آخری چیخ


” یاد ہے، تم اکثر میرا ہاتھ تھام کر اسلام آباد کی سب سے اونچی پہاڑی پر جایا کرتے تھے؟ مجھ سے اظہار وفا کرتے تھے؟ تم مجھے بتاتے تھے، یہ نیچے جو دنیا بس رہی ہے، میں اس سے بہت جدا سا ہوں۔ تم مجھے دنیا والوں جیسا نہیں پاؤ گی۔ یہ لوگ صرف تماشائی ہیں، لوگ کبھی ہم درد نہیں ہو سکتے، لوگ ہمیشہ آپ کے ٹوٹ کر بکھر جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ لوگ آپ کا استعمال کرتے ہیں اور وقت گزاری کے بعد آپ کو بہت بری طرح دھکا دیتے ہیں۔ جس کے بعد آپ پھر سے کھڑے ہونے کی طاقت بھی کھو دیتے ہیں۔ تم یہ بھی کہتے تھے، میں ہی تمہارا ہم درد ہوں۔ مجھے بھی اس پہاڑی پر رشک آتا تھا، جسے ہم جیسے خوش قسمت ترین محبت کرنے والوں کی قربت نصیب ہوئی تھی۔

یاد ہے، اکثر ہم نیلم جہلم دریا کے پانی سے باتیں کرتے تھے؟ کتنی دیر تک پانی میں پاؤں رکھ کر پانی سے سکون حاصل کرتے تھے اور پھر اس سکون کو خود میں اتارتے تھے۔ تم اس وقت بھی محبت کے دعوے کرتے تھے۔ کشمیر کے پہاڑ اور دریا کا پانی بھی میری محبت پر مسکراتا رہتا تھا۔ کتنے قیمتی تھے وہ پہاڑ بھی، وہ دریا کا پانی بھی جنہیں ہماری قربت نصیب تھی۔

یاد ہے، وہ رات کا اندھیرا، جب تم پہلی دفعہ مجھ سے ملنے آئے تھے؟ اس رات چاند بھی ہم پر رشک کر رہا تھا۔ اس رات ستارے بھی چمکنا بھول گئے تھے۔ تمہارے اظہار وفا سے رات چمک اٹھی تھی۔ کتنی نصیبوں والی تھی وہ رات، وہ چاند ستارے، جنہیں ہماری قربت حاصل تھی۔

یاد ہے، سردیوں کی وہ صبح جو صرف ہمارے لیے تھی؟ وہ دھند کا بھی ایک خاص انداز، جو صرف محبت کرنے والوں کی آنکھ دیکھ سکتی ہے؟ اس سردی میں عجیب سکون تھا۔ کتنی انمول تھی، وہ سردیوں کی صبح، وہ دھند جیسے ہماری محبت ملی تھی۔

یاد ہے، وہ شام جب میری ضد پر تم نے چائے پی تھی اور وہ میرا اظہار وفا اس چائے پر؟ تمہیں یہ بھی یاد ہو گا مجھے شام سے عشق بھی تمہاری محبت کی بدولت ہے! تمہیں یہ بھی یاد ہو گا، میں چائے کبھی چھوڑ نہیں سکتی! تمہیں یہ بھی یاد ہو گا، مجھے اونچائی سے کتنی محبت ہے! تمہیں یہ بھی یاد ہو گا، تمہارے ہاتھ مجھے کتنے پسند ہیں! ہاں تم کیسے بھول سکتے ہو۔ میری چاہت، وہ ست رنگی شام وہ چائے، جس کے آس پاس ہمارا قرب، ہمارا ساتھ، ہماری محبت رقص کرتی تھی! اور یاد ہے، تمہارے ساتھ گزرا وقت ہی میری زیست کا حاصل ٹھہرا ہے! ”

تمہارے بچھڑ جانے کے بعد، میں ارم ناصر ڈپریشن کی مریض بن چکی ہوں۔ جس کا بہت گہرا اثر ہونے لگ گیا ہے۔ میں خود سے ہی باتیں کرنے میں مصروف رہتی ہوں۔ ہاشم سے کہنے والی ہر بات بھی خود سے ہی کرتی ہوں۔ ہر شام کی طرح عادت سے مجبور ہو کر، آج بھی میں خود سے وہ بات کر رہی ہوں، جو ہاشم سے کہنا چاہتی ہوں۔ ادھوری محبت انسان کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ہاشم کا دیا ہوا درد بھی مجھے دیمک کی طرح کھا رہا تھا۔ مجھے باقی زندگی موت جیسی نظر آتی ہے۔ میرا وجود زندہ لاش کی طرح ہے۔

اکثر تم مجھ سے پوچھا کرتے تھے، ”تمہیں مجھ سے کیا چاہیے؟“ اور میں چاند کی طرف دیکھتی تھی۔ یاد ہے وہ رات جب چاند ہمارے بہت قریب تھا؟ جانتے ہو میں چاند کی طرف کیوں دیکھتی تھی؟ کیوں کہ میں تم سے چاند سی محبت چاہتی تھی۔ جو اندھیرے میں بھی چمکنا مت بھولے۔ جسے اپنے وقت کا معلوم ہو۔ جسے بلانے کے لیے مجھے پکارنا مت پڑے۔ جو اپنے وقت سے خوب آشنا ہو۔ اور ہاں سب سے خاص بات یہ کہ یہ ہر پل میرے ساتھ چلے۔ میری ہر سمت کی طرف خود کو سپرد کر دے۔ ہاں میں تم سے صرف اتنا ہی چاہتی تھی۔ صرف اتنا ہی تو چاہتی تھی۔

یاد ہے جہاں تم میرے ساتھ کتنے گھنٹے بیٹھے رہتے تھے، وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا؟ اب وہاں کنواں بنا دیا ہے میں نے۔ جس میں روز ایک نئی اذیت پھینک دی جاتی ہے۔ اس بے فکری سے کہ اس سے دوبارہ کبھی واسطہ نہیں پڑے گا۔ مگر کنویں سے درد آنسو کی شکل میں باہر آ جاتا ہے۔

پہلے پہر تو مجھے لگا یہ بھیانک خواب ہے۔ جس کی تعبیر ممکن ہی نہیں۔ کہاں وہ خاص شخص اور کہاں مجھ جیسی عام سی لڑکی۔ تم مجھ سے بچھڑ گئے۔ میں ہر جگہ تمہاری یادیں لیے پھرتی ہوں۔ تم سے منسلک جگہ ڈھونڈتی ہوں۔ میں نے تمہاری یادوں اور تمہارے خوابوں کو خود پر اوڑھ لیا تھا۔ جانتے ہو، یہ خواب بھیانک کیوں لگتا تھا؟ کیوں کہ وہ کسی اور کی ملکیت تھا۔ میں جیسی بھی لڑکی تھی میں چوری کے حق میں نہیں تھی۔ مگر ہاں محبت راستے میں آ گئی تھی۔ میں محبت کے اس پنجرے میں آئی، جس کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ کتنی خوش نصیب تھی نا محبت کی قید، آزادی سے زیادہ خوبصورت۔ ہاں بھلا کیوں نا ہوتی آخر یہ محبت کی داستان کوئی عام تھوڑی ہوتی ہے۔

میں عام سی لڑکی اس خاص لڑکے کے ساتھ شنگریلا ریسٹورنٹ بھی رہ کے آئی ہوں۔ اسلام آباد کی اونچی پہاڑی مارگلا سے بھی ہو کر آئی ہوں۔ جھیل کنارے اس کے سنگ کتنے ہی لمحے گزار دیے۔ دریائے نیلم کے ٹھنڈے پانی کو اس کے سنگ محسوس کیا ہے۔ پہاڑوں نے بھی میری محبت پر رشک کیا ہے۔ میں نے محبت کے سبھی ذائقے چکھے ہیں، مگر بچھڑتے وقت کا آخری تلخ ذائقہ آج بھی میرے وجود کے اندر چیخیں مارتا ہے۔ اس ذائقے کی آخری چیخ میں کبھی بھول نہیں پائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).