امریکہ میں ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کیسے ہوتی ہے؟



امریکہ میں پولنگ اسٹیشن جائے بغیر ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے رجحان میں گزشتہ کئی انتخابات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن اس سال تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر کے سبب امریکہ کی تاریخ میں ڈاک کے ذریعے ریکارڈ ووٹ ڈالے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کو عموماً ’ارلی ووٹنگ‘ یعنی انتخابات کے دن سے قبل ووٹ ڈالنے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ ’ارلی ووٹنگ‘ میں ووٹر مخصوص جگہوں پر جا کر الیکشن کے دن سے قبل ووٹ ڈال سکتے ہیں۔

لیکن اس سال میل ان ووٹنگ یا بذریعہ ڈاک ووٹنگ سیاسی گفتگو اور بحث کا ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے۔

معمول کے حالات میں ایسے امریکی شہری جو ملک سے باہر ہوں یا جن کے کام کی نوعیت انہیں الیکشن کے دن ذاتی طور پر ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتی وہ ڈاک کے ذریعے اپنے ووٹ کا جمہوری حق استعمال کرتے ہیں۔

سرکاری تفصیلات کے مطابق اس سال امریکی ریاستیں کرونا وائرس کے پیش نظر ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی اجازت دے رہی ہیں۔ لیکن ہر ریاست نے اس سلسلے میں اپنا اپنا طریقہ کار متعین کیا ہے۔

امریکہ میں صحت عامہ کے نگران ادارے ’سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول‘ (سی ڈی سی) نے ووٹرز کو مشورہ دیا ہے کہ وہ روایتی طور پر قطاروں میں لگ کر ووٹنگ کے بجائے متبادل طریقوں سے ووٹ کا حق استعمال کریں۔

سرکاری ویب سائٹ پر ووٹرز سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنا چاہیں تو انہیں اپنی اپنی ریاست کے طریقہ کار سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے۔

اس ضمن میں سرکاری تفصیلات کے مطابق ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ انتخابات کے دن سے پہلے ووٹ ڈالنے کے لیے ووٹر کے پاس کوئی عذر ہونا لازمی نہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی ووٹر انتخابات میں شرکت کے عمل میں اس متبادل طریقہ کار کو اپنا سکتا ہے۔

مختلف ریاستیں، مختلف طریقۂ کار

عام طور پر ووٹرز کو ایک مقامی الیکشن دفاتر کی جانب سے ارسال کردہ بیلٹ فارم کو پر کر کے اپنے دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ جس کے بعد وہ اس بیلٹ کو لفافے میں محفوظ کر کے اپنے قریب ترین ڈاک کے ڈبے یا باکس میں ڈال کر ارسال کر دیتے ہیں۔

کرونا وبا سے قبل پانچ ریاستیں، کولوراڈو، ہوائی، اوریگون، واشنگٹن اور یوٹا نے پہلے ہی سے تمام ووٹرز کو ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ تمام رجسٹرڈ ووٹرز کو بغیر طلب کیے ہی بیلٹ پیپر ارسال کیے جاتے تھے تاکہ اگر وہ پولنگ اسٹیشن جا کر ووٹ نہیں ڈالنا چاہتے تو ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کے عمل میں شریک ہوں سکیں۔

اب کرونا وبا کے باعث کیلی فورنیا اور نیو جرسی سمیت کچھ ریاستوں نے اس سال کے انتخابات کے لیے اس ماڈل کو اپنایا ہے۔

علاوہ ازیں دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی اور 29 ریاستوں نے ووٹرز کو اجازت دی ہے کہ وہ کسی عذر یا وجہ بتائے بغیر ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے لیے اپنا اپنا بیلٹ منگوا سکتے ہیں۔

بارہ ریاستیں ایسی ہیں جہاں ووٹرز کو یہ سہولت میسر ہے کہ وہ کسی خاص وجہ کو بیان کر کے ڈاک کے ذریعے ووٹ ارسال کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی ووٹر کا انتخاب کے وقت ملک سے باہر ہونا یا 65 سال سے زائد عمر کا ہونا شامل ہیں۔

بعض ریاستوں نے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے خدشے کو بھی ان وجوہات میں شامل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر ریاست میں ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کا نہ صرف آغاز مختلف تاریخوں پر ہو گا بلکہ اس عمل کا اختتام بھی مختلف تاریخوں پر ہو گا۔

صدر ٹرمپ کو بذریعہ ڈاک ووٹنگ پر کیا اعتراض ہے؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے پیمانے پر ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے پر بارہا اعتراضات اٹھائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ووٹرز کے کسی جگہ پر موجود نہ ہونے کی صورت میں ڈاک کے ذریعے غیر حاضری یا ’ایبسینٹی ووٹنگ‘ پر کوئی اعتراض نہیں۔

وہ کہتے ہیں کو وہ خود بھی اس سہولت کے تحت کسی دوسری ریاست میں رہتے ہوئے اس ’ایبسینٹی ووٹنگ‘ کا طریقہ اپناتے ہیں۔

لیکن ان کے بقول کسی عذر کے بغیر تمام ووٹرز کو یہ سہولت دینا الیکشن فراڈ کا باعث بن سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ اس خدشے کا بھی اظہار کرتے رہے ہیں کہ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کا عمل الیکشن نتائج میں تاخیر کا بھی باعث بن سکتا ہے کیوں کہ بیلٹ پیپر گم ہونے کا امکان بھی رہے گا۔

صدر ٹرمپ کے حامیوں کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ میں اس بات کو یقینی بنانا بھی بہت مشکل ہے کہ ووٹر نے اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا ہے یا نہیں۔

صدر ٹرمپ کے اعتراضات سے امریکہ میں بحث کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اگرچہ کچھ ریاستوں میں ضمنی انتخابات میں ووٹ بذریعہ ڈاک کا تجربہ بڑا کامیاب رہا۔ لیکن کچھ ریاستوں نے ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کے عمل کو قابل اعتبار بنانے کے لیے مزید اقدامات بھی کیے ہیں۔

مثال کے طور پر ریاست جنوبی کیرولائنا میں ہر ووٹر کے بیلٹ پر کرتے وقت ایک گواہ کا اس جگہ پر موجود ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس گواہ کی موجودگی اور دستخط کے بعد ہی کوئی ووٹ ارسال کیا جاسکتا ہے۔

ڈیمو کریٹک پارٹی ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کی حامی

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مد مقابل ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن اور ان کی پارٹی کا موقف ہے کہ کرونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر ڈاک کے ذریعے ووٹنگ صحت عامہ کے لیے ضروری ہے۔

اس سلسلے میں کچھ مبصرین اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے حامی کہتے ہیں کہ مروجہ طریقہ کار ووٹ کے عمل کو قابل اعتبار بنانے کے لیے کافی ہے۔ کیوں کہ ایسی ریاستیں جہاں تمام ووٹرز کو بیلٹ ارسال نہیں کیے جاتے وہاں وہ شہری خود درخواست کے ذریعے بیلٹ منگواتے ہیں۔

اس کے علاوہ ان کے ووٹ کے موصول ہونے کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا رجحان پہلے ہی سے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ لہذٰا فراڈ کے خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

بعض ماہرین کا یہ موقف ہے کہ 2004 سے 2016 کے انتخابات کے دوران ڈاک کے ذریعے ووٹں گ میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس طریقے کے تحت ڈالے گئے ووٹس کی تعداد دو کروڑ 50 لاکھ سے بڑھ کر پانچ کروڑ 77 لاکھ ہو گئی ہے۔

بذریعہ ڈاک ووٹنگ کیا انتخابی نتائج پر اثرانداز ہو سکتی ہے؟

مبصرین کی رائے میں بذریعہ ڈاک ووٹنگ کے چار پہلو اہم ہیں۔ ایک یہ کہ وبا کے باعث یہ طریقہ کار ووٹ ڈالنے کی شرح بڑھا سکتا ہے۔ دوسرا یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا اس سے کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ حاصل ہو گا۔ تیسرا یہ کہ فراڈ کو مکمل طور پر خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چوتھا یہ کہ نتائج مرتب کرنے میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔

انتخابات سے چار ہفتے قبل تقریباً 40 لاکھ امریکی ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں۔ یو ایس الیکشنز پراجیکٹ کے مطابق یہ تعداد 2016 کے انتخابات سے چار ہفتے قبل کی تعداد سے 50 گنا زیادہ ہے۔

اس تناظر میں ’لاس اینجلس ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کرانے والے اہلکار ووٹوں کے موصول ہونے میں ممکنہ تاخیر کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ پوسٹل سروس کے بروقت بیلٹ پہنچانے پر بھی کچھ ہفتے قبل بحث ہوئی تھی۔

اخبار کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسی ریاستیں جن کے 2016 کے انتخابات کے نتائج میں ہار اور جیت میں بہت کم ووٹوں کا فرق تھا وہاں ووٹوں کے تاخیر سے پہنچنے سے الیکشن کے نتائج پر اثر ہو سکتا ہے۔

لیکن اسٹینفرڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ڈاک کے ذریعے ووٹنگ سے کسی بھی پارٹی کو سبقت یا فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

مبصرین کے مطابق 2020 کے انتخابات میں بذریعہ ڈاک ووٹنگ کی اہمیت پہلے سالوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے کیوں کہ نتائج اور پرامن انتقال اقتدار کے پہلو بھی اس سے منسلک ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa