ناسٹیلجیا: سلمان باسط کا آتش رفتہ کا سراغ


پروفیسر سلمان باسط۔ ایک علمی اور ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے دادا غلام حیدر مرحوم صاحب دیوان شاعر تھے۔ دادا کے بھائی میراں بخش منہاس، پنجابی زبان کے پہلے ناول نگار اور عمدہ شاعر بھی تھے۔ سلمان باسط کے بڑے بھائی عثمان خاور شاعر اور سیاح ہیں اور سیاحت نگری پر خامہ فرسائی فرماتے رہتے ہیں۔ سلمان باسط انگریزی ادب کے استاد اور پروفیسر ہیں۔ انہوں نے انگریزی زبان و ادب کے چند چنیدہ کتابوں کے اردو میں تراجم بھی کیے اور ایک اچھے شاعر اور طنز و مزاح خاکہ نگار بھی ہیں۔ ان کی کتاب ”خاکی خاکے“ خاصی مقبول ہوئی۔ ”ناسٹیلجیا“ آپ کی تازہ ترین کتاب ہے جو کہ آپ بیتی پر مشتمل ہے اور ابھی اس کا پہلا پڑاؤ ہے۔ یعنی آپ پہلا حصہ کہہ سکتے ہیں اور یہ آج کل ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل کر رہی ہے۔

کہتے ہیں کہ انسان ماضی گزیدہ ہے، اور اگر اس کی یاد داشت اچھی ہو تو وہ خواب گزیدہ جہاں، اس کے لیے عذاب بھی بن سکتا ہے۔ اور اگر جنت گم شدہ میں بچپن کا ساون، کاغذ کی کشتی اور بارش کا پانی ابھی بھی آنکھوں میں موجود ہو، تو وہ کبھی خدا سے اپنے حافظے کے چھن جانے کی استدعا نہیں کرے گا۔ وہ بیتے دنوں کو کبھی بھول نہیں پائے گا اور آخری دن تک یاد رکھتا ہے۔ بچپن سب کا ایک جیسا ہی حسین خوبصورت اور دلربا ہوتا ہے، یہ ایک ایسی ٹائم مشین ہے جس میں کوئی بھی جب چاہیے ان وادیوں میں اتر سکتا ہے اور جتنا چاہے اپنے آپ کو گم کر کے اک خوشی، اک تسکین سی پا سکتا ہے۔ اس ٹائم مشین کی فریکوئنسی اور کانفیگریشن تبھی مکمل ہو گی، جب آپ ناسٹیلجیا کے بٹن کو پریس کریں گے۔

تبھی آپ ماضی کے طلسم کدہ میں اتر کے حسین یادوں کو چلتا پھرتا اور چاروں جانب رقص کرتا پا سکتے ہیں، آپ کی آنکھیں جھلمل ستاروں کی ماند چمک جائیں گی وہ لمحات آپ کو حسین لگنے لگیں گے۔ یاد رہے کہ اس سمے آپ نے یوسفی صاحب کے اس قول کو زیادہ خاطر میں نہیں لانا ہوتا کہ ”جب انسان کو ماضی، حال سے زیادہ پر کشش نظر آنے لگے اور مستقبل نظر آنا ہی بند ہو جائے تو باور کرنا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے۔“

جان ملٹن نے بچپن کو کھوئی ہوئی جنت کہا ہے۔ جب کہ سلمان باسط نے نا صرف اپنی گم شدہ جنت ڈھونڈ نکالی ہے، بلکہ نہایت تمکنت و شوکت سے خامہ فرسائی کرتے ہوئے اسے آباد بھی کر لیا ہے۔ اور اس جہاں میں پورے جہان کو شریک کر لیا ہے۔ ہر انسان کو اس میں اپنا اپنا ناسٹیلجیا نظر آتا ہے۔

بدیشی لفظ ناسٹیلجیا اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ ماضی کی باتوں کو یاد رکھنا، حسرت ناک یادیں، گھر کی یاد اور ماضی کو حال سے بہتر سمجھنا۔

اس کیفیت کو اب تک انتظار حسین نے اپنے شہرت یافتہ افسانوں میں زیادہ تر انجوائے کیا ہے۔ لیکن غالب سے اقبال اور ناصر کاظمی سے ساغر صدیقی ان سب کی تخلیقات ناسٹیلجیا کی خوبصورت مثال میں ہمارے سامنے ہے۔ حتیٰ کے خلیل جبران بھی ناسٹیلجیا کے دائمی مریض نکلے اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ”بیتا کل آج کی یادیں ہیں، اور آنے والا کل آج کے خواب ہیں۔“

کسی دانشور نے تان لگائی کہ ناسٹیلجیا کا دورہ اگر کبھی کبھار پڑے تو وہ جذباتی اور ذہنی صحت مندی کی علامت ہوتا ہے۔ لیکن اگر اکثر پڑنے لگے تو وہ ”ڈوبے ہوئے ستاروں کا ماتم بن جاتا ہے۔“

لیکن یہاں صاحب مصنف نے ستاروں کے ماتم کا رونا نہیں رویا، بلکہ ایک ماہر اور سنجیدہ قصہ گو کی طرح اپنے قاری کو بتاتے ہیں کہ بچپن کے سفر کا منظر جو نایاب اور انمول شے ہے آج کتنا بدل چکا ہے، یہ وہ قیمتی متاع ہے، جس کے کھو جا نے کا غم انسان کو ہمیشہ ستاتا ہے۔ انسان کتنے ہی بلند مقام و مرتبے یا کسی بھی عمر کو پہنچ جائے بچپن کی یادوں کی بارات کا باراتی بننے کا عینی شاہد رہتا ہے۔ کتنے پیارے پیارے اور محبت سے لبریز ماں باپ بہن بھائی، دوست احباب و ہمدم و راہی اب موجود نہیں ہیں۔

لیکن ان سے منسوب نہ بھولنے والی وہ محبتیں وہ رفاقتیں و رقابتیں اور وہ وظیفہ عشق جس کا ورد آج بھی لبوں پر جاری رہتا ہے۔

وہ آتش رفتہ کہیں کھو چکی ہیں، سلمان باسط کی ”ناسٹیلجیا“ میں موجود درد اور کسک جب ایڑیاں رگڑتی ہیں، تو درد کے چشمے آنکھوں کے راستے باہر بہنے لگتے ہیں۔ اور ان چشموں سے گرتے موتی ورق ورق میں اچانک سامنے آ کے پڑھنے والوں کے دامن میں جا گرتے ہیں۔

جمال ہر شہر سے ہے پیارا وہ شہر مجھ کو
جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے

الغرض ناسٹیلجیا میں سلمان باسط کے قلم کی شعلہ جولانیاں اور شبنم افشانیاں جمالیات کے اعلیٰ درجے پر نظر آتی ہیں۔ ان کی یہ کاوش قاری کے علمی سطح اور فکر و دانش کو جلا بخشتی ہے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
”امتحان ہوتے ہی میری قدر بہت بڑھ گئی۔ اس قدر کی وجہ انگلش کے مضمون میں زیادہ تر لڑکوں کی کمزوری تھی۔ میں بھی کوئی شیکسپیئر نہیں تھا، مگر زبان و ادب سے دل چسپی نے مجھے دوسروں سے ممتاز کر دیا تھا۔ انگلش کا نصاب ویسے بھی بہت دل چسپ تھا، تب امتحان میں بی اے کے تین پیپرز ہوا کرتے تھے۔ پیپر بی گرائمر پر مشتمل تھا۔ جب کہ پیپر اے اور سی فکشن، ڈراما، شاعری، اور مضامین کے امتحان کے لیے مختص تھے۔ میں کلاس سے فارغ ہو کر بھی دنیائے ادب کی چنیدہ کہانیوں کے انتخاب پر مشتمل کتاب ویژن اینڈ رئیالٹی پڑھا کرتا۔

یہ کتاب ایک ایسا طلسم ہوش ربا تھی کہ میں اس ونڈر لینڈ میں ایلس بن کر گھوما کرتا۔ کبھی موپساں کی کہانیوں کے سحر انگیز ماحول میں کھو جاتا، کبھی سمر سیٹ مام مجھے اپنی جادو نگری میں لے جاتا، کبھی اوہنری کی طلسم کدے کی سیر کرتا، کبھی نکولائی گوگول کے روس میں جا دھمکتا اور کبھی ڈی ایچ لارنس، ایچ جی ویلز، اینٹن شیخوف اور سٹفین لی کاک میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی اپنی بستیوں کی سیر کرواتے رہتے۔ ان سے فارغ ہوتا تو شارلٹ برونٹے مجھے جین ائر سے ملوانے لے جاتی۔

وہاں سے لوٹتا تو برنارڈ شا مجھے ڈیولز ڈیسائبل بنا لیتا اور میں کٹھ پتلی کی طرح اس کے اشاروں پر ناچنے لگتا۔ میں ایک اور جست لگاتا تو ورڈز ورتھ، کیٹس، شیلے، بائرن، کالرج، ہارڈی، ملٹن اور ایلیٹ میرے منتظر ہوتے۔ انگلستان کے سبزہ زاروں میں کھلے ہوئے ڈیفوڈلز میرے دل میں مہکنے لگتے۔ گہرے سبز درختوں میں کوکتی ہوئی کوئل میری روح کی شاخوں پر آ بیٹھتی۔ شیلی کی ویسٹ ونڈ میرے اندر طوفان اٹھانے لگتی۔ کیٹس کی ناٹئنگیل میرے وجدان کا حصہ بن جاتی۔ ان رنگین ریپرز میں لپٹی کھٹی میٹھی ٹافیوں جیسی کہانیوں اور نظموں نے مجھے جہاں آئیڈیل ازم کی دنیا کا باسی بنا دیا، وہیں میرے اندر بہت سی نرماہٹ بھر دی۔ میرا دل چاہتا کہ جس کیفیت سے میں گزر رہا ہوں، سبھی اسے محسوس کریں۔ ”( بوڑھا جنگل اور لانس نائک بہادر خان کے باب سے ایک اقتباس)

سلمان باسط نے اپنے معاصر ادیبوں کے شخصی خاکے بھی خوب لکھے ہیں، خاکوں میں ان کی قوت مشاہدہ اور صاحب خاکہ کے تمام اوصاف اور تضادات کھل کے سامنے لا کھڑے کیے ہیں۔ ان خاکوں میں ان کی دھلی دھلائی زبان اور شگفتہ اظہار کسی بھی ادبی نثر پارے کے تقاضے پورا کرتی نظر آتی ہے، جیسے مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں لکھا کہ ”مردوں“ سے دوستی کرتے وقت وہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ دوست کا تعلق اس مٹی سے پھوٹنے والی کسی ذات سے ہو، ہاں دوسری صنف کے ساتھ معاملات میں وہ خاصا روشن خیال ہے اور ایسے میں اس کے اندر کا تارڑ دب جاتا ہے اور نہایت رومینٹک سا مستنصر انتہائی شائستگی کے ساتھ کسی جپسی، ریبیکا، پاسکل، کرسٹائن، سوئیٹی یا کیوٹی کے ساتھ بے دھڑک گھل مل جاتا ہے اور ہیلو، ہائے کرتا نظر آتا ہے۔

ذات کے علاوہ بھی مستنصر حسین تارڑ نے چند بغض پال رکھے ہیں۔ مثلاً اسے شاعری سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ بعض منہ زور یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ عناد در اصل اس کمپلیکس کا رد عمل ہے، جو اسے شاعری جیسی لطیف شے کے سمجھ میں نہ آنے سے ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ شاعروں سے دوستی اور شاعری سے دشمنی میں کمال رکھتا ہے۔ یوں بھی لسی پینے والے، ساہن پال اور رڑمل کے میلوں میں ہیجڑوں کا ناچ دیکھنے والے اور گوالمنڈی کے کسان بیج سٹور پر بیٹھنے والے مستنصر حسین تارڑ کی صریر خامہ اگر نوائے سروش نہیں بن سکتی، تو کسی کو کیا تکلیف ہے۔ وہ نثر سے روٹی کما رہا ہے اور شاعروں سے بہتر کما رہا ہے۔ اس کثیف دور میں شاعری کی لطافت سے پیٹ نہیں بھرتا۔ یہ بات شاعروں کی سمجھ میں نہیں آتی اور اس کی سمجھ میں آ گئی ہے۔”

چلتے ہوئے سلمان باسط کی شاعری کا ایک خوبصورت انداز بھی دیکھتے چلیں:
آج بھی میں نے یادوں کی الماری کھولی
سامنے والے شیلف میں سب سامان پڑا تھا
ست رنگے ریشم کے دھاگے
الجھے سلجھے رشتوں کی رنگین قبائیں
کڑوے اور کسیلے کچھ بے درد رویے
الھڑ سپنے
قسمت کی پتھریلی تختی پر لکھی انمٹ تعبیریں
اور کسی کے ہجر کی گٹھڑی
باہر سب سامان نکالا
جھاڑا پونچھا
پھر رکھ ڈالا
آنکھ میں جگنو جب چمکیں گے
پلکوں پر تارے دمکیں گے
یہ الماری تب کھولوں گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).