مذہبی منافرت: سیاست کو مذہب سے علیحدہ کیا جائے


وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں ریاست دشمن عناصر کا خاتمہ کرنے کے لئے قومی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اقلیتوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران یہ بات کہی ہے۔ بظاہر اس تشویش کا مقصد دو روز قبل کراچی میں ایک دیوبندی عالم کا قتل ہے جس کے بارے میں وزیر اعظم کا خیال ہے کہ اس کے درپردہ بھارتی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے کیوں وہ ملک میں فرقہ وارانہ فساد کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان میں ہونے والے کسی سانحہ کے بعد کسی ثبوت کے بغیر وزیر اعظم کی طرف سے بھارت پر الزام عائد کرنے سے ملک کو درپیش کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اور نہ ہی کوئی دشمن اس وقت تک کسی ملک میں کسی تخریبی کارروائی کا قصد کرسکتا ہے جب تک اس ملک میں آباد لوگ آپس میں شیر و شکر ہوں اور بیرونی عناصر کا آلہ کار بننے پر تیار نہ ہوں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی اور تصادم کا جو تعلق موجود ہے، اس میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ملک میں فساد برپا کروانے کی خواہش پالتے رہتے ہیں۔

بھارت کی طرف سے اکثر پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ہو یا کوئی دوسرا سانحہ، اس میں درحقیقت پاکستان کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ بیشتر الزامات اگرچہ کسی ثبوت اور دستاویزی شواہد کے بغیر عائد کئے جاتے ہیں۔ اس قسم کی الزام تراشی کا مقصد بنیادی طور پر داخلی طور سے اپنی حکومت کا دفاع کرنے کے لئے کسی بھی سانحہ کا الزام ہمسایہ ملک پر عائد کرکے آسان راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے۔ تاہم ماضی میں بھارت نے کم از کم دو معاملات میں پاکستان کو براہ راست شواہد بھی فراہم کئے ہیں اور دو مخصوص مذہبی جنگجو گروہوں کی نشاندہی بھی کی تھی۔ بدقسمتی سے ان گروہوں کو سال ہا سال تک پاکستانی ریاست کی سرپرستی حاصل رہی تھی۔ پاکستانی حکومتوں نے بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات میں مبینہ طور سے ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے کے لئے مقدمات ضرور قائم کئے گئے لیکن کوئی عدالت ان کمزور مقدمات کی بنیاد پر کسی ملزم کو سزا نہیں دے سکی۔ عالمی سفارت کاری میں پاکستان، ملک کی ’خود مختار عدلیہ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس صورت حال سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔

پاکستان کو یہ مؤقف اور حکمت عملی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے سخت طرز عمل اور عالمی اداروں سے نئے قرضے لینے کی مجبوری میں تبدیل کرنا پڑا۔ اب انہی گروہوں کے لیڈروں کے خلاف قانون حرکت میں ہے، جو ایک زمانے میں ریاست کو اتنے عزیز تھے کہ ان کی محبت میں ایک منتخب حکومت کے خلاف ’ڈان لیکس‘ نام کا اسکینڈل کھڑا کیا گیا اور نواز شریف کو قومی مفاد کا مخالف قرار دے کر بہر صورت ملکی سیاست سے باہر کرنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا۔ یہ صورت حال بھی اہل پاکستان کے لئے باعث عبرت ہونی چاہئے کہ جو لوگ ریاستی مفادات کے اتنے بڑے محافظ تھے کہ دفاع پاکستان کونسل کے نام سے تنظیم بنا کر فوج کے شانہ بہ شانہ لڑنے اور بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے بے تاب تھے، انہی میں سے بیشتر کو عدالتوں سے سزائیں دلوا کر اب جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔ تاکہ کسی طرح پاکستان کے دامن سے دہشت گردی کی حمایت کرنے اور شدت پسند عناصر کی مالی معاونت کا دھبہ دور کیا جا سکے۔

یہ پس منظر بیان کرنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی ہے کہ پاکستان میں ہونے والے اکا دکا واقعات کا الزام بھارت پر عائد کرنے کی روایت کوئی نئی نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کراچی میں ایک قتل کا الزام بھارت پر عائد کر کے دراصل گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک میں شیعہ و سنی فرقوں کے درمیان پیدا ہونے والی دوری اور الزام تراشی کے ماحول میں کسی غیر معمولی کشیدگی کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایک سنی دیوبندی عالم کے قتل کا الزام اگر بھارت پر عائد کر دیا جائے تو اس سے ملک کے مختلف فرقوں کو یہ کہہ کر مطمئن کیا جا سکتا ہے کہ دشمن ہمیں لڑا کر کمزور کرنا چاہتا ہے۔ یہ قیاس یا الزام درست بھی ہو سکتا ہے لیکن اس سے اس کشیدگی کا جواز تلاش نہیں کیا جا سکتا جو پاکستان میں مسلسل مذہب اور فرقہ وارانہ سیاست کے نام پر دیکھی جا رہی ہے۔

ملک میں افہام و تفہیم اور دلیل سے ایک دوسرے کا مؤقف سننے اور بقائے باہمی کا ماحول پیدا کرنے کا مزاج عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں اگر ایک قتل کو بھارت کا جرم ثابت کر بھی دیا جائے تو بھی ملک میں اس وقت تک مذہبی ہم آہنگی اور سماجی اطمینان کی فضا پیدا نہیں ہو سکتی جب تک مذہبی لیڈروں کو لگام دینے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ اس کے برعکس وزیر اعظم نے ایک دوسری ملاقات میں صوبہ پختون خوا کے مذہبی لیڈروں سے ملاقات کرکے ان سے ملک میں مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کی اپیل کی ہے۔ یعنی جو کام حکومت کے کرنے کا ہے، اس کا بوجھ اگر بھارت نہیں تو مذہبی رہنماؤں پر ڈال کر اس قوت میں اضافہ کرنے کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے جو پہلے ہی نو بہ نو حیلوں سے مذہبی بنیاد پر نفرت اور سماجی کشیدگی کے لئے استعمال ہوتی ہے۔

عمران خان کی حکومت مذہب کو سیاسی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ روحانی یونیورسٹی سے لے کر ٹک ٹاک جیسے ایپ پر پابندی کے فیصلے دراصل انہی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ یا ملک میں جنسی جرائم کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ اس کی بنیادی وجہ بالی وڈ اور ہالی وڈ فلموں کی پھیلائی ہوئی فحاشی ہے۔ اسی فحاشی کا خاتمہ کرنے کے لئے عمران خان نے ترک ڈرامہ ارتغرل دکھانے کا حکم جاری کیا تھا تاکہ لوگوں میں ’مذہبی حمیت‘ بیدار کر کے حکومت کے لئے سیاسی استحکام حاصل کیا جاسکے۔ عمران خان جیسا مقبولیت پسند لیڈر سیاسی مقاصد کے لئے کسی بھی حد تک جانے پر آمادہ رہتا ہے۔ وہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کی جس سیاست کا الزام نریندر مودی پر عائد کرتے ہیں، پاکستان میں تحریک انصاف کی ’مدینہ ریاست ‘ بھی اسی مزاج اور سوچ سے استفادہ کر رہی ہے۔ یعنی بھارتی حکومت اگر ہندو دھرم کا نعرہ لگاتے ہوئے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا جینا حرام کر رہی ہے تو پاکستان میں اسلامی اقدار کا نام لے کر تمام مذہبی اقلیتوں کے لئے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔ دیانت داری سے دیکھا جائے تو مذہبی جذبات اور نعروں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے حوالے سے نریندر مودی اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں۔

بدقسمتی سے سیاسی کامیابی کے لئے مذہبی نعرے استعمال کرنے سے کوئی بھی کثیر العقیدہ معاشرہ ایسا پرسکون اور خوشگوار ماحول پیدا نہیں کرسکتا جہاں تمام شہری خود کو محفوظ محسوس کریں اور جہاں سب لوگوں کو قانون کے مطابق کسی بھی قسم کے جبر و تشدد سے تحفظ حاصل ہو۔ اگر بھارت میں نریندر مودی کی جابرانہ ہندوتوا پالیسیوں کی وجہ سے مسلمانوں اور دوسری مذہبی اقلیتوں کے لئے صورت حال خراب ہوئی ہے اور ظلم و ستم کے نت نئے واقعات سامنے آرہے ہیں تو پاکستان میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔

 ذوالفقار علی بھٹو جیسے روشن خیال لیڈر نے احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہی سوچا ہوگا کہ وہ فوری طور سے مذہبی حلقوں کو خوش کرلیتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ حالات کو کنٹرول کرلیا جائے گا۔ وقت نے بھٹو کو یہ موقع نہیں دیا اور ضیا الحق جیسے فوجی آمر نے مذہب کو ہتھکنڈا بنا کر پاکستانی معاشرے میں مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کی ایسی فصل تیار کی جس کے ہولنا ک نتائج سے ہم اب تک نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ آئے روز احمدی شہریوں کا قتل اور توہین مذہب کے نام پر مخالفین کو نشان عبرت بنانے کا طریقہ، اس وقت پاکستان کی نمایاں شناخت بن چکا ہے۔ ایسے میں اقلیتوں کے وفد سے مل کر ان کی حفاظت کا اعلان کرنا لفاظی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

مذہبی اقلیتوں کے خلاف تعصب کو ہوا دینے کے بعد اب ملک میں فرقہ وارانہ تصادم کی صورت پیدا ہو چکی ہے، جس میں دو بڑے فرقے آمنے سامنے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران سنی اور شیعہ لیڈر ایک دوسرے کے خلاف توہین مذہب کے الزامات عائد کرنے کے علاوہ ملک کے بلاسفیمی قوانین کے تحت مقدمات بھی قائم کروا چکے ہیں۔ سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ جب کسی معاشرے میں اکثریتی عقیدہ کمزورتر مذہبی اقلیتوں کو دبا لے گا تو پھر وہی اکثریت ایک دوسرے کے عقائد کی چھان پھٹک شروع کر دے گی۔ پاکستان میں اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ ایسے میں یہ توقع بے معنی ہے کہ مذہبی پیشوا یہ آگ بجھانے میں حکومت کی مدد کریں گے۔ (گھوڑا گھاس سے دوستی نہیں رکھ سکتا۔ مدیر) اس مقصد کے لئے خود حکومت کو غور کرنا ہوگا کہ جو عناصر مذہبی جذبات سے کھیلنے کا کام کرتے ہیں، وہ سماج میں احترام اور بقائے باہمی کا ماحول کیوں کر پیدا کریں گے؟

ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیکولر بھارت ایک مذہبی انتہا پسند حکومت کے ہاتھوں کیسا لاچار اور بے حال ہو چکا ہے۔ پاکستان میں تو مذہب کو ہمیشہ ریاست کا آلہ کار قرار دیا گیا ہے۔ یہاں تو کوئی ایسی روایت ہی استوار نہیں کی گئی جس میں دوسرے عقائد کے لئے احترام و قبولیت کا مزاج پنپ سکے۔ یہ صورت حال ہر آنے والے دن کے ساتھ ابتر ہورہی ہے۔ اس مرحلہ پر ریاست کو کسی ایک مذہب کا ’محافظ‘ بنانے کی بجائے مساوی شہریت، احترام انسانیت اور قانون کی بالادستی کا مظہر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے سیاست اور مذہب کو الگ کرنا ضروری ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali