پاکستان میں استعماری سیاستدان: پروڈا سے ایبڈو تک


برصغیر میں برطانوی استعماریت کے اثرات تقسیم ہند کے بعد بھی باقی ہیں۔ اس خطے پر حکومت کرنے کے لیے انگریزوں نے جرنیلی طرز حکمرانی اپنایا، برطانوی سرکار نے ہندستان میں جنگ پلاسی کے بعد میجر جنرل رابرٹ کلائیو کو پہلا سیاسی حکمران بنایا۔ بنگال، کلکتہ، بہار اور اڑیسہ میں دیوانی کے اختیارات حاصل کرنے کے معاہدے پر دستخط بھی جرنیلی حکمران نے کیے۔ 1857 ء کی جنگ کے بعد صوبوں میں گورنری کے عہدوں پر بھی انگریز نے فوجی جرنیلوں کو تعینات کیا۔

برطانیہ کے سرکاری نیشنل آرمی میوزیم کے آرکائیوز میں کلائیو کو بے رحم فوجی کمانڈر، لالچی، قیاس آرائی کرنے والا اور سامراجی سیاست دان کہا گیا ہے۔ انگریز سرکار نے جمہور اور سیاست کو کنٹرول کرنے کے لیے ہندوستان میں فوجی اور بیوروکریسی کا مضبوط ڈھانچا تشکیل دیا تھا۔ جب تک یہ ڈھانچا طاقت ور نہیں ہوا، انگریز سرکار نے اس خطے میں جمہوریت کا تصور پنپنے نہیں دیا۔ تقسیم ہند کے بعد، برطانیہ کی تربیت یافتہ سول بیوروکریسی اور عسکری بیوروکریسی نے پاکستان پر نو آبادیاتی تسلسل کو قائم رکھنے میں اسی ڈھانچے سے مدد حاصل کی۔ سات اکتوبر کا روز انتہائی خاموشی سے گزر گیا، حالاں کہ یہ دن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ان مٹ نقوش رکھتا ہے، جب ملک میں پہلا مارشل لا نافذ ہوا۔

پاکستان میں غیر جمہوری اور غیر سیاسی طاقتوں کو منضبط کرنے کی تاریخ انتہائی دل چسپ ہے۔ ملک دشمنی اور غداری کے الزام میں، پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح نے صوبہ سرحد کی حکومت کو پاکستان بننے کے آٹھویں روز بر طرف کر دیا اور آٹھ مہینوں بعد، گورنر جنرل نے نو آبادیاتی عہد کے ایکٹ 1935 ء کی دفعہ اکاون کے تحت وزیر اعلیٰ سندھ کو برطرف کر دیا، یہ غیر جمہوری اقدامات یا پھر طاقت کا غیر جمہوری استعمال مستقبل میں خود پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ بنا۔

پاکستان میں جمہوریت کو پھانسی پر لٹکانے کی بنیاد قانون ساز اسمبلی نے جنوری 1949 ء میں رکھی جب پبلک اینڈ ریپرینزیٹیٹو آفسز، ڈس کوالیفکیشن ایکٹ (پروڈا) نافذ کیا۔ اگر چہ پروڈا کی منظوری چھے جنوری 1949 ء میں ہوئی، تاہم اس کا نفاذ 14 اگست 1947 ء سے کیا گیا۔ گورنر جنرل اور وزیر اعظم نے صوبائی اسمبلیوں اور مرکزی اسمبلی کے نمائندوں، وزرا کو پروڈا کی صلیب پر لٹکانے کا آغاز کیا۔ پروڈا کا یہ قانون جمہوریت کو اپاہج رکھنے کے لیے پانچ سال تک نافذ رہا۔ سندھ، پنجاب اور مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں کے خلاف کل پانچ ریفرنس اس قانون کے تحت دائر ہوئے۔ چناں چہ ایوب کھوڑو، قاضی فضل اللہ، آغا غلام نبی پٹھان اور حمید الحق چودھری نا اہل قرار دیے گئے۔

