے کا اعلان کیا۔

ترکی نے امریکہ سے کہا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ البتہ امریکہ نے کہا کہ قبرص پر سے پابندیاں اٹھانے کا ترکی اور یونان کے جھگڑے سے کوئی تعلق نہیں۔

قبرص سنہ 1974 میں دو حصوں میں بٹ گیا تھا اور صرف ترکی، ترکش قبرص کو تسلیم کرتا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی کے جارحانہ بیانات کی وجہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے پہلے اپنی پوزیشن کو بہتر بنانا ہے۔

ترکی کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک غلط قدم دونوں ملکوں کے مابین جنگ کا مؤجب بن سکتا ہے۔ ترک میڈیا نے حکومتی اشارے پر انتہائی قومی پرستی کا لب و لہجہ اپنا رکھا ہے۔

ترکی

یونان کی ہچکچاہٹ

یونان نے متعدد بار ترکی کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحیرۂ روم میں سمندری حدود کے حوالے سے اٹلی اور مصر کے ساتھ معاہدے کر کے بحیرۂ روم پر اپنا حق جتایا ہے۔

یونان کے وزیر خارجہ نکولیس ڈینڈیاس نے حکومتی مؤقف کو ان الفاظ میں سمویا ہے۔ ’یونان مذاکرات چاہتا ہے لیکن میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ترکی کے ساتھ ہمارے اختلافات مشرقی بحیرۂ روم، بحیرۂ ایجین اور اس سے ملحقہ سمندری حدود پر ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور مسئلے کو مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔‘

یونان کی عشروں سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اس جھگڑے کو عالمی عدالت میں لے جائے بغیر اپنی پوزیشن کا دفاع کرے۔ یونان کی یہ کوششیں اب تک بے سود ثابت ہوئی ہیں۔

یونان کے ذرائع ابلاغ کے مطابق جرمنی اور فرانس کے اس تنازع میں شریک ہونے سے یہ بات واضح ہے کہ یونان کو آخر کار مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر دو طرفہ جھگڑوں کو حل کرنا ہو گا۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یونان کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے ہی حل کرنا ہو گا اور اسی لیے اس نے اپنا کیس تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ یونان اور مصر کے مابین سمندری حدود کے معاہدے کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

اس معاہدے کے پہلے مرحلے میں یونان نے اپنی حدود کا جو نقشہ پیش کیا ہے اس میں اس نے ترکی کی سرحد سے دو کلو میٹر دور کاسٹلریزو کو اپنا خصوصی اکنامک زون ظاہر کیا ہے۔

یونان کے مصر کے ساتھ سمندری حدود کے معاہدے کو یونان میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے سفارت کاروں نے کہا ہے کہ ان کے ممالک نے یہ معاہدہ جلد بازی میں کیا ہے۔

یونان کے سابق وزیر خارجہ نکوس کوٹزیاس، جنھوں نے اٹلی کے ساتھ اسی طرح معاہدے کے لیے بات چیت کا آغاز کیا تھا، نے کہا ہے کہ ان کی حکومت نے مصر کی تمام شرائط کو مان لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یونان کی حکومت نے اس لیے ایسا کیا ہے کہ وہ ترکی اور لیبیا کے مابین سمندری حدود کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کا توڑ کرنا چاہتے ہیں۔

ترک صدر

فرانس اس تنازع میں کیوں شریک ہوا؟

یونان نے مشرقی بحیرۂ روم میں اپنے دعوے کی حمایت کے لیے یورپی یونین سے مدد مانگی ہے۔ فرانس کے علاوہ یورپی یونین کا کوئی اور ملک یونان کی مدد کو نہیں آیا۔

فرانس نہ صرف مشرقی بحیرۂ روم بلکہ لیبیا میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا توڑنا چاہتا ہے۔ لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت ترکی کی فوجی مدد سے اپنی پوزیشن بحال کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

فرانس کے ذرائع ابلاغ میں یہ بات سامنے آئی کہ بحیرۂ روم میں معاملہ قدرتی وسائل کی تلاش سے بڑھ کر ہے۔

فرانس کے سرکاری ریڈیو چینل ’فرانس انٹر‘ نے کہا: ’جب ہمیں معلوم ہوا کہ متحدہ عرب امارات کے جنگی جہاز یونان کی فضائی مشقوں میں شریک ہیں تو ہم اسے صرف گیس و تیل کی تلاش کا معاملہ نہیں کہہ سکتے۔‘

ہفنگٹن پوسٹ کے فرانسیی ایڈیشن میں شائع ہونے والے ایک اداریے میں کہا ہے کہ جب امریکہ اس خطے کی حفاظت سے پیچھے ہٹ رہا ہے تو فرانس چاہتا ہے کہ اسے بحیرۂ روم کا محاذ تصور کیا جائے۔‘

فرانس نے یونان کے مؤقف کی حمایت میں خطے میں اپنے رفال جنگی جہاز اور بحری جہاز بھیجے تھے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کی خطے میں عدم دلچسپی کے بعد نیٹو اتحاد میں جو خلا پیدا ہوا ہے، ترکی اسے پر کرنا چاہتا ہے جو فرانس کو قابلِ قبول نہیں اور وہ اس کی مخالفت کر رہا ہے۔

فرانس کے برعکس جرمنی، ترکی اور یونان میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں کرتا رہا ہے۔

جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس نے ایتھنز اور انقرہ کا دورہ بھی کیا۔ انھوں نے خبردار کیا تھا کہ دونوں ملک آگ سے کھیل رہے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے مطابق جرمن وزیر خارجہ نے کہا: ’ایک چھوٹی سے چنگاری ایک بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔‘

جرمن جریدے زوئیڈوچے سائڈونگ نے 30 اپریل کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ جرمنی کی کوششوں سے نیٹو کے ان دو ممبران کے مابین سمجھوتہ طے پانے والا تھا لیکن یونان اور مصر کے سمندری حدود کے حوالے سے معاہدے نے ان ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔

اٹلی بھی اس معاملے میں قدرے کم ملوث ہے اور اس حوالے سے یونان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر چکا ہے۔ اٹلی اس معاملے پر یونان کی بہت کم حمایت کر رہا ہے۔ اٹلی کی نظریں بھی مشرقی بحیرۂ روم پر ہیں۔

اٹلی کے وزیر خارجہ لویجی مائیو نے ترکی کے وزیر خارجہ مہولت چاؤشولو سے 14 اگست کو ٹیلیفون پر بات چیت میں واضح کیا کہ اٹلی کی ترکی کے ساتھ کشیدگی پیدا کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اٹلی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ تمام فریقین کو اعتدال اور تعاون کی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

البتہ اٹلی کی تیل و گیس کی کمپنی ای این آئی اس وقت یونان اور قبرص کی کمپنیوں کے ساتھ مل کر توانائی کی تلاش کر رہی ہے اور یورپی اتحادیوں کے مفادات اس کی اولین ترجیح ہیں۔ اٹلی کی اس پالیسی کی تصدیق مصر کو دو فریگیٹ فروخت کرنے کے سودے سے بھی ہوتی ہے۔

اٹلی کے میگزین سٹارٹمیگ کے مطابق مصر کو دو فریگیٹ کی فروخت ایک واضح اشارہ ہے کہ اٹلی بھی خطے میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو روکنے کی کوششوں میں شریک ہے۔

ترک یونان کشیدگی

روس بھی اس معاملے میں شامل ہے

روس بھی نیوی کی مشقوں کے ساتھ اس جھگڑے میں شامل ہے۔ سرکاری طور پر روس انکار کرتا ہے کہ وہ اس تنازعے میں کسی ایک فریق کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی خطے میں خصوصاً شام میں روس کا اتحادی ہے۔

روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخاروا نے کہا کہ اگر جھگڑے کے فریقوں میں سے ایک آپ کا فوجی یا سیاسی اتحادی ہو، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔

لیکن مشرقی بحیرۂ روم میں روس کی دو بحری مشقیں یہ پیغام واشگاف الفاظ میں دے رہی ہیں کہ وہ ایک علاقائی طاقت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کے مفادات کا بھی خیال رکھا جائے۔

