بھیک کا انوکھا طریقہ یا احتجاج کا نرالا انداز


کچھ دن قبل ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی بلکہ بعد میں سنا ہے کہ اس کی ویڈیو بھی وائرل ہو چکی ہے، کہ امریکا میں ایک جوان بیچ چوراہے میں سراپا احتجاج ہے یا پھر ہمہ تن کاسہ لیسی پر اتر آیا ہے کہ امریکی قوم سے ایک پلے کارڈ پہ لکھی ہوئی تحریر سے کچھ اس طرح سے مخاطب ہے : ”ایک ڈالر دو، ورنہ آنے والے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کو ووٹ دینے جا رہا ہوں۔“ اور اسی اثنا میں ایک پکی عمر کا شخص بھی دکھایا گیا ہے کہ وہ اس بھیک منگے یا پروٹیسٹر کے ساتھ ذرا جھک کر کھڑا ہے اور اس کو ہاتھ میں ایک ڈالر پکڑا رہا ہے۔

اب یہ طریقہ اگر ایک جانب انوکھا اور نرالا ہے تو دوسری طرف، سیاسی، معاشی اور اخلاقی بھی ہے، وہ اس لیے کہ یہ طریقہ ہزار بار بھیک یا بلیک میکنگ کا عکاسی کرتا ہو، پر نعرہ یا احتجاجی تحریر سیاسی ہے۔ یہ نعرہ نا صرف امریکا بلکہ تمام دنیا کی سیاست میں ایک گونج کی شکل میں سنا گیا اور تحریر کو وائٹ ہاؤس کے خلاف ایک وائٹ پیپر کی طرح سمجھا گیا۔

جمہوری ممالک میں احتجاج کا انوکھا پن کوئی نئی بات نہیں، بوٹ کلب یا جوتا مار کلب کا آغاز اور اس کی رکنیت سازی کا بڑھتا ہوا رجحان تو ابھی کی بات ہے اور یہ سلسلہ آگے کہاں تک جائے گا اس کا علم سیاست کے جغادریوں کو بھی نہیں، منہ پہ کالک کا ملوانا یا سیاہی پھنکنا بھی کل کی بات ہے اور مستقبل میں یہ کہاں جا کے رکے گا، یہ بتانا بھی کسی سیاسی عامل کی بس کی بات نہیں، دھرنا دینا تو جیسے اب سیاست میں اپوزیشن کا ایک خاص فیشن بن گیا ہو، جس کا مظاہرہ اسلام آباد میں عوام نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار دیکھا ہے اور یہ فیشن عمران خان کے دھرنے سے شروع ہوا۔

ایک اقلیتی رہنما جناب جے سالک بھی احتجاج کے انوکھے طریقوں کے لئے مشہور تھے۔ ایک بار تو اس نے خود کو پنجرے میں بند کیا تھا۔ احتجاج میں منہ پر تالا لگانا اور سر پر کفن باندھنا بھی اپنے وقت کا تازہ پیوند کاری سمجھا گیا تھا اور اب بھی یہ اتنا ہی نیا ہے جیسا کہ یہ پہلے تھا۔ اسی طرح خود سوزی اور بچہ فروشی کا احتجاجی عمل بھی اقتدار کے ایوانوں کے باہر کئی بار دہرایا گیا اور اپنے نئے پن کا نقوش لوگوں کے ذہنوں پر چھوڑ کر پرانا ہوتا گیا۔ بھوک ہڑتال، جلاؤ گھیراؤ، پتھراؤ، شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال تو جیسے یہاں کی بنیادی پہچان رہا ہو۔

اس سے پہلے ایک نرالا پن احتجاج میں یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت میں شامل یا برسر اقتدار پارٹی بھی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج میں شامل ہوتی رہی ہے، جس میں سب سے پہلا نام ایم کیو ایم کا ہے، جو یہ کام کئی بار کر چکی ہے اور اپنے اس انوکھے احتجاج سے عوام اور خواص کو خاصا محظوظ کیا۔ اس کے بعد یہ کام پیپلز پارٹی بھی اس انوکھے احتجاج کا سہرا اپنے سر سجا چکی ہے اور اقتدار میں ہوتے ہوئے عوامی احتجاج میں اپنی ہی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج رہی ہے اور صاحبان عقل و دانش سے اس عمل پر خوب ”داد“ اور ”پذیرائی“ حاصل کی۔

شہباز شریف جب پنجاب کے وزیر اعلی تھے تو حکومت کے خلاف بجلی اور گیس کے لوڈ شیڈنگ کے احتجاجی مظاہرے میں بنفس نفیس شریک ہوئے تھے اور اس وقت صحافتی حلقوں میں شہباز شریف کی اس احتجاجی شرکت کو آڑے ہاتھوں لیا گیا تھا۔

جیسا کہ آج ہر طرف مہنگائی اور بیروزگاری کا دور دورہ ہے، ملک بیرونی قرضے میں گھر چکا ہے، عوام کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ عمران خان بھی دو دن پہلے مہنگائی کی روک تھام کا سراغ لگانے کا سختی سے کہہ چکے ہیں۔ گو کہ ان کا نوٹس لینے کا ماضی کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا ہے، پر اب کی بار دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ویسے عمران خان پاکستانی عوام سے ہمیشہ خوش باش رہے ہیں۔ خصوصی طور پر چندہ یا ڈونیشن کے سلسلے میں اور بار ہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی قوم دنیا میں سب سے زیادہ چندہ دیتی ہے اور میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ ڈونیشن ملتا ہے۔

فرض کر لیتے ہیں کہ عمران خان اگر اس بار یہ طریقہ اپنائیں، اس انوکھے پن سے ڈونیشن اکٹھا کرنے کی عوامی مہم شروع کریں کہ جگہ جگہ باکس رکھ دیں اور اس پر لکھ دیں اس باکس میں سو سو، پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار کے نوٹ ڈال دیں، ورنہ دوبارہ الیکشن میں جیت کر آ رہا ہوں۔ اس سے دو فائدے حاصل ہو جائیں گے، ایک یہ کہ ملک کے تجوری میں خاصا اچھا پیسہ اکٹھا ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ عمران خان کو ایک اور یو ٹرن کا موقع مل جائے گا اور پیسہ اکٹھا کرنے کے بعد اپنی بات سے پھر جائیں اور اس عمل کو ایک انوکھے احتجاج کا نام دیا جائے، جیسا کہ ان سے پہلے حکومتوں میں اپنی ہی حکومتوں کے خلاف انوکھے اور نرالے احتجاج ہوئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).