پروڈا کے تحت سیاست دانوں کو نا اہل کرنے کے ساتھ ساتھ 1954 ء میں اسمبلی توڑ دی گئی، دوسری جانب امریکا نو آبادیاتی عہد کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لیے بے چین تھا، چناں چہ امریکا نے عسکری طاقت کے پیش نظر، ایوب خان کا انتخاب کیا۔ امریکی سی آئی اے کی دستاویزات بتاتی ہیں کہ ایوب خان کو مستقبل کے لئے تیار کیا جا رہا تھا، وگرنہ میجر سے کمانڈر انچیف بننے کا سفر چار سالوں میں ممکن نہیں تھا۔ سی آئی اے کی چھے اکتوبر 1958 ء کی دستاویز ملاحظہ کیجیے :

”پاکستانی صدر اسکندر مرزا نے کراچی میں امریکی سفارت خانے کو آگاہ کیا ہے کہ وہ 8 اکتوبر کو حکومت پاکستان کا اقتدار سنبھالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مرزا نے اپنے منصوبے کے لئے جنرل ایوب خان اور فوج کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے، اور اگر اسکندر مرزا اقتدار قبضے میں نہیں لیتا، تو یہ کام فوج کرے گی۔ انہوں نے اشارہ کیا ہے کہ ان کا مقصد ملک میں عدم استحکام کو ختم کرنا ہے“ ۔

سی آئی اے کی مذکورہ دستاویز میں مزید لکھا ہے کہ:

”فوج کی حمایت سے، اسکندر مرزا یقینی طور پر اس ملک کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں اور کچھ دیر کے لئے فوج کو بھی اپنے ساتھ رکھیں گے۔ اقتدار کی کامیابی کی یقین دہانی کے لئے، وہ حزب اختلاف کے اہم رہنماؤں کو گرفتار کر سکتے ہیں۔ جیسے مسلم لیگ کے صدر قیوم خان، عوامی لیگ کے صدر سہروردی اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں مولانا بھاشانی اور عبدالغفار خان“ ۔

سی آئی اے کی متعدد دستاویز ایوب خان کے لیے راستہ ہموار کرنے کے ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہی یہ طے کر لیا گیا تھا کہ یہاں جمہوری سیاست کے پیروں میں بیڑیاں باندھ کر رکھنی ہیں۔ ایوب خان نے جب سات اکتوبر کو مارشل لا کے ذریعے پاکستان میں جرنیلی انقلاب برپا کیا، تو سیاست دانوں کے لئے پروڈا جیسے آمرانہ قانون کی نظیر موجود تھی۔ سیاست دانوں کو عوامی عہدوں کے لئے نا اہل کرنے کی غرض سے دو قوانین نافذ کیے گئے۔

پہلا قانون پوڈو (پبلک آفسز ڈس کوالیفکیشن آرڈر مارچ 1951 ء) نافذ کیا گیا، اس قانون کا اطلاق صرف سیاسی عہدیداروں پر ہوتا تھا۔ پوڈو کے تحت فرد جرم ثابت ہونے پر سیاسی عہدوں پر فائز افراد کو پندرہ سال کے لیے سیاست سے نا اہل قرار دیا گیا۔ اس کا اطلاق بھی سن سنتالیس سے کیا گیا۔ پروڈا اور پوڈو میں ایک فرق یہ بھی تھا، کہ پروڈا کے تحت سیاست دان کے خلاف درخواست دائر کرنے کے لیے پانچ ہزار روپے جمع کرانا ہوتے تھے، جب کہ پوڈو کے تحت کسی بھی شہری پر نقد رقم جمع کرانے کی شرط نہیں تھی۔

پوڈو سے جب نتائج بر آمد نہ ہوئے، تو سات اگست 1959 ء میں ایبڈو (الیکٹیو باڈیز ڈس کوالیفکیشن آرڈر) نافذ کر دیا گیا۔ نا اہلی کے اس قانون کے تحت فرد جرم ثابت ہونے پر سیاسی عہدے پر رہنے والے فرد کو، منتخب شدہ رکن اسمبلی کو چھے سال تک سیاست سے الگ رکھنے کی سزا متعین تھی۔ جنرل ایوب خان کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں :

جنرل ایوب نے سیاسی افراد کو سیاست سے باز رکھنے کے لیے اس قانون کا سہارا لیا۔ مشرقی پاکستان سمیت قومی اور صوبائی سطح کے 98 ممتاز سیاست دانوں کے خلاف ایبڈو کے تحت کارروائی کی گئی۔ ایبڈو کی تین دفعات کے تحت پاکستان میں جمہوریت کا جنازہ نکالا گیا۔ دفعہ سات کے تحت وہ سیاست دان نا اہل قرار پائے، جنھوں نے رضا کارانہ طور پر خود کو سیاست سے الگ کر لیا اور ان کے خلاف مزید انکوائریز روک دی گئیں۔ دفعہ آٹھ کے تحت وہ رضا کارانہ طور پر سیاست سے الگ ہونے سے انکار کرنے والے سیاست دان نا اہل قرار پائے۔ سب سے زیادہ سیاست دان ایبڈو کی دفعہ پانچ کے تحت نا اہل ہوئے۔ ان سیاست دانوں کو اکتیس دسمبر 1966 ء تک نا اہل قرار دے کر سیاست سے الگ کر دیا گیا۔

سیاسی نا اہلیوں کے تین قوانین، پروڈا، پوڈو اور ایبڈو نے ملک میں جمہوریت کی نشو و نما کو روکا، بلکہ مشرقی پاکستان میں اس کے نتائج تباہ کن رہے۔ ایبڈو کے نتیجے میں مغربی پاکستان کے سیاست دان سیاسی عمل سے کٹ گئے اور سیاسی حکومت کی جگہ فوجی بیوروکریسی کا راج ہو گیا۔ پاکستان میں جمہوریت کے خلاف امریکا کے لئے ایوب خان ڈارلنگ کا درجہ رکھتا تھا۔ کینیڈین سینٹر فار پالیسی آلٹرنیٹوز پر شائع ہونے والی تحریر میں تو ایوب خان پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا سولہ ہزار ڈالرز پر تنخواہ دار ملازم ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔

ایوب خان نے پاکستان کو جرنیلی طاقت سے فتح کر لیا۔ یہ فتح ایک فرد تک محیط تھی، جب کہ پورے پاکستان کی شکست تھی۔ اسی شکست نے جرنیل ضیا الحق اور پھر جرنیل پرویز مشرف کو پھر سے پاکستان فتح کرنے کا جواز فراہم کیا۔ ایوب خان کے عہد میں سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کی ایک پوری نسل، جس کی جڑیں عوام میں تھیں، سیاست سے نکال باہر کر دی گئی۔ چناں چہ پاکستان میں سیاسی خلا پیدا ہو گیا اور اس سیاسی خلا کو ختم کرنے کے لیے نئے حکمران گروہ یا خاندان پیدا کیے گئے، جنھیں پاکستان کی سیاست پر مسلط کیا گیا۔

آج پاکستان میں جمہوری بحران کی بنیادیں تلاش کریں تو ہمیں تاریخ کا غیر جانب دار مطالعہ کرنا ہو گا، تا کہ ملک کے تعلیم یافتہ نوجوان غیر جمہوری قوتوں اور ان کے پالنے والوں کا ادراک کر سکیں اور معاشرتی ترقی کے لیے تعمیری کردار نبھانے میں معاون ہوں۔ پاکستان کو نو آبادیاتی عہد کے رائج کردہ ضابطوں سے اور سامراجی سیاست دانوں سے الگ کرنے کے لیے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ تحریر مصنف کی سوشل میڈیا پوسٹ سے لی گئی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).