ترکی نے جو سخت مؤقف اپنایا اس کی بنیادی وجہ اسے ’ایسٹ میڈیٹرینئن گیس فورم‘ سے باہر رکھنا ہے۔ اس فورم کی بنیاد 2019 میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں رکھی گئی تھی جسے کچھ لوگوں نے بحیرۂ روم کی گیس کا اوپیک قرار دیا تھا۔ اس فورم کے ممبران میں اسرائیل، مصر، یونان، قبرص، اٹلی، اردن اور فلسطینی ہیں۔

اس فورم نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ وہ مشرقی بحیرۂ روم سے نکلنے والی گیس یورپ کو فراہم کرنے کے لیے پائپ لائن بچھائے گا تاکہ یورپ کا روس کی گیس کا انحصار ختم ہو۔

اس منصوبے کے تحت مشرقی بحیرۂ روم کی گیس پائپ لائن اسرائیل اور مصر سے گیس کو یورپ تک پہنچائے گی اور ترکی کو اس میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

ترکی نے کہا ہے کہ وہ یونان کے سمندری حدور کی جھگڑے میں کوئی رعایت نہیں دے گا

ترکی نے کہا ہے کہ وہ یونان کے سمندری حدور کی جھگڑے میں کوئی رعایت نہیں دے گا

ترکی کی امنگوں کا خوف

مصر کی ترکی کی مخالفت صرف بحیرۂ روم کے گیس کے ذخائر تک محدود نہیں۔ اس میں لیبیا ایک وجہ ہے۔ مصر، متحدہ عرب امارت جنرل ہفتر کی لیبئن نیشنل آرمی (ایل این اے) کے حامی ہیں جبکہ ترکی اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ جی این اے حکومت کا حامی ہے۔

مصر اور متحدہ عرب امارات بحیرۂ روم میں ترکی کے اقدامات کو اس کی مبینہ توسیع پسندانہ پالیسی کا حصہ تصور کرتے ہیں اور اسے روکنا چاہتے ہیں۔ وہ سیاسی اسلام سے خائف ہیں جس کا ترکی کو سپانسر سمجھا جاتا ہے۔

یونان اور مصر کے مابین سمندری حدود کے معاہدے کی وجہ بھی ترکی کی توسیع پسندانہ امنگوں کو روکنے کی ایک کوشش ہے۔

مصر کی ایک آزاد ویب سائٹ ’میڈا مصر‘ نے ایک ایسے مصری اہلکار کے حوالے سے خبر دی ہے جو یونان کے ساتھ معاہدے کے لیے بات چیت کا حصہ تھا۔ اس اہلکار نے بتایا کہ مصر نے یونان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے بہت ساری رعائیتیں اس لیے دی ہیں تاکہ ترکی کی توسیع پسندانہ پالیسوں کو روکا جا سکے۔

اس اہلکار نے کہا ترکی ہمیں آخری وقت تک یہ پیغامات بھیجتا رہا کہ مصر کو یونان کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بجائے لیبیا کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہیے جس میں ہمارا فائدہ ہو گا۔

اس اہلکار نے مزید کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ لیبیا کے ساتھ معاہدے کی صورت میں مصر کی سمندری حدود میں اضافہ ہو سکتا تھا لیکن اس سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے تھے جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں یعنی ہم بحیرۂ روم میں ترکی کے ساتھ کھڑے نظر آتے نہ کہ اس کی مخالفت میں، جو ہم کسی صورت میں بھی نہیں چاہتے۔

دوسری طرف لیبیا نے مصر اور یونان کے سمندری حدود سے متعلق معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ لیبیا کی حکومت نے کہا کہ مصر اور یونان کے مابین طے پانے والے معاہدے کو نہیں مانتا اور وہ ترکی کے ساتھ سمندری حدود کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کو نافذ کرے گا۔

دوسری طرف مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ لیبئن نیشنل آرمی (ایل این اے) نے مصر اور یونان کے مابین طے پانے والے معاہدے کی حمایت کی ہے۔

ترکی کی لیبیا کے معاملات میں مداخلت کو مشرقی بحیرۂ روم میں اس کے ارادوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور نہ مصر اور متحدہ عرب امارات کے ردعمل کو اس سے الگ کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp