امریکی صدارتی انتخاب 2020: امریکہ میں صدر بننے کے خواہشمند باقی 1214 امیدوار اپنی مہم کیسے چلا رہے ہیں؟


امریکہ میں صدارتی نظام گذشتہ 230 برس سے نافذ ہے اور اس عرصے میں جتنے بھی صدور آئے ان کا تعلق کسی نہ کسی پارٹی سے تھا ماسوائے امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کے جو آزاد امیدوار کی حیثیت سے اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے تھے۔

امریکی سیاست میں ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک جماعتیں ہی زیر بحث رہتی ہیں جو نہ صرف میڈیا کوریج بلکہ سیاسی مہم کے لیے عطیات حاصل کرنے میں بھی بالادستی حاصل کر لیتی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایسا ہونے سے کسی تیسرے امیدوار کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

اس طرح کے ’نامساعد‘ حالات میں اب کون ایسا امیدوار ہو گا کہ جو کہے کہ میں ہر صورت انتخابی مہم کا حصہ بنوں گا۔

امریکہ کے صدارتی انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی نو اکتوبر تک کی ڈیڈ لائن مکمل ہونے تک کُل 1216 امیدواروں نے فیڈرل الیکشن کمیشن میں اپنے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ (یہ اور بات ہے کہ ان امیدواروں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔)

یہ بھی پڑھیے

ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ جو بائیڈن: پہلا صدارتی مباحثہ کس کے نام رہا؟

برنی سینڈرز امریکی صدارتی انتخابات کی دوڑ سے باہر؟

حساس معلومات کے لیک ہونے کے خدشات، امریکی انٹیلیجنس کی بریفنگنز ختم

بی بی سی نے اِن 1216 امیدواروں میں سے تین امیدواروں سے بات کی ہے کہ وہ اس انتخاب میں کیوں حصہ لے رہے ہیں اور وہ کیوں اپنے آپ کو امریکی عوام کے ووٹوں کے حقدار سمجھتے ہیں۔

ان تین افراد میں ایک شعبہ موسیقی سے منسلک ہیں، ایک آئی ٹی ایکسپرٹ ہیں جبکہ تیسرے امیدوار کرپٹو کرنسی میں ارب پتی ہیں۔

’امریکی دیکھیں گے کہ محض دو آپشنز ان کا انتخاب نہیں ہو سکتے‘

امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والی جیڈ سمنز مختلف شعبوں میں متحرک خاتون امیدوار ہیں۔ وہ موسیقار، مذہبی شخصیت اور ماں ہونے کے ساتھ ساتھ سابقہ ملکہ حسن بھی رہ چکی ہیں۔

وہ اپنے آپ کو ایک غیر رسمی صدارتی امیدوار کے طور پر دیکھتی ہیں مگر یہ ایک غیر معمولی وقت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے مطابق یہ ایک ایسا وقت ہے کہ جب ہم معمول کے مطابق آگے معامالات نہیں بڑھ سکتے۔

جیڈ کا کہنا ہے کہ ’میں شہری حقوق سے متعلق سماجی کارکن ہوں، مجھے تو میرے والد نے تربیت ہی یہ دی کہ جب میں آگے چل کر کوئی خرابی دیکھوں، مظالم دیکھوں تو پھر میں ایسی صورتحال میں اپنا کردار ایسے ادا کروں کہ جیسے میں نے ہی یہ سب ٹھیک کرنا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد معاشی، تعلیمی اور فوجداری نظام انصاف میں اصلاحات سے ہر ایک کے لیے برابر مواقع پیدا کرنا ہے۔ اس وقت وہ یہ چاہتی ہیں کہ وہ امریکی تاریخ کی سب سے کم خرچ انتخابی مہم چلائیں۔

وہ انتخابی مہم میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجائے یہ سمجھتی ہیں کہ یہ رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونی چاہیے۔

وہ لبرل ہیں یا قدامت پسند؟ ان کے مطابق اس سوال کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس سے پوچھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق ہر طبقہ ہی ان کی پالیسی کی حمایت کر رہا ہے۔

ان کے خیال میں ان کا مذہبی پس منظر خود بخود انھیں قدامت پسند نہیں بناتا۔

جب سیاہ فام شہریوں کے حقوق کی بات ہو رہی ہے تو ایسے میں تمام چیلنجز کو ایک طرف رکھتے ہوئے جیڈ ہر سطح پر یہ باور بھی کرانا چاہتی ہیں کہ وہ اس طبقے کی نمائندہ کے طور پر میدان میں موجود ہیں۔

’میں نے انسانیت کی خدمت میں زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کیا‘

Brock Pierce

Peter Ruprecht

بروک پیئرس بچپن میں ایک اداکار رہ چکے ہیں۔ وہ سنہ 1996 میں فرسٹ کِڈ سے متعلق کامیڈی شو میں بھی پرفارم کر چکے ہیں جس میں وہ صدر کے بیٹے کو گھورتے ہیں۔

ٹیکنالوجی سے متعلق ان کے دوسرے کاروبار نے انھیں کرپٹو کرنسی کا ارب پتی بنا دیا۔

وہ صدارتی انتخابات کیوں لڑ رہے ہیں؟ شاید اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ملک کے موجودہ حالات سے متعلق بہت فکرمند ہیں۔

ان کے مطابق ہم مستقبل کا ادراک نہیں رکھتے ہیں۔ اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ ’ہم 2030 میں کس قسم کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں؟ منصوبہ کیا ہے؟ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں؟ آخر کار جو کچھ ہو رہا ہے اس کا کوئی مقصد ہونا چاہیے۔‘

ان کے وہ مطابق وہ دیکھ رہے ہیں کہ اس حوالے سے ایک دوسرے پر کیچڑ زیادہ اچھالا جا رہا ہوتا ہے جبکہ زیادہ تر لوگ آگے بڑھنے سے متعلق خیالات پیش نہیں کر رہے ہیں۔

ان کے لیے یہ بہت خوفناک پہلو ہے اور وہ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ’ایک ویژن رکھتے ہیں۔‘

گذشتہ چار برس سے بروک خیراتی کاموں پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی تنظیم نے حال ہی میں 10 لاکھ ڈالر کا عطیہ جمع کیا جو انھوں نے ڈاکٹروں کے لیے ضروری حفاظتی سامان خریدنے کے لیے مختص کر دیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں امریکہ کی آئندہ چار برس تک کے لیے کیا پالیسی ہونی چاہیے تو ان کی تجویز تھی کہ ہمیں محض پیداوار کے لیے پیداوار کے عمل کو روکنا ہو گا اور اس امر کو یقینی بنانا ہو گا کہ کس حد تک لوگ خوشحال، آزاد اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

بروک کو ماضی میں جنسی ہراسانی جیسے الزامات کا بھی سامنا رہا، جن کی وہ تردید کرتے آ رہے ہیں۔

فیڈرل الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق بروک پیئرس نے اپنی انتخابی مہم کے لیے 37 لاکھ ڈالر مختص کر رکھے ہیں۔

’اس ملک کی بنیاد میں موجود کچھ چیزیں تبدیل کرنی ہوں گی‘

Mark Charles speaks at an indigenous people's march in Washington DC

Shane Bahn

ایک بات جو آزاد امیدواروں کو جوڑے رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ انھیں کسی جماعت کی خوشنودی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ خود اپنی مہم چلا رہے ہوتے ہیں اور ان مسائل پر کھل کر بات کر سکتے ہیں جو ان کے دل سے زیادہ قریب ہیں۔

مارک چارلس اس کی کلیدی مثال ہیں۔

پیشے کے اعتبار سے وہ ایک کمپیوٹر پروگرامر ہیں مگر وہ سماجی انصاف سے متعلق ایک متحرک کارکن بھی ہیں۔ وہ ان مسائل پر کام کر رہے ہوتے ہیں جو امریکیوں کی زندگی کو زیادہ متاثر کرتے ہیں جس میں نسلی تعصب بھی شامل ہے۔

وہ اپنے آپ کو ٹرمپ اور بائیڈن کے متبادل امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ان کے مطابق وہ امریکہ کو سب کے لیے رہنے کے قابل ایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں جہاں سب برابری کے ساتھ ایک خوشحال زندگی بسر کر سکیں۔

وہ امریکہ کے مقامی باشندوں کی ایک نسل نواجو میں سے ہیں اور ان کی مہم اسی سے متاثر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ آج جس زمین پر واشنگٹن ڈی سی شہر تعمیر ہے وہ پسکتاوا نسل کے افراد کی تھی۔ ’سمندر میں کولمبس کے گم ہو جانے سے پہلے یہ ان کی زمین تھی۔ اور وہ آج بھی یہیں ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میں اس زمین پر رہ رہا ہوں، ان کی زمین پر۔ میں انھیں میزبان لوگ ہونے پر خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔‘

سنہ 2000 کے اوائل میں چارلس نواجو کے ایک علاقے اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہو گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے وہاں سے بھی صدارتی انتخاب پر نظر ڈالی۔ ’ہمارے علاقے میں پانی، بجلی نہیں ہے۔ ہمارے ہمسائے قالین بناتے ہیں یا چرواہے ہیں۔‘

وہ اپنی مہم میں ان افراد کے لیے کچھ کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا آئین ’ہم لوگوں‘ سے شروع ہوتا ہے لیکن اس میں مقامی باشندے یا خواتین شامل نہیں۔ اس میں افریقیوں کو ایک شخص سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔۔۔ ہمیں اس ملک کی بنیاد میں موجود کچھ چیزیں تبدیل کرنی ہوں گی، جیسے صنفی تعصب، نسلی امتیاز اور سفید فام افراد کی برتری۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp