خواتین پی ایچ ڈی سکالرز کو خود کشی سے بچایا جائے


حکمران طبقات اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ حکومت گرانے اور حکومت بچانے کا کھیل جاری ہے۔ دونوں جانب دشنام طرازی میں بازی لے جانے کو سیاست کانام دے رکھا ہے۔ قومی غیرت وحمیت کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ ایک دوسرے پر ذاتی نوعیت کے رکیک وار کیے جا رہے ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ پارلمان کی سیاست کرنے والوں کے قول و فعل سے ایسا لگتا ہے کہ کسی جرائم نگری کے بھائی لوگ لوٹ مال کی بندربانٹ پر لڑتے ہوئے لغویات کے ساتھ یاوہ گوئی کر رہے ہیں۔ قوم کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ ملکی استحکام، تعلیم، صحت، معیشت سمیت کوئی بھی مسئلہ حکومت کی ترجیح میں ہے اور نہ اپوزیشن کو اس سے کوئی سروکار ہے۔

پی ایچ ڈی اعلی ترین اور قابل فخر ڈگری ہے۔ مگر خواتین کے لئے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کاحصول خوکشی کا باعث بھی بن رہا ہے۔ نادیہ اشرف پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر قومی خدمات انجام دینے کی امید پر دس سال کن کن حالات سے گزری اور اس پر کیا کیا بیتی وہ سارے راز دل میں لئے کبھی نہ بیدار ہونے والی نیند ہو چکی ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خواہش نادیہ اشرف کا جرم بن گیا اور موت کے منہ میں جانے کو ہی اس نے نجات سمجھی۔ یہ انتہائی سفاکیت اور ظالمانہ عمل ہے کہ استاد ہی شیطان بن جائے۔ طالب علم کے لئے جب ایسی صورتحال پیدا ہو جائے کہ اسے خود کشی کے علاوہ کوئی راستہ نہ ملے تو پھر پوری قوم اور ارباب اختیار کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

نمل یونیورسٹی اسلام آباد کی پی ایچ ڈی سکالر تحریم کے لئے بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حصول وبال بن گیا ہے۔ دس سال سے زائد عرصہ گزرگیا ہے۔ پی ایچ ڈی کے نگران ڈگری ایوارڈ کرنے کی منظوری دے چکے ہیں۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی ڈگری کو ایوارڈ کر چکے ہیں مگر یونیورسٹی کے ڈین نے قسم کھا رکھی ہے کہ تحریم کو اس کے ہوتے ہوئے ڈگری نہیں مل سکتی ہے۔

بات یہاں تک رہتی تو کوئی اوروجہ تلاش کی جا سکتی تھی کہ کیا امر مانع ہے کہ ڈگری نہیں دی جا سکتی ہے۔ پی ایچ ڈی سکالر تحریم نے تھک ہار کر عدالت کے دروازے پر دستک دی کہ شاید کوئی انصاف مل سکے مگر یونیورسٹی کے ڈین نے جوابی دعویٰ دائر کر دیا ہے کہ یونیورسٹی طالبہ کو ڈگری ایوارڈ نہیں کر سکتی ہے۔

نمل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے دس سکالرز ایسے ہیں۔ جنہیں دس دس سال سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے مگر انہیں تاحال ڈگری نہیں ملی ہے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ متاثرہ پی ایچ ڈی سکالرز لب کشائی پر بالکل تیار نہیں ہیں اور بولنے سے ڈرتے ہیں۔ نمل یونیورسٹی انتظامیہ سے اس قدر خوف زدہ ہیں کسی سوال کا جواب نہیں دے پاتے ہیں۔ خبر دینا چاہتے ہیں اور ساتھ کہتے ہیں کہ ان کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ نے کیا خوف طاری رکھا ہے۔ اس خوف کے پچھے کیا کہانی ہے۔ طالب علم کچھ بتانے سے گریزاں کیوں ہیں۔

یہ خوفناک صورتحال کیوں پیدا ہو رہی ہے۔ ہائر ایجوکشن کمیشن، وذرات تعلیم سمیت ارباب اختیار اس خوفناکی پر نوٹس لیں۔ والدین میدان عمل میں آ کر تعلیمی اداروں میں موجود کالی بھیڑوں، وحشی درندوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ یہ صرف تحریم اور اس کے دس ساتھی طالب علموں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ خواتین کے لئے تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مصداق ہے۔ اہل فکر طبقات، انسانی حقوق کی تنظیمیں، عورت حقوق کے علمبردار اور سول سوسائٹی آواز بلند کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).