امریکہ میں ہونے والی ہم جنس پرست شادی پر انڈیا میں واویلا کیوں؟


امریکہ میں ہم جنس پرستوں کے ایک جوڑے کی شادی میں روایتی لباس پہننے پر انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کی کوڈاوا برادری میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

شادی میں روایتی لباس پہننے پر کوڈاوا برادری نے اپنے ہی سماج سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کا بائیکاٹ کردیا ہے۔

امریکہ کی مغربی ریاست کیلیفورنیا میں کوڈاوا برادری نے اپنے فرقے کے ایک فرد کی شمالی انڈیا کے ایک ہم جنس سے کی جانے والی شادی کو توہین مذہب قرار دیا ہے۔

کوڈاوا کمیونٹی جنگجوؤں کی برادری کہلاتی جہاں سے انڈیا کے فیلڈ مارشل کے ایم کیریپا اور انڈین فوج کے پہلے جنرل، جنرل کے ایس تھیمیا جیسے افراد آتے ہیں۔

کوڈاوا سماج ، ماڈیکیری کے صدر کے ایس دیوییا نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہماری برادری کی مضبوط ثقافت اور روایت کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ ہمین اس پر سخت اعتراض ہے۔ ہمارا اعتراض اس بات پر ہے کہ یہ ہماری ثقافت کے منافی ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

ہم جنس پرست پولیس اہلکار خواتین کا جوڑا، جن کی حفاظت اب مسلح محافظ کریں گے

دیہی انڈیا میں ہم جنس پرست ہونے کا مطلب کیا ہے؟

ہم جنس پرست افراد کی زبردستی شادیاں

جنوبی ہند کی کوڈاوا برادری کا تعلق ماضی کی ایک ریاست کرگ سے ہے جو کافی اور مصالحوں کی کاشت کے لیے مشہور ہے۔ کرگ کا نام بدل کر اب کوڈاگو رکھ دیا گیا ہے۔

اس برادری کے رہنماؤں کو اب یہ فکر ہونے لگی ہے کہ ذات سے باہر شادیوں کی وجہ سے ان کی آبادی مستقل طور پر کم ہوتی جارہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کی تعداد کم ہو کر صرف سوا لاکھ رہ گئی ہے۔

ہم نے کے ایس دیوییا سے پوچھا کہ برادری کی ناراضگی کس بات کے لیے ہے؟ شرت پونپپا پٹٹی چندا کی ہم جنس پرست شادی سے یا پھر شادی میں کوڈاوا برادری کے روایتی لباس پہننے کے لیے ناراضگی ہے؟

کے ایس دیوییا اس سوال پر اس قدر ناراض ہوئے کہ انھوں نے فون رکھتے ہوئے کہا ‘وہ کسی انسان سے شادی کرے، آدمی یا کسی گدھے سے شادی کرے، یہ ہماری فکر کا موضوع نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہماری ثقافت کے خلاف ہے۔’

یورپ

ڈنمارک، بلجیم، ناروے، سپین اور سویڈن ان ممالک کی صف میں شامل ہیں جنھوں نے ہم جنس شادیوں کو قانونی قرار دیا ہے

برادری کے خاتمے کا خوف

کوڈاوا سماج کے میڈیکیری ایسوسی ایشن نے شرت پونپپا پوٹٹی چندا کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایشن کے ایک نمائندے نے بتایا کہ کیلیفورنیا میں سندیپ دوسانج سے اپنی شادی کے دوران شرت نے برادری کا روایتی لباس ‘کوپیا چھیلے’ پہنا تھا۔

بی بی سی نے شرت پونپپا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ابھی تک ان سے بات نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سوشل میڈیا پر ان کی شادی کی تصاویر سامنے آنے کے بعد کوڈاوا برادری کے لوگ ان سے سخت ناراض ہیں۔

معروف وکیل اور کوڈاوا سماج، بنگلور کے صدر اے ٹی نانییا نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہم یہ سن کر حیران رہ گئے کہ ہمارے روایتی لباس کا ہم جنس پرستوں کی شادی میں استعمال ہوا۔ وہاں ایک مرد سے شادی کرنا قانونی طور پر جائز اور قابل قبول ہوگا لیکن یہ روایت اور ثقافت کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے ہماری چھوٹی سی برادری کی عزت پر داغ لگایا ہے۔ اب ہماری کمیونٹی میں صرف سوا لاکھ افراد ہی باقی رہ گئے ہیں۔’

نانییا نے بتایا کہ کوڈاوا برادری کے لوگ کوپیا-چھیلے کے ساتھ پگڑی باندھتے ہیں اور ساتھ میں اپنی کمر پر ‘پیچیکٹٹی’ باندھتے ہیں جو سکھ یا گورکھوں کی کرپان یا کھرکی کی طرح کا ایک ہتھیار ہے ۔ یہ لوگ کمر پر مانڈے تھونی باندھتے ہیں جو بیلٹ کی طرح ہوتا ہے۔ کوڈاوا برادری کے لوگ کمربند کے لیے شال کا استعمال کرتے ہیں۔

نانییا بتاتے ہیں: ‘برادری کا کوئی بھی فرد اپنی زندگی میں دو بار ہی سفید لباس پہنتا ہے۔ پہلی بار جب وہ دولہا بنتا ہے اور دوسرے جب اس کی موت ہوجاتی ہے۔ باقی سبھی مواقع پر وہ سیاہ رنگ کے کپڑے پہنتا ہے۔ اس کا لباس اس کی عملی زندگی کی علامت ہے۔’

وہ کہتے ہیں: ‘اگر ہماری برادری کے لوگ ہم جنس پرستوں سے شادیاں کرنا شروع کردیں تو پھر تھوڑے ہی زمانے میں ہماری برادری ختم ہو جائے گی۔ ہم بھی پارسیوں کی طرح ہوجائیں گے۔

‘میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ نہ صرف اس کمیونٹی کے سینیئر افراد ان کے عمل سے ناراض ہیں بلکہ نوجوان طبقہ بھی ان سے ناراض ہے۔ میں نے کئی نوجوانوں سے اس کے متعلق بات کی ہے۔’

حال ہی میں کوڈاگو ضلع میں کوڈاوا برادری نے دوسری ذات میں شادیوں کے لیے شادی کے ہال دینا بند کردیے ہیں۔

نانییا کہتے ہیں: ‘اگر دولہا ہمارے معاشرے سے باہر شادی کرتا ہے تو ہم اسے معاشرے کے روایتی لباس پہننے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘ان کا بائیکاٹ کرکے ہم اپنے معاشرے کے دوسرے نوجوانوں کو اس قسم کی شادی سے روکنا چاہتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp