غباروں کی ہوا نکل گئی یا نکالی گئی؟


سماں تو ایسا باندھا گیا تھا، جیسے ہمالیہ کو آسمان پر اٹھا کر حکومت مخالف جلسہ گاہ میں جمع ہونے والوں پر پٹخ دیا جائے گا۔ ریلیوں کے راستوں پر چٹانیں کھڑی کر دی جائیں گی اور سینہ چاکان چمن کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کر کے ان کو عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا جائے گا، لیکن کل نا معلوم پھونکوں سے پھلائے غباروں کی ساری ہوا، ”پھس“ کر کے کیسے نکل گئی اور وہ غلغلہ کہ ہم حکومت مخالفت میں نکالی جانے والی چوروں کی ریلیاں، جلوسوں اور منعقد ہونے والے جلسوں کو ملک کے کسی گوشے میں نہیں ہونے دیں گے اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی، تو اس کی ساری راہیں مسدود کر کے رکھ دی جائیں گی جیسے عزائم کیسے خاک میں مل گئے۔

ابھی ان اعلانات اور عزائم کو سامنے آئے بہت زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ حکومت کی جانب سے واضح طور پر یہ فیصلہ سامنے آ گیا کہ ”ہم تو مذاق کر رہے تھے“۔ آپ کا اپنا ملک ہے۔ آپ کی اپنی جمہوریت ہے اور میرا جسم میری مرضی کی طرح آپ کی اپنی مرضی ہے، لہٰذا آپ بصد شوق اپنا شوق پورا کریں، ہم بھلا کون ہوتے ہیں آپ کو روکنے ٹوکنے والے۔

بس اتنی سی رائی کے برابر بات تھی جس کو حسب اختلاف والوں نے پربت بنا کر رکھا ہوا تھا۔ اب ان کو مکمل آزادی ہے جو چاہیں اور جس انداز سے چاہیں، جلسے جلوس کریں ان کو کچھ کہنا تو در کنار، ان کی خاطر داری کی جائے گی، ان کے راستے میں شربت اور پانی کی سبیلیں سجائی جائیں گی، خوش آمدید کہا جائے گا، دف بجائے جائیں گے اور ہیلی کاپٹروں سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جائیں گی۔ یا اللہ،
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا
”کہ انڈے پہ ہاتھی کھڑا ہو گیا“

کل تک تو وزیروں، مشیروں اور حکومتی ترجمانوں کی ایک فوج ظفر موج بشمول وزیر اعظم، ایسا لگتا تھا کہ اگر اپوزیشن نے ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی مزاحمتی تحریک چلائی، سب کے سب خود کش بمبار بن کر ان پر ٹوٹ پڑیں گے اور پھر سارے غالبوں کے ایسے پرزے اڑیں گے کہ وہ سب کے سب اپنا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔

سیاسی مخالفت میں نکالی جانے والی ریلیاں ہوں یا جلوس و جلسے، اس کے خلاف اتنی زیادہ ہوا کھڑی کرنے کے بعد پلٹ جانا شاید کسی کے لئے بھی کوئی بہت حیران کن بات نہیں رہی ہو گی اس لئے کہ موجودہ وزیر اعظم ہوں، ان کے سپورٹرز ہوں، ان کے ساتھ ہاں میں ہاں ملانے والوں کی ایک بھیڑ ہو یا ان کی کابینہ کے ارکان، اپنے قول و فعل سے پلٹ جانے میں ایسا کمال لا جواب رکھتے ہیں جس کی کوئی مثال نہ تو کہیں عمرانی تاریخ میں ملتی ہے اور نا ہی ماضی و حال کی تاریخوں کے اوراق میں۔

وہ کون سا ایسا وعدہ، دعویٰ اور کہی گئی بات ہے جس سے منہ نہ پھیر لیا گیا ہو۔ مانا کہ مجبوریاں اکثر اوقات وہ کچھ کر نے کی اجازت نہیں دیا کرتیں جس کا کوئی انسان ارادہ باندھتا ہے یا جس کو کرنے کا اعلان کرتا ہے لیکن جب جب بھی ایسا نہیں ہو پاتا، ایسے وعدے، دعوے اور عزم کا اعلان کرنے والا اس پر اپنا سر شرمندگی کے ساتھ جھکا کر معافیاں تلافیاں ضرور کرتا ہے، لیکن یہاں معاملہ چکنے گھڑوں جیسا سامنے آیا ہے کہ ہر معاملے سے یو ٹرن لے لینے کو حکمت عملی قرار دے کر، وعدے سے پھر جانے کے مکروہ عمل پر بھی قوم سے داد حاصل کی گئی ہے۔ جب معاملہ اس حد تک منافقت پر پہنچ جائے، تو قوم حسب اختلاف کے خلاف غباروں کے مانند منہ پھلا پھلا کر یک دم ہوا نکال دینے پر کیوں کر کسی حیرانی کا اظہار کرتی نظر آ سکتی ہے۔

افسوس اس بات پر نہیں کہ پوری پی ٹی آئی، بشمول وزیر اعظم، غباروں کی طرح پھول جانے کے بعد از خود اپنی ہوا نکال بیٹھے یا کسی نے ہوا خارج کر وادی، صدمہ تو اس بات کا ہے کہ ”پھس“ کر کے کیوں رہ گئے۔ ہوا کا کچھ شور سنائی دیتا، کوئی شر شر ہوتی، کوئی پی پاں بلند ہوتی اور کوئی زوردار دھماکے سنائی دیتا۔ جب اتنا سماں باندھ ہی دیا گیا تھا تو اس کا کوئی نہ کوئی تو رد عمل سامنے آ جاتا۔ یہ کیا کہ کابینہ کا اجلاس سارا دن جاری رہا اور اچانک شام کو یہ اعلان سامنے آ گیا کہ اپوزیشن والے اور ہم سب بھائی بھائی ہیں لہٰذا اگر وہ کوئی کھیل کود کرنا ہی چاہتے ہیں تو ہم سب کو چاہیے کہ بے شک کھیل میں شامل نہ ہوں، تماشا دیکھنے تو جمع ہو جائیں۔

اگر کوئی میری رائے معلوم کرے تو میں صدق دل سے یہ اقرار کرنے کے لئے تیار ہوں کہ حکومت نے اپوزیشن کی راہوں میں کسی بھی قسم کی رکاوٹیں نہ کھڑی کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، بلاشبہ بالکل درست ہے۔ جمہوریت اسی کا نام ہے اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ رکاوٹیں ہنگامہ آرائی کا جواز پیدا کرتی ہیں اور معاملات کو قابو سے باہر کر دیتی ہیں۔ اب اپوزیشن کا اصل چہرہ خود ہی سامنے آ جائے گا کہ اس کے اصل عزائم کیا ہیں۔ البتہ حکومت کو چاہیے کہ کہ وہ امن عامہ کے معاملے پر کسی بھی قسم کی سستی یا کوتاہی کا مظاہرہ نہ کرے۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہنگامہ آرائی مخالف سیاسی جماعتیں ہی کریں، اکثر موقع سے فائدہ اٹھا کر شر پسند عناصر بھی ہاتھ دکھا جاتے ہیں۔

امن و امان بہر صورت مقدم ہے اور اس کا خیال اپوزیشن اور حکومت، دونوں ہی کو رکھنا ہوگا۔ امید ہے کہ حکومت اور حکومت مخالف پارٹیاں، دونوں ہی اس بات کا خیال رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).