قانون کی بالا دستی اور وزیر اعظم کا عزم


پاکستان کی جمہوری تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو سوائے مایوسی اور کوتاہ نظری کے کچھ نظر نہیں آتا۔ ایک طرف سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے اقتدار کے لیے سیاست میں ایسے خلا پیدا کیے جن میں آمریت باآسانی سما گئی۔ دوسری طرف اشرافیہ ہے جس نے سیاست دانوں کے ساتھ مل کر ایسی ملک دشمن پالیسیاں بنوائیں کہ ملک کے پہلے تو دو ٹکڑے ہوئے، پھر اس کی معیشت امریکی قرض دینے والی ایجنسیوں کے ماتحت آ گئی۔ ساٹھ کی دہائی گو کہ ایک آمر کی حکمرانی کی داستان ہے لیکن جس ترقی سے پاکستان اس دور میں مستفید ہوا ایسا پھر کبھی نہ ہو سکا۔ نوے کی دہائی اور پھر نئی صدی تو دہشت گردی کی نذر ہو گئی۔ ہر شہری نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قربانی دی ہے۔ کسی نے جان دے کر تو کسی نے کاروبار میں نقصان اٹھا کر۔ آج پاکستان کی صورت حال بہت بہتر ہے اور ہم دشمنوں کی لاکھ کوشش کے باوجود ناکام سٹیٹ نہیں بنے، بلکہ ملک کے مالیاتی، معاشی، سماجی اور دیگر اداروں کو بین الاقوامی سطح پر لایا جار ہا ہے۔ کرونا وائرس کا مقابلہ جس سلیقے کے ساتھ کیا گیا، دنیا پاکستان کی کاوشوں کو سراہ رہی ہے۔ کرونا کی جنگ صرف وائرس کے خلاف نہیں ہے۔ یہ جنگ بھوک، غربت اور کاروباری نقصان کے خلاف بھی ہے، جو کرونا سے پیدا ہونے والی صورت حال میں پاکستان پر مسلط ہو جاتی اگر وزیر اعظم نے بر وقت درست فیصلے نہ لیے ہوتے۔ یہ جنگ بھی ہم دہشت گردی کی جنگ کی طرح انشا اللہ جیت جائیں گے۔ لیکن ایک معرکہ ایسا ہے، جس میں اگر ہم کامیاب نہ ہو پائے تو ترقی کا خواب ٹکڑوں میں ہی پورا ہوتا رہے گا نہ کہ کسی مربوط، منظم اور مسلسل چلنے والے نظام کے تحت۔

اس معرکے کی اہمیت جاننے اور اس کی تنظیم سازی کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کی غرض سے گزشتہ کل 9 اکتوبر کو اسلام آباد کنونشن سینٹر میں لائرز فورم کے زیر اہتمام سیمینار منعقد کیا گیا۔

کنونشن میں میری تقریر کا آغاز بھی اسی درخواست کے ساتھ ہوا، جس کا عندیہ کئی صدیوں پہلے حضرت علی نے دیا تھا کہ ”کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔“ حکومت کو عدالتی نظام میں بہتری کی تجاویز دینے سے پہلے میں نے اپنی وکلا برادری سے مخاطب ہو کر التجا کی کہ جب تک ہم اپنے گھر کو درست نہیں کریں گے۔ جب تک ہماری طرف سے عدالتی نظام میں بہتری کی طرف پہلا قدم نہیں اٹھے گا۔ جب تک ہم عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے میدان میں نہیں اتریں گے تب تک ظلم کے خلاف ہمارا معرکہ فتح یابی میں نہیں بدلے گا۔

میں وزیر اعظم عمران خان کا بہت ممنون ہوں کہ انہوں نے اس سیمینار میں شرکت کر کے انصاف لائرز فورم کو عزت بخشی جس سے اس فورم سے منسلک وکلا کو مزید تقویت ملے گی۔

اپنی تقریر میں عمران خان نے بتایا کہ مدینہ کی ریاست کا روم اور فارس جیسی سلطنتوں پر فتح حاصل کرنا اس لیے ممکن ہو سکا کیونکہ مسلمانوں کا نظام عدل مضبوط اور انصاف پر مبنی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں، جیسا کہ عمران خان نے کہا ہے، کہ جس ملک میں طاقت ور لوگ انصاف کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اس وقت کی حکومت ان کا مقابلہ کرے تو سمجھ لیں کہ وہ قوم تاریخی لمحے میں داخل ہو گئی ہے۔ پاکستان بھی تاریخی موڑ پر ہے، جہاں مخالف سیاسی جماعتوں نے اتحاد اس لیے بنایا ہے کہ انصاف کے ترازو میں اپنا وزن ڈال سکیں۔ لیکن جیسا کہ عمران خان نے کہا پی ٹی آئی کے دور حکومت میں یہ ممکن نہیں اور اسی لیے وہ حکومت کو گرانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ پاکستان کو اسی سیاسی اشرافیہ سے ہمیشہ نقصان پہنچا ہے اور اسی اشرافیہ کے خلاف ہماری لڑائی ہے۔

میں نے وزیر اعظم عمران خان کو عدالتی نظام کی بہتری کے لیے دو تجاویز پیش کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ عدالتوں میں ججوں کی تعداد کو بڑھا یا جائے اور ٹیکنالوجی کے نفاذ کو یقینی بنائیں تاکہ جدید طریقہ کار پر عدالتی کلچر کی تعمیر نو ہو سکے۔ میری دوسری تجویز ایک کمیشن بنانے کی ہے جس کے ذریعے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی وجوہات کا پتا چلایا جائے اور ساتھ ہی عدالتی نظام کی بہتری سے متعلق سفارشات حاصل کی جائیں۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان میں انصاف مہنگا اور سست روی کا شکار ہے جس سے عوام میں بے چینی اور قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی روش میں اضافہ ہوگا۔

جمہوریت جس طرز حکمرانی کا نام ہے اس میں سب سے آزاد اور پر اطمینان شے اس ملک کے لوگ ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی سب سے بہترین تعریف ابراہیم لنکن نے کی تھی۔ وہ کہتا ہے : Democracy is of the people، for the people and by the people  اس کا اردو میں ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے۔ ”جمہوریت لوگوں سے ہے، ان کے لیے ہے اور ان کے توسط سے ہے۔“ ہماری ماضی کی حکومتوں نے اس تعریف پر عمل تو کیا لیکن صرف اس کے ابتدائی دو حصوں پر۔ کیونکہ حکومت بنانے کے لیے انہیں عوام کی ضرورت ہے۔ اور وہ عوام سے اقتدار میں آ کر خدمت کے وعدے کے عوض ووٹ مانگتے ہیں۔ لیکن اس تعریف کا آخری حصہ جس میں عوام کی خوشحالی مضمر ہے وہ ہماری سیاسی اشرافیہ کا سر درد نہیں اور نہ شاید کبھی ہو گا۔ اقتدار میں آتے ہی وہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت کا یہ سفر جو انہوں نے شروع کیا ہے اس کے اصل مسافر تو عوام ہیں ناکہ وہ خود۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ سیاست دان کی حیثیت تو اس ڈرائیور جیسی ہے جو بس کو منزل تک لے جانے پر مامور ہے۔ اس کی ذمہ داری تو مسافروں کو با حفاظت پانچ سال ترقی کے ان اہداف تک پہنچانا ہے جن کا وعدہ وہ اپنے منشور اور انتخابات کی مہم میں کرتے ہیں۔ جمہوریت کی کامیابی عوام کی فلاح کے ساتھ جڑی ہے۔ جمہوریت اور عوام ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔

قائد اعظم کی ساری سیاسی جدوجہد مسلم عوام کے لیے تھی۔ اپنی سیاست کی تشریح کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا ”یہ جو میں جگہ جگہ بھاگتا پھرتا ہوں تو یہ اشرافیہ کے لیے نہیں، کیونکہ ان کے پاس تو بہت کچھ ہے۔ میری ساری سیاست مسلم عوام کی بہتری کے لیے ہے۔“

اس فارمولے پر اسی صورت عمل ہو سکتا ہے جب قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے ۔ جب ریاست اپنے شہریوں میں فرق نہیں کرے گی۔ جب ریاست کی عدالتوں میں انصاف کا پیمانہ ایک ہی ہوگا۔ جب وکلا اپنی پیشہ وارانہ زندگیوں میں امیر اور غریب کے فرق کو دیکھے بغیر انصاف کے لیے جدوجہد کریں گے۔

سید علی ظفر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید علی ظفر

مصنف سپریم کورٹ کے ایڈ ووکیٹ، سابق نگران وفاقی وزیر قانون و اطلاعات اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ہیں۔

syed-ali-zafar has 3 posts and counting.See all posts by syed-ali-zafar