ملک میں اختیار اور حاکمیت کا سرچشمہ


نواز شریف کے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس سے خطاب نے ملکی سیاست کومتحرک تو کر ہی دیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس سے نواز شریف کی تقریر نے ملکی حاکمیت کی کشمکش کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ آئین کی پامالی کرنے والے چند افسر پوری فوج کو بدنام کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان یہ تو کہتے آ رہے ہیں کہ ”فوج حکومت کے ساتھ ہے“ ، تاہم اب ان کا کہنا ہے فوج حکومت کے ہر ایجنڈے میں ساتھ کھڑی ہے۔ حکومت کے خلاف جلسے، جلوسوں کے پروگرام کے حوالے سے انہوں نے دعوی کیا کہ اپوزیشن کے کہنے پر لوگ نہیں نکلیں گے۔ اس کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ آئین اور قانون کی رہنمائی میں منتخب حکومت کی مدد جاری رکھیں گے۔

عام شہری بھی اب جانتے ہیں کہ ملک میں عسکری طاقت کے علاوہ حاکمیت کا سرچشمہ بھی پاک فوج ہی ہے۔ اس لئے اگر اپوزیشن اتحاد کی طرف سے یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ عمران خان کو الیکشن جتوا کر وزیر اعظم بنانے والے، ملک کی ابتر اقتصادی حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کریں اور وزیر اعظم عمران خان اپوزیشن اور عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ”فوج ان کے ساتھ ہے“، تو حیرت نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس حقیقت کا اعتراف اور ادراک ہونا چاہیے کہ پاک فوج کی بالادستی ہر شعبے اور ملک بھر پرحاوی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے فوج کی حمایت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے خلاف بیانات کی تیزی سے واضح ہوتا ہے کہ بات اتنی بھی آسان نہیں۔ عمران خان حکومت کی پریشانیوں، مشکلات اور غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ فوج کے عہدیداروں سے سیاسی شخصیات کے رابطوں اور ملک کے پر شعبے میں خدمات سرانجام دینے کی صورتحال میں عوام اس بات پہ بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس کے بعد مختلف سنگین جرائم کے مقدمات میں ملوث اور حکمران ”پی ٹی آئی“ سے رفاقت رکھنے والے ایک ”عام شہری“ نے لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں نواز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کے درجنوں مرکزی رہنماؤں، جن میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان بھی شامل تھے، کے خلاف غداری، بغاوت کے الزامات میں ”ایف آئی آر“ درج کر ائی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اس مقدمے کے اندراج پر ناپسندیدگی ظاہر کی گئی لیکن ساتھ ہی لاہور سٹی پولیس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ اس ”ایف آئی آر“ کے مطابق کارروائی ضرور کی جائے گی۔

اس کے بعد اس معاملے پر ”جے آئی ٹی“ بھی بنا دی گئی۔ قانون اور قواعد و ضوابط کے مطابق ملک سے بغاوت اور غداری کے الزامات میں حکومت کی طرف سے ہی مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے نواز شریف کے علاوہ دیگر تمام رہنماؤں کے نام ”ایف آئی آر“ سے خارج کرنے کی اطلاع سامنے آئی۔ اسی دوران حکومت نے نواز شریف کو لندن سے واپس لانے کے لئے کوششوں کو تیز کرنے پر توجہ دی اور اطلاعات کے مطابق نواز شریف کے پاسپورٹ اورقومی شناختی کارڈ کو منسوخ کرنے کی کارروائی بھی زیر عمل لائی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے برطانوی حکومت نے نواز شریف کی واپسی کے مطالبے کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا تھا کہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔

وزیر اعظم عمران خان، ان کی حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے یہ عندیہ مل رہا ہے کہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے جلسوں اور جلوسوں کے خلاف سختی کا رویہ اپنایا جائے گا۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ“ نے 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ جلسے سے احتجاجی تحریک شروع کرنے اعلان کیا ہے۔ اس کے بعد 18 اکتوبر کو کراچی، 25 اکتوبر کو کوئٹہ، 22 نومبر کو پشاور، 30 نومبر کو ملتان اور 13 دسمبر کو لاہور میں جلسے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے اور دوسرے جلسے میں ایک دن، دوسرے اور تیسرے جلسے میں چھ دن کا وقفہ رکھا گیا ہے یعنی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے پہلے تین جلسے یکے بعد دیگرے ہوں گے۔ پشاور کا جلسہ تقریباً تین ہفتے، ملتان کا ایک ہفتے کے وقفے کے بعد ہوگا۔ جلسوں کے اس سلسلے کا آخری جلسہ، ملتان کے جلسے کے ایک ہفتے بعد لاہور میں ہو گا۔

اس وقت گوجرانوالہ جلسے کی تیاریاں جاری ہیں اور حکومت کی سختی کی کارروائیوں کی ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت سرکاری طاقت سے ان جلسوں کے خلاف سخت تر کارروائیوں کا ارادہ رکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور جمعیت العمائے اسلام و دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ایک ساتھ جلسوں کو حکومت اپنے خلاف بڑا سیاسی خطرہ تصور کرتے ہوئے سرکاری سطح پہ سختی کی راہ اپنا رہی ہے۔ خاص طور پر مولانا فضل الرحمان کی بڑی اور منظم سٹریٹ پاور سرکاری تشویش کا باعث ہے۔

ایک وفاقی وزیر کی طرف سے اپوزیشن کے جلسوں کے حوالے سے تشدد کے امکانات ظاہر کرنے سے بھی ان امکانات کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت جلسہ نہ ہونے دینے، گرفتاریوں، پولیس و دیگر فورسز کے استعمال سمیت تمام آپشنز پر عمل کر سکتی ہے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ حکومت تو اپوزیشن کے جلسوں کو اپنے لئے خطرہ سمجھ رہی ہے، لیکن کیا ملک میں اختیار و حاکمیت کا سرچشمہ بھی اپوزیشن کی اس تحریک کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتا ہے؟

ملک میں حاکمیت کی طاقت کا سرچشمہ آئین سے نہیں پھوٹتا بلکہ حقیقی اور عملی منظم طاقت ہی اختیار اور حاکمیت کا مرکز ہے۔ کیا ملک میں شکر گزار اور تابعدار حکومت اور پارلیمنٹ کے پردے میں حاکمیت کا نظام بدستور چلتا رہے گا یا ملک کو حقیقی طور پر مضبوط بنانے کے لئے آئین کو بالادست طاقت تسلیم کیا جائے گا؟ یا ہماری آرزوؤں اور تمناؤں کے مرکز ہمارے وطن کے لئے اغیار اور اغیار کی متعین قوتوں نے ہمارا کچھ اور ہی نصیب طے کر رکھا ہے؟ اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔ ایک طرف شاید وقت ہی وقت ہے لیکن عوام اور ملک کے لئے وقت بند مٹھی سے ریت کی طرح نکلتا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).