مگر مفتی منیب الرحمن کا قصور


پرانے علما تو کب کے لد گئے اور جو اس دور میں موجود ہیں ان کا المیہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مسجد یا مدرسے سے ہوتا ہے۔ یہیں سے ان کی دینی تربیت کا آغاز ہوتا ہے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد، یہیں سے وہ مستقبل کی قوم تیار کرنے کا آغاز کرتے ہیں۔ انسان جس دائرے میں رہتا ہے، اس کا مشاہدہ بھی اسی دائرے تک محدود ہوتا ہے۔ مختلف امور پر اس کی رائے اسی مشاہدے کی مرہون منت ہوتی ہے۔ لہذا جب تک علما ایک مدرسے یا مسجد تک محدود ہوتے ہیں تو ان کی گفتگو یا تقاریر کے موضوعات اسی دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ مثلاً: یہ فلاں مکتب فکر کا مولوی، فلاں فرقے کی کتاب، فلاں فرقے کی تنظیم یا پھر فلاں مذہب کا مدرسہ۔

یہ دائرہ اور نقطۂ نظر اتنا سخت اور تنگ ہو چکا ہے کہ آپ کو یہاں اللہ کی مسجد تو نہیں ملے گی لیکن دیو بندیوں، بریلویوں، شیعوں یا اہل حدیثوں کی مساجد ضرور مل جائیں گی۔ جب کوئی عالم دین اس حصار سے نکل کر ملکی و عالمی سطح کے دائرے میں آتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ ملکی سلامتی کے تقاضے کیا ہیں، ملک اور اسلام کے خلاف کیا کیا سازشیں ہو رہی ہیں، یعنی جب اس کی سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو اس کی سوچ اور فکر کی سطح اور گفتگو کے موضوعات یکسر بدل جاتے ہیں اور وہ مذہب کے دائرے سے نکل کر دین کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔

اگر چہ اس کا عقیدہ وہی رہتا ہے اور وہ کبھی بھی صحیح کو غلط یا غلط کو صحیح کہنے کا روادار نہ بھی ہو لیکن وہ ان فروعی نزاعی مسائل کو اپنی ذات تک محدود رکھ کر ملک و قوم کے وسیع تر تناظر کو مقدم کر لیتا ہے۔ جب اس کی ذمہ داریاں ایک مدرسے کی سطح سے بلند ہو کر ملکی سطح تک پہنچتی ہیں تو اس کی ترجیحات بالکل تبدیل ہو جاتی ہیں۔ پہلے اس کی کوششیں فروعی مسائل کے اثبات یا نفی میں صرف ہوتی تھیں لیکن اب وہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ قوم، ملک اور دین کی خاطر فروعی مسائل کو پس پشت ڈال کر ملی وحدت کے لیے کام کیا جائے۔

وہ اپنے مدرسے یا مسجد کو بچانے کی بجائے، قومی اور عالمی سطح پر ہونے والی سازشوں کو نا کام بنانے میں جت جاتے ہیں۔ جب کوئی عالم اس سطح پر آتا ہے تواسے اپنوں اور بیگانوں کے ”دائروی مولویوں اور نام نہاد پیروں“ کی طرف سے بے تکی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ظلم یہ ہے کہ کوشش دین کے نام پر کی جاتی ہے۔ جن کی دال روٹی ہی تقسیم اور نذرانوں کی بنیاد پر چلتی ہو وہ بھلا کب برداشت کریں گے کہ تقسیم کی لکیر مٹ جائے؟ لہذا وہ ملی چادر کو پارہ پارہ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

لیکن قومی سطح کی ذمہ داریوں کے حامل یہ علما بھی صلح کے راستے پر چلتے رہتے ہیں۔ صورت احوال اس وقت بہت نازک ہو جاتی ہے جب یہ علما قومی سطح پر ایک وسیع مسلک یا طبقے کی نمائندگی کرتے ہوں۔ ایسی صورت میں ان کی ذرا سی بے احتیاطی ملک و قوم کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک سکتی ہے۔ اسی حساسیت کے پیش نظر یہ لوگ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی بجائے ملک اور ملت کے مفاد کا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ مفتی منیب الرحمن کا شمار انہی علما میں ہوتا ہے، جن کی پاکستان کے تمام مسالک کے مقتدر اور معتبر علما کے یہاں عزت مسلمہ ہے۔

ایسے علما ملک و قوم کے لیے غنیمت ہوتے ہیں، جس کی مثال امسال محرم میں سامنے آئی، جب چند شرپسند عناصر کی وجہ سے ملک میں سنی شیعہ فسادات کی آگ سب کچھ بس بھسم کرنے ہی والی تھی کہ دونوں اطراف کے ممتاز علما سامنے آئے اور ملک دشمن قوتوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ آگ تو بجھ گئی لیکن ان علما کو اپنوں اور بیگانوں کے طرف سے طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑا۔ مفتی منیب الرحمان کو بھی اسی نفرت کا نشانہ بنایا گیا۔

مختلف ویڈیوز اور پوسٹوں کا تواتر سے جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ ان کی مخالفت دو طرح کے لوگ کر رہے ہیں، مسلکی مفاد پرست جاہل ٹولہ اور تساہل پسندی کا شکار بیرون ملک مقیم پیری مریدی کا دھندا کرنے والے لوگ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کا کام ہی ”Divide and Rule“ کے تحت چلتا ہے۔ بد قسمتی سے اس طرح کے لوگ تمام مسالک میں گھس گئے ہیں جن سے اس وقت بھی ملکی وحدت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ لہذا حکومتی ایجنسیوں کو پانی سر سے گزرنے سے پہلے اس کا سد باب کرنا چاہیے۔

اگر ایک طرف پڑھے لکھے عوام اس طرح کے تکفیری پیروں اور مولویوں سے دور رہنے لگے ہیں، تو دوسری طرف ان تکفیری پیروں اور مولویوں نے آپس میں اتحاد کر لیا ہے جس کا نشانہ سادہ لوح مرید اور شاگرد بن رہے ہیں۔ مرید اور شاگرد اگر عقیدت مند ہوں اور جاہل بھی ہوں تو وہ بارود کے مانند ہوتے ہیں، جن سے ملکی خرمن کو ہمہ وقت خطرہ رہتا ہے۔ مفتی منیب الرحمن کے خلاف چلنے والی حالیہ مہم میں، یہ پہلو زیادہ اجاگر رہا ہے۔ کیوں کہ ان کے ہم مسلک بعض پیر اور مولوی چاہتے ہیں کہ وہ حکومت کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کو وحدت کی بجائے انتشار اور مسلکی خدمت کے لیے وقف کریں۔

ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ اگر مفتی منیب الرحمان جیسے لوگوں کو وحدت کا پیغام عام کرنے دیں۔ اس سے نا تو کسی کی کرامات رک سکتی ہیں، نا کسی کے چندے میں کمی آئے گی، نا کسی کی دست بوسی کو زوال آئے گا اور نا ہی کسی پر پھول برسانے کا سلسلہ بند ہو گا۔ لہذا ان کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں بلکہ ان کے دست و بازو مضبوط کریں۔ یہ ملک ہے تو ہمارے ”کاروبار“ سلامت ہیں، ورنہ جب بانس ہی نہ ہو گا، تو نا تو بانسری ہو گی اور نہ اسے بجانے والے اندھے عقیدت مند۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).