حلیم یا دلیم


میرے اچھے خاصے پڑھے لکھے دوست فیس بک اور سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگاتے جاتے ہیں کہ ”خدا“ اللہ کا نام نہیں، بلکہ یہ مشرکوں کا رب ہے۔ اس لئے خدا حافظ کے بجائے اللہ حافظ کہنا چاہیے۔ روز بروز یہ مضحکہ خیز صورت حال بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

پتا نہیں لوگ ان جزیات ہی کو کیوں مقصد بنا لیتے ہیں۔ کہیں ”خدا حافظ“ پر اعتراض تو کہیں ان شا اللہ کا پوسٹ مارٹم۔ ہنسی تو اس وقت آتی ہے، جب اچھے پڑھے لکھے لوگ ایک طرف تو حلیم کو دلیم کہنے پر مصر ہوتے ہیں، تو دوسری سانس میں اپنے ڈرائیور کو گالی کے ساتھ ”رحیمیا“ کا لاحقہ لگا کر بلاتے ہیں۔ اور یہ ساری نئی تعلیمات بین الاقوامی شہرت رکھنے والے عالموں کی طرف سے شروع ہوتی ہیں۔ گویا مسلمانوں میں یہی کمی رہ گئی تھی، ورنہ کفار، ہنود و یہود کی توپوں میں کیڑے پڑنے ہی والے تھے۔

خدارا کچھ دیانت داری، انصاف، امن، رحم، ترس، ہمسائیوں، بزرگوں، معذوروں کی مدد کے ساتھ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ سے گزیر کے بارے میں بھی اس بد قسمت امت کو حساس بنائیے۔ وقت کی پابندی نہ کرنے کو ”ان شا اللہ“ کا کوئی بھی تلفظ جواز فراہم نہیں کرے گا۔ اب تو سب کو معلوم ہے کہ ان شا اللہ یا in sha allah کہنے کا مطلب ہی کام نہ کرنے کی نیت ہے۔

میرے ایک دوست ہیں، جو بہت عرصہ برطانیہ میں رہے ہیں۔ ان کے بچے وہیں بڑے ہوئے۔ وہاں کا عام معاشرہ بہت سیدھا سادا ہے۔ ان کی زبان سے جو بات نکلتی ہے، وہ اسی مطلب میں ہوتی ہے، جو الفاظ بتاتے ہیں۔ ایک دن ان کی چھوٹی بیٹی نے ابو سے پوچھا، ”بابا! کیا آپ آج مجھے دفتر تک لفٹ دے دیں گے؟“ میرے دوست بولے، ”ان شا ؑاللہ“ ۔ بیٹی تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوئی۔ تاہم پھر سے گویا ہوئی، ”بابا! کیا پلیز آپ ہاں یا نہ میں جواب دے سکتے ہیں“ ؟ یعنی اب بچوں تک کو معلوم ہو گیا ہے کہ ان شا اللہ سے ہم کیا مراد لیتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ کوئی کام بھی اللہ کی منشا کے بغیر نہیں ہوتا۔ اور اس لیے میں ہمیشہ ان شا اللہ کہتا ہوں لیکن دل میں۔ اگر آپ کسی سے وعدہ کر لیں، اس شرط پر کہ اللہ نے چاہا تو کیا وہ وعدہ نہ نباہنے پر اللہ کو ذمہ دار قرار دیں گے؟

صرف یہی نہیں، ہماری جزیات ہماری عبادات میں بھی در آئی ہیں اور نماز کی بنیادی روح کو بھول کر ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ نماز میں بیٹھ کر پاؤں کی کون سی انگلی کس زور سے قبلے کی طرف موڑنی ہے۔ ہاتھ کہاں باندھنے ہیں۔ تشہد پر انگلی اٹھانی ہے کہ نہیں۔ ہمارے لڑکپن میں تو بعض خطیب جوش خطابت میں انگلی اٹھانے والے کی انگلی کاٹنے کا فتویٰ دے چکے تھے۔ ض کو زواد پڑھنا ہے کہ دواد۔

میں پہلی دفعہ مکہ گیا تو وہاں بس والے آواز لگا رہے تھے ”گدھا گدھا“ میں حیران ہوا۔ تب کسی نے بتایا کہ مصری ج کی جگہ گاف بولتے ہیں اور ان کا مطلب ہے، ”جدہ جدہ“ اب ہمارے یہاں کے ذاکر ہوتے تو لاحول پڑھ کر ایک فتویٰ اچھال دیتے۔ نماز میں کسی نے سر پر ٹوپی نہیں رکھی تو کوئی نہ کوئی مسجد کی گندی ٹوپی سر پر رکھوا دے گا۔ ہمیں اپنی دنیا اور دوسروں کی آخرت کی بڑی فکر ہوتی ہے۔ نماز اپنی پڑھ رہے ہوتے ہیں اور سامنے والے کی نماز پر نظر رکھ رہے ہوتے ہیں کہ کہیں غلطی تو نہیں کر رہا۔

باقی عبادات میں بھی اتنے مین میخ نکالے جاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ایک صاحب کی ویڈیو دیکھی کہ رمضان میں روزے کی حالت میں استنجا کرتے وقت زیادہ کھل کے نہ بیٹھیں کہ کہیں پانی وہاں سے معدے میں نہ پہنچ جائے۔ پتا نہیں موصوف کتنی ویکیوم پیدا کرتے ہیں کہ تیس فٹ کی آنت سے معدے میں پانی کھینچ لیتے ہیں۔ اس آنتوں سے پانی آئے گا تو پھر تو ڈکار سے بھی وضو ٹوٹے گا۔ اب روزہ ہے کھانے پینے اور ہم بستری سے پرہیز کا۔ آپ ہی بتائیے استنجا کے رستے سے کون پانی پیتا ہے۔ یا پیاس لگنے پر کون ناک سے جوس کھینچتا ہے۔

ان علاموں کی نظر اتنی دقیق ہوتی ہے کہ سد گناہ میں بھی حد درجہ احتیاط کرتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر دو مردوں کے بیٹھنے کے دوران میں درمیان ”مدنی تکیہ“ ضرور رکھیے، ”کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔“

یہ تو صرف سرسری معروضات ہیں۔ ہمارے اخبار کالم کا ستیا ناس کر دیتے ہیں، اگر کوئی ایسا لفظ یا فقرہ اختلافی ہو۔ ہم روز بروز اسی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ اور وہ انسانیت، اخلاقیات جو اسلام کی اصل روح ہے، اسے پس پشت پر ڈال کر، دنیا میں بھی ذلیل ہو رہے ہیں اور آخرت کا حال اوپر والا بہتر جانتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).