چکر ہے مرے پاؤں میں، زنجیر نہیں ہے


“مجھے کامیابی کا کیا انعام ملے گا؟ یہ میری زندگی کا اہم سنگ میل ہے”

زندگی کے دکھائی نہ دینے والے امتحانوں کے ساتھ جینا تو ہر کسی کی اپنی ہمت اور ظرف کا امتحان ہوا کرتا ہے مگر وہ امتحان جن میں برسہا برس کے دن رات کی مغز پچی کی گئی ہو، ان سے عہدہ برآ ہونے کا احساس رگ و پے میں برق دوڑ دیا کرتا ہے۔

ہمیں موہوم سا خیال گزرتا ہے کہ سنکی اور پاگل پن کی طرح شاید سیلانی پن بھی نسل در نسل منتقل ہوا کرتا ہے۔ پاؤں میں پڑا چکر جو چین نہ لینے دے، اجنبی راستوں پہ چلنے کا خواب جو آنکھ موندنے نہ دے، انجانی سرزمینوں کو کھوجنے کا اضطراب جو سانس نہ لینے دے، کسی اجنبی سے ملنے کی تمنا جس کا ان دیکھا پیکر ازخود تراش کے آنکھوں میں بسایا ہو، جینے نہ دے۔ تاریخ میں ہولے ہولے سانس لیتی تاریک بند گلیوں میں کھو جانے کی تمنا جو کچھ کہنے نہ دے، پریم روگ کی طرح کہیں بھٹک جانے کا جوگ!

اماں بتایا کرتی تھیں کہ جونہی سورج ڈھلتا اور دھوپ کا سنہری پن شام کے ملگجے پن میں بدلنے لگتا، ہماری خلد مکانی نانی سہلیوں سے ملنے نکل کھڑی ہوتیں جنہیں اپنی خوش مزاج سہیلی کا بے طرح انتظار ہوتا۔ کھیتوں میں چہل قدمی کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں وقت گزار کے جب نانی گھر کو لوٹتیں تو رات آنگن میں دبے پاؤں اتر رہی ہوتی۔ اگر کسی دن نہ جا پاتیں تو فون تو تھے نہیں کہ پیغام بھیجا کدھر ہو اور وہیں کے وہیں جواب پا لیا، سو تشویش بھرے چہرے گھر تک پہنچ جاتے کہ اس دن محفل کے جمنے میں آنچ کی کمی رہ گئی ہوتی۔

نانی کا یہ شوق ورثے میں اماں کو ملا اور سہیلیوں کے ساتھ ملنے ملانے کے انداز وہی ٹھہرے۔ ابا بھی نبض شناس تھے سو خوب ہی گزری۔ نہ ابا نے اماں کے سہیلیوں کے سنگ تفریحی دوروں میں کبھی رخنہ اندازی کی اور نہ ہی اماں نے کبھی ابا کے متعلق خواہ مخواہ کی فکریں پالیں۔ اماں ابا کے بچوں میں یہ ادا ہم نے پائی اور پیروں میں بلیاں بندھ گئیں۔ ہوسٹل میں قیام نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی کہ قسمت نے صاحب کے ساتھ در در کی خاک پھانکنا لکھ دی۔ ہمیں یہ شہر شہر گھومنا کبھی بار خاطر نہ گزرا کہ اجنبی سرزمین اور بھانت بھانت کے لوگوں سے ملنا ہمیشہ دل کے قریب رہا۔ اسی طور ملک سے باہر دیس دیس کی خاک چھان ماری، کبھی پروفیشن کے نام پہ، کبھی اتفاقِ زمانہ تو کبھی شوق سیاحت رنگ لایا۔

اور کیا کہیے کہ اب چوتھی نسل بھی اسی سیلانی پن سے بندھی ہے۔ دنیا کی رنگارنگی دیکھنے کا اس قدر شوق ہے کہ ہر پل یہ دھن سمائے رہتی ہے کہ اپنے مدار سے باہر نکل کے کچھ مختلف کیا جائے۔

” مجھے امریکہ دیکھنا ہے مغربی ساحل سے چل کےمشرقی ساحل تک، چلتے چلتے، شہر در شہر، ریاست در دریاست” یہ ہماری بڑی صاحبزادی تھیں جس نے کامیابی کے بعد یہ فرمائش سنا کے تھیلے سے بلی باہر نکالی تھی۔

” یہ تو بہت لمبا سفر ہے بیٹا” ہم بھونچکا رہ گئے،

“جی، میں حساب لگا چکی ہوں، تقریباً سات ہزار کلومیٹر “

“سات ہزار کلومیٹر، اور سڑک کے ذریعے” ہماری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی،

“افوہ، آپ نے کونسا گاڑی چلانی ہے یا کچھ اور۔ میں نے سب سوچ لیا ہے آپ بس سامان باندھیے، باقی سب میرے ذمے”

لیجیے جناب ، انکار کی تو گنجائش ہی نہیں رکھی گئی تھی۔ ہم وہ پہیہ تھے جس کا کام دوران سفر اونگھنا رکھا گیا تھا۔

اس سفر کی ماسٹر مائنڈ ہماری بڑی صاحبزادی تھیں جو وسکانسن یونیورسٹی میڈیسن سے بیچلرز کرنے کے بعد نیویارک یونیورسٹی میں ماسٹرز کی کلاسز شروع ہونے سے پہلے یہ ایڈونچر کرنا چاہتی تھیں۔ سفر کے انتظامات اس نے اپنے سر لئے اور تین ہفتوں کے ایک ایک دن کی سرگرمی، سفر کا روٹ اور قیام وطعام پہ ہوم ورک کیا گیا۔ صاحب سے انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس لینے کی درخواست گزاری گئی۔ چھوٹے دونوں کا باچھیں کھلانے کے سوا کوئی اور کام نہیں تھا۔ اور ہمارا دل نئی دنیاؤں سے گزرنے کی سرخوشی کے ساتھ ساتھ دہلا بھی جاتا تھا کہ اتنا لمبا سفر!

طے یہ کیا گیا کہ ہم کیلیفورنیا سٹیٹ کے شہر لاس اینجلس لینڈ کریں گے اور نیویارک پہنچنے کے لئے تیرہ سٹیٹس گھومتے گھماتے گاڑی پہ پار کریں گے۔ ان سٹیٹس میں نیواڈا، ایریزونا، ٹیکساس، نیو میکسیکو، اوکلاہوما، ارکنساس، ٹینیسی ، مسیسپی، ورجینیا، میری لینڈ، واشنگٹن ڈی سی، نیو جرسی اور نیویارک شامل تھیں۔

سفر کی تفصیلات میں ایک شق یہ بھی تھی کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لئے ایک دن کا ڈرائیونگ ٹائم زیادہ سے زیادہ پانچ سے چھ گھنٹے ہو گا۔ اس کے بعد قیام کر لیا جائے گا۔

ہر سٹیٹ کے پہلے سے منتخب شدہ شہر میں ہوٹل کی بجائے ائیر بی این بی کے ایسے گھر بک کیے جائیں گے جن میں کم ازکم تین بیڈ روم ضرور ہوں کہ کوئی ایک دوسرے کے سر پہ زیادہ سوار نہ ہو (امریکن طرز زندگی)۔ ناشتا گھر میں بنے گا، دوپہر کا کھانا باہر کھایا جائے گا اور رات کا کھانا بقدر ضرورت و بقدر ہمت!

ائیر بی این بی ایسی سائٹ ہے جو ان لوگوں کے گھر کرائے پہ چڑھاتی ہے جو کچھ دنوں کے لئے گھر سے باہر ہوں۔ ان گھروں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ روایتی ہوٹل کے کمرے کی بجائے شہر کے کسی محلے کے بیچوں بیچ اصل معاشرت کا بھی تجربہ ہو جاتا ہے۔ سجے سجائے گھر، مکینوں کی تصویریں، گھر کی سجاوٹ، برتن، فرنیچر، بہت سی کہانیاں کہہ دیتا ہے۔ اور ہمارا تصور ہمیں نہ جانے کیا کہاں کہاں کی سیر پہ لئے پھرتا ہے۔

اگلی شق ذریعہ سفر کے بارے میں تھی۔ طے یہ پایا کہ اس طویل سفر کے لیے لاس اینجلس سے بڑی گاڑی کرایے پہ لی جائے گی جس میں بیٹھنے، لیٹنے اور سامان رکھنے کی وافر جگہ موجود ہو۔ دو ڈرائیور (صاحب اور صاحبزادی) باری باری ڈرائیو کریں گے۔ ہمیں اس قابل نہ سمجھا گیا کہ ہمارا نام بھی اس فہرست میں ڈالا جاتا۔

آئس باکس گاڑی میں رکھا جائے گا جس میں پانی اور سافٹ ڈرنکس ہمہ وقت موجود ہوں گے جبکہ سنیکس کا کوٹہ ہر شہر سے بھرا جائے گا۔ راشن میں کچھ ایسی چیزیں لی جائیں گی جن کو جب چاہے استعمال کیا جا سکے یعنی دالیں، چاول، اچار اور چٹنیاں وغیرہ وغیرہ۔

سب افراد خانہ کی انشورنس کروائی جائے گی تا کہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں کوئی زحمت نہ ہو۔ راستے میں آنے والی ہر قابل ذکر جگہ دیکھی جائے گی اور ٹکٹس پہلے سے خرید لیے جائیں گے۔

اور سب سے اہم یہ کہ ملٹری روٹین پہ عمل نہیں ہو گا ( صاحب کو انتباہ)۔ اگر کسی دن بستر سے نکلنے کو جی نہیں چاہ رہا تو مولا بخش کا سہارا نہیں لیا جائے گا۔

اس منصوبے کو سوچنے اور ترتیب دینے کی انتھک محنت کا سہرا ہماری بیٹی کے سر بندھتا ہے ورنہ اتنے طویل سفر پہ امریکہ میں برسوں سے رہنے والے بھی نہیں نکلتے۔ ہم جب بھی کسی شہر سے گزرتے جہاں ہمیں علم ہوتا کہ ہماری کوئی کلاس فیلو موجود ہیں۔ ہم انہیں فون کرتے اور وہ یہ جان کے حیرت زدہ ہو جاتیں کہ ہم سات سمندر پار سے یہ ایڈونچر کرنے ان کے دیس تشریف لائے ہیں۔

ساڑھے تین ہفتوں کا یہ سفر جس نے ہمیں مختلف کیفیات سے گزارا، خوشی، حیرت، ہیجان، پیار، اداسی، تھکن، خفگی، غصہ اور چڑچڑا پن۔ ان سب رنگوں نے مل کر ایک ایسی البم ترتیب دی جس کے ہر صفحے پہ ایک یاد ہے اور اس یاد سے ایک کہانی جڑی ہے۔

ہم آپ کو اس سفر پہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ خواہش ہے کہ جس طرح اجنبی دیس کی سرزمینوں اور باشندوں کو دیکھ کے ہمارا دل بے چین ہوا، ان لمحات کی کچھ رمق آپ تک بھی پہنچے۔ شاید کسی آنے والے کل میں آپ ہمارے نقش پا کے تعاقب میں وہاں تک پہنچیں تو وہیں کہیں ہماری زندگی کے کچھ پل ابھی بھی چھپے بیٹھے ہوں۔

کسی جھاڑی کی اوٹ میں، کسی تتلی کے پر پہ، پروا کے آوارہ جھونکوں کے ہمراہ، کسی قہقہے کی جھنکار میں، کسی اداس لمحے کی خاموشی میں، کسی تالاب کی مچلتی لہروں پہ، کسی بوڑھے درخت کی جٹاؤں میں۔ اگر انہیں آپ پا لیں تو کہہ دیجیے گا کہ ان مناظر اور ان سرزمینوں میں گزرا وقت ہمارے اندر بستا ہے۔ کبھی کبھی تنہائی میں شام سے کچھ پہلے وہ سب پل باہر نکل آتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کیا کبھی مسافر پھر سے ان راہوں سے گزر سکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).