ڈرامے کا سین اور علما کے فتوے


کئی برس گزرے، علمائے کرام اور مفتیان دین نے محترمہ ثمینہ پیر زادہ پر فتوی دیا کہ ان کی طلاق ہو گئی ہے, کیوں کہ انہوں نے ایک ڈرامے میں اپنے اصلی شوہر کے ساتھ طلاق کا سین کیا ہے۔ پورے ملک میں حلالہ امیدواروں کا طوفان مچ گیا۔ لوگوں نے حلالہ کرنے کے لیے لاکھوں کا حق مہر پیش کر دیا۔ حتی کہ ایک روایت کے مطابق، ثمینہ پیر زادہ کا اپنا ڈرائیور بھی لائن میں لگ گیا کہ میڈم نیک کام کے لیے مجھے ہی منتخب کر لیں، گھر کی بات گھر میں رہ جائے گی۔

آخر کار امام اعظم ثمینہ پیر زادہ نے ان مفتیوں کی شرع اور اجماع وغیرہ کو جوتے کی نوک پر رکھا اور خود اجتہاد کر کے فرمایا کہ ڈرامے کے سین سے طلاق نہیں ہوتی۔ اب کوئی بھی بنیادی عقل و شعور والا انسان سمجھ سکتا ہے کہ کیا روایتی علم دین سے لا بلد، ثمینہ پیر زادہ کا موقف دین کی حقیقی روح کے قریب تھا یا پھر پوری زندگی قرآن و حدیث پڑھنے والے علما کا؟

حقیقت یہ ہے کہ روز مرہ کے معاملات میں ایک عام مسلمان علما سے بہتر اجتہاد کر سکتا ہے۔ اگر علما کو لفظ اجتہاد پر اعتراض ہو تو وہ کوئی اور لفظ استعمال کر لیں لیکن مدعا وہی ہے کہ دین عام فہم ہے۔ اس کے اصول اتنے واضح ہیں کہ بنیادی عقل و شعور والا کوئی بھی انسان ان کی بنیاد پر اپنے فیصلے خود لے سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہے بات پر عوام، علما کے پاس فتوے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں اور علما کو بھی ہر مسلے میں فتوی دینے کا بہت شوق ہے۔

اکثر علما ان مسائل میں خود فریق نہیں ہوتے اور ان کا مشاہدہ اور تجربہ بھی محدود ہوتا ہے، اس لیے وہ معاملے میں دین کی روح سمجھ ہی نہیں سکتے۔ نتیجہ یہ کہ وہ صرف قرآن و الفاظ کے ظاہری الفاظ پر قیاس کر کے ایسی بات کر دیتے ہیں جو دین اور علما، دونوں کا مذاق بنوا دیتی ہے۔ ہر چیز کو حلال حرام کے دائرے میں لا کر شریعت بنا دینے کے بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ عوام کو دین کے بنیادی اصولوں سے رو شناس کروایا جائے اور پھر ان کو اپنی عقل سے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے کو کہا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).