بالی وڈ میں ڈرگ مافیا کے الزامات، دو نیوز چینلز پر ہتک عزت کا دعویٰ



بھارتی فلم انڈسٹری بالی وڈ کے نامور فلم پرڈیوسرز نے سوشانت سنگھ راجپوت کی مبینہ خود کشی کے بعد فلم انڈسٹری کو ڈرگز اور جرائم کا گڑھ قرار دینے کے الزامات پر دو نیوز چینلز کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔

جن فلم کمپنیز کی جانب سے دہلی ہائی کورٹ میں یہ مقدمہ دائر کیا گیا ہے ان میں میگا اسٹارز شاہ رخ خان، عامر خان اور سلمان خان کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ 30 سے زائد دیگر پروڈکشن ہاؤس بھی اس مقدمے میں مدعی ہیں۔

فلمسازوں کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کوریج کے دوران بالی وڈ شخصیات کی نجی زندگی میں دخل اندازی کے علاوہ ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق مقدمے میں فلم سازوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’ٹائمز ناؤ‘ اور ’ری پبلک‘ نیوز چینلز کی جانب سے فلمی صنعت کو جرائم پیشہ اور منشیات کی ’منڈی‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔

بیان کے مطابق ان نیوز چینلز نے عوام میں یہ تاثر ابھارنے کی کوشش کی کہ پورا بالی وڈ منشیات اور جرائم کا گڑھ ہے۔

سوشانت سنگھ راجپوت (فائل فوٹو)

دونوں نیوز چینلز کے نمائندوں نے اس پیش رفت پر تاحال اپنا ردعمل طاہر نہیں کیا۔

سوشانت رواں سال 14 جون کو ممبئی میں واقع اپنی رہائش گاہ میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے جب کہ پولیس نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اسے خود کشی قرار دیا تھا۔

سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد بعض نیوز چینلز نے اسے کالے جادو کا شاخسانہ قرار دیا تو کچھ نے ان کے زیر استعمال ادویات پر سوال اٹھائے تھے۔

بعدازاں پولیس نے سوشانت کی مبینہ گرل فرینڈ ریہا چکرورتی کو بھی منشیات کے استعمال کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا تھا۔ انہیں 28 روز بعد ضمانت پر رہائی ملی تھی۔

سوشانت سنگھ کی کو موت تین ماہ گزر جانے کے باوجود یہ معاملہ موضوع بحث ہے اور بالی وڈ میں مبینہ طور پر اقربا پروری اور منشیات کے الزامات کو بھی میڈیا بھرپور کوریج دے رہا ہے۔

فلم پرڈیوسرز کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں ٹی وی چینلز بالی ووڈ سے وابستہ افراد کو قصور وار قرار دینے کے لیے خود کو ’عدالتوں‘ کی حیثیت دے رہے ہیں جب کہ کیس کی بنیاد کے لیے ان کے پاس ثبوت موجود ہونے کے بھی دعوے کیے جا رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa