عمران خان: انصاف لائرز فورم کی تقریب میں شرکت پر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو نوٹس جاری کر دیا


عمران خان
پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کو اُن کی اپنی ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے وکلا (انصاف لائرز فورم) کی ایک تقریب پر شرکت کرنے پر نوٹس جاری کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ نو اکتوبر (جمعہ) کو وزیر اعظم عمران خان نے انصاف لائرز فورم کی جانب سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی تھی اور حاضرین سے خطاب بھی کیا تھا جس میں انھوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے یہ نوٹس اسی تقریب میں شرکت پر جاری کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ میں یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب عدالت صوبہ پنجاب کے ریونیو کے ایک مقدمے کی سماعت کر رہی تھی۔ اس مقدمے کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں وزیر اعظم نے اس تقریب میں ذاتی حیثیت میں شرکت کی اور وزیراعظم کی کسی خاص گروپ کے ساتھ الائن نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ پورے ملک کے وزیرِ اعظم ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

‏آئی ایس آئی کو پتہ ہے میں کیسی زندگی گزار رہا ہوں: وزیر اعظم عمران خان

’فوج میرے ساتھ کھڑی ہے، کیونکہ میں کرپٹ نہیں ہوں‘

’ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج تب ہوگی جب آئین کی پاسداری کرے گی‘ : نواز شریف

اُنھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے وکلا کی تقریب میں شرکت کر کے وکلا کے کسی ایک گروپ کی حمایت کی ہے۔

جسٹس قاٰضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے۔

پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان نے عدالت کو بتایا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک وکلا ونگ ہے اور آئین کا آرٹیکل 17 جلسے جلوس کی اجازت دیتا ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ تقریب کسی پرائیوٹ ہوٹل میں ہوتی تو اور بات تھی ا ور اس تقریب کے لیے ٹیکس کے پیسوں کا استعمال کیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا رتبہ بہت بڑا ہے۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم ملک کے ہر فرد کے وزیر اعظم ہیں، کسی ایک جماعت کے نہیں۔ عدالت نے انچارج کنونشن سینٹر کو بھی نوٹس جاری کیا ہے اور ان سے پوچھا گیا ہے کہ وہ بتائیں کہ کیا اس تقریب کے اخراجات ادا کیے گیے تھے یا نہیں۔

اس مقدمے میں پنجاب کے ایڈووکٹ جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا لیکن وہ عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان کی غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نو اکتوبر کو اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں ہونے والی وکلا کی تقریب میں تو وہ موجود تھے لیکن عدالت کے نوٹس کے باوجود وہ پیش نہیں ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل پورے صوبے کے ہیں یا صرف ایک جماعت کی حد تک ان کا تعلق ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ایسی سرگرمیوں میں شریک ہوئے جن کا اس سے تعلق نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بننے کے بعد وہ اس قسم کی سرگرمیوں میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں۔

احمد اویس اس وقت صوبہ پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل ہیں۔

احمد اویس پہلے بھی اس عہدے پر فائز رہے ہیں تاہم لاہور میں ماڈل ٹاؤن واقعے کی تحقیقات کے معاملے پر وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔

چیف جسٹس سے نیا بینچ بنانے کی استدعا

سپریم کورٹ نے وزیر اعظم اور دیگر محکموں کو دیے گئے نوٹس کے بارے میں اپنا حکمنامہ پاکستان کے چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے اور استدعا کی ہے کہ اس معاملے کو دیکھنے کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا جائے۔

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھی موجودہ حکومت نے بھجوایا تھا تاہم سپریم کورٹ نے اس صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس پر لکھے گئے فیصلے کے خلاف جن جماعتوں نے نظرثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے اس میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی شامل ہیں تاہم دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود وزرات دفاع اور دیگر جماعتوں کی طرف سے نظرثانی کی یہ اپیلیں ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp