میرے دیس کا بسکٹ گالا اور ہمارے فحاشی بابے


انگریزی کا ایک لفظ ہوتا ہے جسے obsession کہتے ہیں۔ یہ لفظ ایک ایسی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے کہ جس میں کسی خیال کو ذہن پر طاری کر لیا جاتا ہے اور پھر وہ خیال ایسا ذہن میں راسخ ہوجاتا ہے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ حقیقت میں یہ ایک ذہنی کیفیت بن جاتی ہے جو کہ بعد میں مینٹل ڈس آرڈر کا سبب بنتی ہے۔ یہ کیفیت ایسے معاشروں میں جنم لیتی ہے جہاں چوائسز کا فقدان ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں زندگی کے لاتعداد رنگوں اور دلکشیوں کو مخصوص فریم میں قید کر کے دکھایا جاتا ہے۔

روایتی قدغنوں اور ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے زیر اثر پروان چڑھنے والے سماج میں کلر بلائنڈ قسم کے لوگ پیدا ہوتے ہیں جن کا مقصد زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور خواہشوں میں ایک ایسا زاویہ نظر ڈھونڈنا ہو تا ہے جو ان خوشیوں کی چاشنی کو تلپٹ کر سکے۔ ایسے لوگوں کو اپنے راسخ نظریات کی وجہ سے یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ وہ عقل کل کے درجہ پر فائز ہوچکے ہیں اور وہ ہر معاشرتی پہلو پر اپنا فرمان جاری کر سکتے ہیں۔ ملک عظیم میں کچھ اسی قسم کے مائنڈ سیٹ کی ترجمان آوازیں سننے کو مل رہی ہیں کہ سوشل ایڈز میں اشتہارات کے نام پر لوگوں کو مجرا دکھایا جا رہا ہے اور ٹک ٹاک کے ذریعے سے بھی لوگوں کے ایمان کو خطرہ میں ڈالا جا رہا ہے۔

ان فحاشی بابوں کو ان کی باریک بینی پر داد دینی چاہیے کہ کروڑوں لوگوں کے اس دیس میں ان چند لوگوں نے فحاشی کو تاڑ لیا اور اب لوگوں کے ایمان کو بچانے کی سر توڑ کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ جس کی بدولت آج ہم ایک آسان زندگی جی رہے ہیں اور اپنی مرضی سے جو دیکھنا، سننا اور پڑھنا چاہیں وہ اب سب ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی نے ہر چیز کا ریموٹ انسان کے ہاتھ میں تھما دیا ہے اگر آپ کو کوئی چیز پسند نہیں ہے تو آپ خاموشی سے سوئچ اوور کر سکتے ہیں اور اپنے ایمان کی حفاظت بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں۔

آج کے جدید دور میں ہم اپنی اخلاقی تعلیمات کا پلندا کسی پر زبردستی نافذ نہیں کر سکتے۔ یہ سارا ہنگامہ ایک بہت ہی خوبصورت کمرشل ایڈ پر ہوا، جس میں پاکستانی ایکٹر مہوش حیات کا بھی رول ہے۔ یہ حقیقت میں گالا بسکٹ کا اشتہار تھا جسے مہوش حیات نے بڑی خوبصورتی سے نبھایا مگر بدقستی سے یہ خوبصورت ایڈ ایک فحاشی بابا کی نذر ہو گیا اور پیمرا نے بھی اس پر پابندی لگا دی۔ ان فحاشی بابوں کو عورت کے ہر روپ میں فحاشی نظر آتی ہے کیونکہ انہوں نے عورت کو کبھی انسان سمجھا ہی نہیں۔

ان کی نظر میں عورت ایک سیکس اوبجیکٹ ہے، بچے پیدا کرنے کی ایک مشین اور گھر کی چار دیواری ان کی کل کائنات ہے۔ مرد کے لیے ایسی کوئی قدغن نہیں ہے اور وہ اپنی زندگی اپنے طریقے سے جی سکتا ہے۔ اس گھسی پٹی سوچ کا ماحصل یہ ہے کہ دنیا میں عذاب اور زلزلے بھی عورتوں کی بے حیائی اور فحاشی کی وجہ سے آتے ہیں۔ یعنی یہ بات طے ہے کہ مرد بے حیا اور فحش نہیں ہو سکتا بلکہ وہ تو دودھ کا دھلا ہوتا ہے۔ ننھی بچی زینب کو روندنے والا کون تھا؟

مردہ عورتوں کی لاشوں کو قبر سے نکال کر عصمت دری کرنے والا کون تھا؟ سو بچوں کا قاتل جاوید اقبال کون تھا جو بچوں کی لاشوں کو بھی تیزاب برد کر دیتا تھا؟ دن کو معزز و پرہیز گار اور رات کو ریڈ لائٹ ایریا میں اپنی جنسی بھوک مٹانے والے کون ہوتے ہیں؟ پشاور میں طالبات کی عصمت دری کرنے والا اسلامیات کا ڈین کون تھا؟ مدرسوں میں چھوٹے بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے کون ہوتے ہیں؟ راولپنڈی موٹروے پر دو بچوں کے ہمراہ سفر کرنے والی عورت کا بے دردی سے ریپ کرنے والے کون تھے؟

اس منافق سماج میں ہمیں عورتوں کی بے حیائی تو دیکھ لی جاتی ہے مگر مردوں کی درندگی نظر نہیں آتی۔ عورت تو پھر بھی کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے اپنا جسم بیچتی ہے مگر مردوں کی کیا مجبوری ہوتی ہے کہ وہ درندگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود بھی اخلاقیات کے طرم خان بنتے ہیں۔ منافقت کے اس دہرے معیار کے اوپر درجنوں سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان فحاشی بابوں کو ایک مشورہ ہے کہ وہ اپنے موبائل فون، ٹی وی سیٹ اور کمپیوٹر کو فحاشی سے پاک کر کے دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں مگر باقی عوام کو بخش دیجیے اور ہر ایک کو اپنی زندگی جینے دیجیے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جس دن اس پدرسری سماج میں عورت جبریت سے آزاد ہو کر اپنے قد وقامت سے سامنے آ گئی تو پھر کیا بنے گا۔ ابھی تو صرف ایک کمرشل اشتہار نے نیندیں اڑائیں ہیں دوسری صورت میں تو بھونچال آ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).