آذربائیجان، آرمینیا تنازع: ’ہم سب مر بھی گئے تب بھی اپنی زمین کا ایک انچ نہیں چھوڑیں گے‘


باپ بیٹا
آذربائیجان میں میزائل حملے کے بعد کا منظر
آذربائیجان اور آرمینا کے مابین دہائیوں سے جاری ناگورنو قرہباخ تنازع اب بھی سرد نہیں ہوا ہے۔ روس کی ثالثی کی کوششوں کے باوجود دونوں ممالک سنہ 1990 کی دہائی سے اب تک اس علاقے کے کنٹرول کے لیے برسرِپیکار ہیں، اور حالیہ ہفتوں میں اس تنازع میں پھر سے شدت آئی ہے۔

آذربائیجان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ناگورنو قرہباخ کو آذربائیجان کا ایک حصہ تسلیم کیا گیا ہے اور اس کا کنٹرول واپس حاصل کرنا ادھورے کام کو پورا کرنے جیسا ہے۔ جبکہ آرمینیا کا موقف ہے کہ نوگورنو قرہباخ تاریخی طور پر آرمینیائی نسل کا باشندوں کا مسکن اور صدیوں سے آرمینیا کا حصہ ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار اورلا گورین اور سٹیو روزنبرگ نے کشیدگی کا شکار علاقے میں دونوں ممالک کے شہریوں میں موجود تلخی اور حب الوطنی کا جذبہ دیکھا ہے۔


اورلاگورین

بی بی سی نیوز، آذربائیجان

آذربائیجان کے دوسرے بڑے شہر گنیجی کی مرکزی سڑک کے دونوں جانب درخت لگے ہیں جن کے اوپری حصے صبح کی دھوپ میں نہا رہے ہیں۔ سٹرک پر ٹوٹے ہوئے شیشوں کے ٹکڑے بکھرے ہوئے ہیں گویا سٹرک پر شیشے کے قالین بچھے ہوں۔ اس سٹرک کے عقب میں بہت سی رہائشی اور کمرشل عمارتیں ہیں جو پھٹے ہوئے ٹِن کے ڈبے کی طرح نظر آ رہی ہیں۔

گنیجی شہر نوگورنو قرہباخ کے محاذ سے 100 کلومیٹر (62 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔ گذشتہ اتوار کا دن پہلا ایسا دن تھا جو غیریقنی جنگ بندی کا ایک مکمل دن تھا۔

آذربائیجان نے آرمینیا پر گنیجی شہر کے رہائشی حصے پر بلیسٹک میزائل فائر کرنے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ آرمینیا نے آذربائیجان پر اُس کے شہری علاقوں پر گولہ باری کا الزام عائد کیا ہے۔

ہماری ملاقات 60 سالہ نوشابہ حیدرووا سے ہوئی جنھوں نے سرپر سکارف لے رکھا تھا۔ اُن کے بازو صدمے سے شل تھے۔

نوشابہ

نوشابہ حیدرووا

انھوں نے بتایا ’اسی حالت میں ہم بھاگے، جن کپڑوں میں تھے انھی میں بھاگے۔ ہم بال بال بچے۔ یہ سب خوفزدہ کر دینے والا تھا۔‘

ہم نے اُن کے ملبے کا ڈھیر بنے گھر میں اپنا راستہ بنایا اور اُن کے بیڈ روم تک پہنچے جہاں اُن کے پوتے محو خواب تھے۔ بچوں کو معمولی چوٹیں آئی تھیں۔ اب دونوں اطراف کی ایک نئی نسل کئی دہائیوں سے جاری اس تنازع کا شکار ہے۔

انھوں نے کہا: ’آرمینیا کو پُرامن طریقے سے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ ہم صرف اپنے وطن کو آزاد کروانا چاہتے ہیں۔‘

یہاں کے لوگ ناگورنو قرہباخ کو اپنے ملک کا ایک گمشدہ ٹکڑا سمجھتے ہیں۔ یہ جہاں ان کے عقائد کا ایک حصہ ہے وہیں قومی بیانیے کے طور پر انھیں یہ بات بہت اچھی طرح ذہن نشین کرائی گئی ہے اور اُن کے اس خیال کو عالمی برادری کی حمایت حاصل ہے۔

آذربائیجان کے ہی 22 سالہ احتیار رسولوف نے ناگورنو قرہباخ خطے میں کبھی قدم نہیں رکھا ہے لیکن اس نوجوان کا کہنا ہے کہ وہ اس خطے کو واپس حاصل کرنے کے لیے جان دینے کو تیار ہیں۔

جب ہم آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ان سے ملے تھے تو اس وقت انھوں نے تازہ تازہ جنگ میں شرکت کے لیے اپنا نام لکھوایا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کھنڈر نما عمارتیں اور بندوق بردار دادیاں، ناگورنو قرہباخ کی تازہ ترین صورتحال

بمباری، جنگ اور خوف: ناگورنو قرہباخ تنازع کا آنکھوں دیکھا حال

ناگورنو قرہباخ: پیر کو بھی ’شدید شیلنگ‘، شہریوں کی اموات میں اضافے کے خدشات

انھوں نے خلوص دل کے ساتھ کہا کہ ’میں اپنی جان اور اپنے خون سے اپنی قوم اور اپنی مادر وطن کے لیے لڑنے کو تیار ہوں۔ میرے والد، میری والدہ اور میرے نانا دادا ان علاقوں میں رہتے تھے۔ میرا بھائی ابھی جاری جنگ میں آذربائیجان کی جانب سے لڑ رہا ہے۔‘

احتیار ایک ایسے ہاؤسنگ کمپلیکس میں رہتے ہیں جہاں ناگورنو قرہباخ اور آس پاس کے علاقوں سے فرار ہونے والے خاندان پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ سنہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ ان کی پرورش کھوئی ہوئی زمین، آرمینیا سے تاریخی دشمنی اور ان کے مظالم کی لوک روایات پر ہوئی ہے۔ یہ اُن کی گھٹی میں شامل ہے اور یہی بات یہاں کے بیشتر لوگوں پر ثابت آتی ہے۔

نقشہ

انھوں نے کہا کہ ’قرہباخ آذربائیجان ہے۔ آرمینیائی وہاں آئے اور انھوں نے ہماری قوم کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا۔ بے شک میں نے بذات خود اس کا مشاہدہ نہیں کیا ہے، لیکن میں نے اس کے بارے میں بہت سُنا ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ آذربائیجان کے صدر الہام علییف کی باتوں سے وہ اتفاق کرتے ہیں۔ سختی کے ساتھ کنٹرول کیے جانے والے ممالک میں جہاں صدارت کا عہدہ باپ سے بیٹے تک منتقل ہوتا ہے وہاں اس قسم کی بات عام طور پر سننے کو ملتی ہے۔

احتیار کا ایک پڑوسی دوڑتا ہوئے مجھے اپنا پرانا فوجی شناختی کارڈ دکھانے آئے۔ اس سے قبل ہونے والی نوگورنو قرہباخ کی جنگ میں آصف حق وردییف نے شرکت کی تھی۔ اب ان کے سر کے بال نہیں ہیں لیکن وہ اب بھی پُرجوش اور پھرتیلے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں ابھی 51 سال کا ہوں اور میں اب بھی اپنے ملک کے لیے لڑنے اور مرنے کے لیے تیار ہوں۔‘

گنچا شہر

’میں نے اپنے بیٹے کو جنگ میں لڑنے بھیجا ہے۔ وہ سرحد پر برسرِپیکار ہے۔ اگر میرے اہلخانہ کی موت بھی ہو جاتی ہے اور سبھی مر جاتے ہیں تو بھی ہم اپنی زمین کا ایک انچ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں۔‘

ہمیں محاذ والے شہر تارتار سے ایک دادی کا بھی یہی پیغام موصول ہوا۔ دونوں جانب سے مسلسل گولہ باری کے باوجود آئیبینیز جافراوا نے اپنا گھر بار چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے اور اب وہ اپنے گھر کے زیر زمین حصے میں رہتی ہیں۔

ہم نے اُن سے اُن کے کئی رشتہ داروں کے ساتھ ایک عارضی پناہ گاہ میں ملاقات کی۔ ان میں ان کا چھ ماہ کا پوتا فارز بھی شامل ہے جسے انھوں نے اپنی بانھوں میں اٹھا رکھا تھا اور جھولا جھولا رہی تھیں۔

ملگجی روشنی میں مسکراتے ہوئے انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ہم 28 سال سے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

’جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہم بہت پُرجوش ہیں۔ میرا بیٹا اور بیٹی محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ ہم فتح کے دن کا انتظار کر رہے ہیں اور اپنی سرزمین پر نقل مکانی کرنے کے لیے عارضی پناہ گاہ میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔‘

یہاں کسی کو بھی روس کی ثالثی کے تحت ہونے والی جنگ بندی کے قائم رہنے کی توقع نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ جنگ بندی چاہتے ہی نہیں ہیں۔ ان کی فوجوں نے پہلے ہی ناگورنو قرہباخ کے کچھ علاقوں کو واپس حاصل کر لیا ہے۔ وہ میدان جنگ میں فتح چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کے صدر اپنے موقف پر قائم رہیں۔


سٹیو روزنبرگ

بی بی سی نیوز، نوگورنو قرہباخ

آشوت آغاجانیان نے مجھے اپنے گھر مدعو کیا جہاں سے اسٹبیپیناکرت کی پہاڑیاں نظر آتی ہیں یا وہاں جو کچھ بچا ہے وہ دیکھا جا سکتا ہے۔

لونگ روم ٹوٹے ہوئے شیشوں اور چھت کے کچھ گرے ہوئے ملبے سے اٹا پڑا ہے۔ گولیوں سے ان کا نیا صوفہ چھلنی ہے جبکہ باورچی خانہ اور باتھ روم مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں۔

آشوت آغاجانیان

آشوت

آشوت کا گھر ایک طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کی زد میں آ گیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ آذربائیجان سے یہ میزائل داغا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حملہ سرکاری جنگ بندی کے نفاذ کے بعد ہوا ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت آشوت اور ان کا بیٹا اپنے تہ خانے میں تھے اسی لیے وہ بچ گئے۔ لیکن جس گھر کو انھوں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا وہ تباہ ہو گیا۔

میں نے آشوت سے پوچھا کہ ان کے خیال میں کیا آرمینی اور آذربائیجانی کبھی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ وہ سر ہلا کر بولے ’کبھی نہیں۔‘

دن میں کئی بار فضائی حملے کے سائرن گونجتے ہیں جو مکینوں کو بھاگ کر چھپنے کا اشارہ دیتے ہیں۔ سرگیی ایونیسیان اپنی مقامی پناہ گاہ میں تھے کہ انھوں نے کان پھاڑ دینے والے دھماکے کی آواز سُنی۔

سرگیی یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ساری عمارت لرز اٹھی تھی۔‘ جب وہ تہ خانے سے باہر نکلے تو انھوں نے اپنے گھر سے چند میٹر کے فاصلے پر ایک بڑا سا گڑھا دیکھا۔ ان کے گھر کے سامنے والی عمارت ملبے میں بدل چکی تھی۔ دھماکا اتنا زور دار تھا کہ اس کے ٹکڑے سڑک کی دوسری جانب اڑتے ہوئے پہنچے۔

عمارت کا ایک بڑا سا ٹکڑا اڑ کر سرگیی کے فلیٹ والے بلاک کی چھت پر گرا۔ انھوں نے اس کا الزام آذربائیجان کے قریب ترین اتحادی ترکی پر لگایا کہ وہ جنگ کو ہوا اور تشدد کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ ناگورنو-قرہباخ میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ روس کھلے عام آرمینیا کا ساتھ دے اور فوجی مدد فراہم کرے۔ سرگیی کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔

وہ کہتے ہیں: ‘میں (صدر ولادیمیر پوتن) کا احترام کرتا تھا لیکن انھوں نے بہت پہلے ہی ہمارے ساتھ غداری کی۔

‘وہ ترکی کے ساتھ کاروبار کرتا ہے۔ وہ ان کے لیے نیوکلیئر پاور اسٹیشن بنا رہا ہے۔ پوتن کو یہ جاننا چاہیے کہ اگر ہم تباہ ہوجاتے ہیں تو پورے قفقاز اور جنوبی روس کا اقتدار بالآخر ترکی حکومت کے زیر اختیار آ جائے گا۔ اگر ہم مریں گے تو روس بھی مرے گا۔’

میزائل کا حصہ

طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ان جھڑپوں میں استعمال ہوئے ہیں

ناگورنو قرہباخ میں آرمینی نسل کے باشنوں کی اکثریت ہے جسے وہ ارتسخ کہتے ہیں اور وہ وہاں کئی نسلوں سے آباد ہیں۔

لیکن قرہباخ کی آرمینیائی نسل کے لوگوں کے لیے روحانی اور جذباتی اہمیت ہے۔ اسٹیپاناکرٹ کے ایک کیفے میں میری ملاقات آرا شین لیان سے ہوئی۔ آرا لاس اینجلس میں رہتے ہیں لیکن وہ آرمینی نژاد ہیں۔ جب انھوں نے سنا کہ نوگورنو-قرہباخ پر حملہ ہوا ہے تو اظہار یکجہتی کے لیے یہاں پہنچ گئے۔

آرا نے کہا: مجھے تو آنا ہی تھا۔ میں اپنے لوگوں کے لیے جو کچھ کر سکتا ہوں کروں گا، اپنے مادر وطن کے لیے جو کچھ دے سکتا ہوں دوں گا۔ میں اسی لیے یہاں آیا ہوں۔’

جن لوگوں سے میں نے یہاں بات کی ہے ان سے یہ واضح ہے کہ ان جذبات آسمان پر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سمجھوتہ کرنے کی انھیں کوئی خواہش نہیں ہے۔

رابرٹ اویتیسیان نے مجھے بتایا: آرٹسخ کے خلاف اتنے حملوں کے بعد آذربائیجان نے اخلاقی طور پر اس پر اپنے حق کا دعوی کھو دیا ہے۔ ناگورنو قرہباخ نے انھیں امریکہ میں اپنا مستقل نمائندہ مقرر کیا ہے۔ لیکن رابرٹ سے میری ملاقات اسٹیپاناکرٹ میں ہوئی۔

میں نے بتایا کہ دونوں طرف سے تشدد ہوا ہے۔ گانجا میں آذربائیجان کے شہری مارے گئے اور باکو نے آرمینیا پر اس کا الزام لگایا۔

آرمینیائی

بعض آرمینیائی باشندوں نے چرچ میں پناہ لے رکھی ہے

رابرٹ نے جواب دیا: ‘اسی دن پانچ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اسٹیپاناکرٹ پر داغے گئے۔ اور اس سے کچھ دن پہلے تقریبا 100 میزائل سے قصبے کے تقریبا ہر حصے کو نشانہ بنایا گیا۔ ہم نے کبھی بھی شہری آبادی کو نشانہ نہیں بنایا۔ گانجا میں فوجی بنیادی ڈھانچہ تھا۔

‘لیکن گنجا میں جس رہائشی بلاک کو نشانہ بنایا گیا وہ فوجی ہدف نہیں تھا۔’

رابرٹ کہتا ہے کہ ‘مجھے یہ نہیں معلوم۔ میں صرف یہ کہ رہا ہوں کہ ہم نے دانستہ طور پر کبھی بھی غیر فوجی اہمیت کی چیزوں کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp