امریکی صدارتی انتخاب 2020: اہم معاملات پر صدر ٹرمپ کہاں کھڑے ہیں؟


صدر ٹرمپ
ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2016 کا صدارتی انتخاب ’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانا ہے‘ کے نعرے پر جیتا تھا۔

ایک ایسے وقت میں جب وہ دوسری مدت کے لیے حزب اقتدار ریپبلکن جماعت کی طرف سے صدراتی امیدوار ہیں تو امریکہ کو کورونا وائرس اور اس کے منفی معاشی اثرات جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔

آئندہ صدارتی انتخاب میں حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے عوام گذشتہ چار سال میں ان کی کارکردگی کو ضرور سامنے رکھیں گے۔

اِن انتخابات میں صدر ٹرمپ یہ پروگرام لے کر آ گے بڑھ رہے ہیں کہ وہ معیشت کو ٹھیک کریں گے، روزگار کے مواقع بڑھائیں گے، امریکہ کے تجارتی مفادات کا تحفظ کریں گے اور ان سب کے ساتھ ساتھ امیگریشن کے بارے میں اپنی پالیسی کو نرم نہیں کریں گے۔

ذیل میں آٹھ ایسے نکات ہیں جن کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کہاں کھڑے ہیں۔

اجناس

کورونا وائرس کی وبا سے تباہ حال معیشت کو بحال کرنا

صدر ٹرمپ طویل عرصے سے ’امریکہ فرسٹ‘ یا سب سے پہلے امریکہ کے اصول پر سیاست کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے صنعتی شعبے میں نوکریاں یا روزگار کے مواقع جو امریکہ سے باہر منتقل ہو گئے تھے انھیں امریکہ واپس لانے پر زور دیا ہے۔

اپنی پہلی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے عامل یا کام کرنے والے شہریوں کے لیے ٹیکسوں میں بڑی چھوٹ دینے، کارپوریٹ یا بڑی کمپنیوں کے ٹیکس کی شرح کم کرنے، تجارت کے عدم توازن اور امریکی صنعت کو زندہ کرنے کے وعدے کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ جو بائیڈن: پہلا صدارتی مباحثہ کس کے نام رہا؟

موسیقار،آئی ٹی ماہر، سابقہ ایکٹر: ملیے امریکہ کے صدارتی امیدواروں سے

کملا، کشمیر اور ’مودی کے دوست‘ انڈین نژاد امریکیوں کے ووٹ پر کیسے اثر انداز ہوں گے؟

ان میں کچھ وعدے انھوں نے پورے کیے۔

گذشتہ چار برس میں انھوں نے کاروبار پر وفاقی قواعد و ضوابط کو ختم کیا، انکم ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس میں چھوٹ دینے کی قانون سازی کی اور مقامی صنعتوں کے لیے ترجیحی احکامات جاری کیے۔

امریکہ میں جنوری سنہ 2017 کے بعد سے صنعتی شعبے میں چار لاکھ 80 ہزار نوکریاں نکلیں، گو کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس شعبے میں ترقی کی شرح سست پڑ رہی ہے اور صدر ٹرمپ کی پالیسیاں نے اصل مسائل کے بارے میں کچھ نہیں کیا ہے۔

چین امریکہ تجارتی جنگ

صدر ٹرمپ نے امید دلائی ہے کہ معیشت کورونا وائرس کی وبا ختم ہوتے ہی بحال ہو جائے گی لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 پر رد عمل نے معیشت کو طویل المعیاد نقصان پہنچایا ہے۔

چین پر انحصار ختم کر کے امریکی صنعت کو تحفظ فراہم کرنا

صدر ٹرمپ نے گذشتہ انتخابی مہم میں اس بات پر زور دیا تھا کہ امریکہ کو اپنے معاشی مفادات پر توجہ دینی چاہیے لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ کہا تھا کہ ’امریکہ فرسٹ‘ کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ اکیلے یا امریکہ تنِ تنہا۔

عالمی تجارت میں صدر ٹرمپ نے چین کے بارے میں سخت موقف اختیار کیے رکھا اور مقامی صنعتی کو بیرونی مقابلے سے محفوظ رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی اور یہ ہی ان کی تجارتی پالیسی کے دو پہلو تھے۔

اپنی پہلی مدتِ اقتدار میں صدر ٹرمپ نے اپنی پوری توجہ اس بات پر مرکوز کیے رکھی کہ ان تمام تجارتی معاہدے جنھیں وہ امریکہ کے خلاف تصور کرتے ہیں ان پر نظر ثانی کی جائے جیسے کہ نیفٹا جو امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو کے درمیان تجارتی معاہدہ تھا۔ ان معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کیے جائیں یا ان کو یکسر ختم کر دیا جائے اور اس فہرست میں بین البحرلکاحل یا ’ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ‘ بھی شامل تھا۔

سنہ 2016 کی انتخابی مہم کے دوان انھوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ امریکہ کے تجارتی خسارے کو ختم کریں گے جو سنہ 2019 میں گذشتہ چھ برس میں پہلی مرتبہ کچھ کم ہوا مگر معاشی ماہرین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس سے معیشت میں بہتر کی نشاندہی ہوتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں سرحدی محصولات میں اضافہ کیا اور سالانہ پانچ سو ارب ڈالر کے قریب ہے اور اس سال دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے کے پہلے سال ان محصولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

اس سال اگست میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکی کمپنیوں کو ترغیب دینے لیے ٹیکسوں کی چھوٹ دیں گے تاکہ وہ چین سے اپنی فیکٹریاں امریکہ منتقل کریں اور امریکہ کا چین سے انحصار پر ختم ہو سکے۔

ہواوے

صدر ٹرمپ نے یورپی یونین سے درآمد کی جانے والے تجارتی مال پر بھی محصولات میں اضافہ کیا جن میں سٹیل اور فرانس میں بنائی جانے والے شراب شامل ہے۔ انھوں نے برازیل اور ارجنٹینا سے المونیم اور سٹیل کی برآمد پر محصولات بڑھائے اور کینیڈا سے آنے والے ایلمونیم پر دوبارہ ڈیوٹیاں لگا دیں۔

امریکہ فرسٹ اور امریکی خومختاری پر زور

تجارتی محاذ کی طرح صدر ٹرمپ نے خارجہ امور میں بھی امریکہ فرسٹ کی پالیسی اپنانے کا عزم کیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کے الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ امریکی خومختاری پر زور دیا اور دوسرے ملکوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے تحفظ اور خوشحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کا خود تعین کریں۔

عملاً اس کا کیا مطلب ہے؟

اس کا مطلب کثیرالملکی بین الاقوامی معاہدوں جیسا کہ پیرس کا ماحولیاتی معاہدہ شامل ہے اس سے پیچھے ہٹنا اور کچھ بین الاقوامی اداروں مثلاً عالمی ادارۂ صحت سے علیحدگی اختیار کرنا ہے۔

انھوں نے برس ہا برس سے کام کرنے والے بین الاقوامی اتحادوں پر بھی سوالات اٹھائے ہیں جیسا کہ شمالی بحیرہ اوقیانوس (نیٹو) کے اتحادی ممالک سے یہ کہتے رہے کہ وہ اس فوج اتحاد کے لیے اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کریں۔

حال ہی میں انھوں نے اس بات کو دہرایا کہ وہ بیرونی ممالک میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کریں گے۔ جو اس وقت وہی ہے جو ان کے اقتدار سنبھالنے کے وقت تھی خاص طور پر جرمنی اور افغانستان میں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے روس اور شمالی کوریا کی طرف ہاتھ بڑھا کر تاریخی طور پر امریکہ کے اتحادی ممالک سے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی ہے۔

خارجہ امور میں ان کی کامیابی حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے معاہدے طے کرانا ہے۔

دیوار

اپنی کامیابیوں میں وہ نام نہاد دولت اسلامیہ نامی تنظیم کے سربراہ ابو بکر بغدادی اور ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو بھی اپنی کامیابیوں میں شمار کرتے ہیں۔

امیگریشن

امیگریشن یا امریکہ منتقل ہونے والے افراد کی تعداد کو کم کرنے کا وعدہ ان کی سیاسی زندگی کی بنیاد کی طرح ہے۔

اب جب کہ وہ دوبارہ اقتدار کی دوڑ میں ہیں تو انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس دیوار کی تعمیر جاری رکھیں گے جس کو وہ اپنے چار سالہ اقتدار میں مکمل نہیں کر سکے۔ میکسیکو کی سرحد پر تعمیر کی جانے والی اس 722 میل طویل دیوار کے لیے جو پیسہ جمع کر پائیں ہیں وہ صرف 445 میل طویل دیوار تعمیر کرنے کے لیے کافی ہے۔

انھوں نے ویزا لاٹری اور امریکہ میں مقیم خاندانوں کے رشتہ داروں کو معیار پر پورا اترنے کی صورت میں ویزا جاری کرنے کے نظام جسے ’چین امیگریشن‘ بھی کہا جاتا ہے ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔

صدر ٹرمپ کی امیگریشن نظام میں اصلاحات کرنے کی کوششوں کو اس برس گرمیوں میں اس وقت دھچکہ لگا تھا جب سپریم کورٹ نے ’ڈیفرڈ ایکشن فار چالڈ ہڈ آروائل‘ یعنی جو بچے اپنے ماں کے ہمراہ امریکہ میں داخل ہوئے تھے اور ان کے پاس اس وقت سفری دستاویزات نہیں تھیں ان کے بارے میں تاخیر سے لیے جانے والے اقدام کو منسوخ کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے رد کر دیا تھا۔ اس نظام کے تحت ساڑھے چھ لاکھ افراد کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو بچپن میں بغیر کاغذات کے امریکہ پہنچے تھے۔

ادویات کی قمیتوں میں کمی اور سستے علاج کے قانون کو ختم کرنا

صدر ٹرمپ نے سنہ 2016 میں اپنی مہم کے دوران سابق صدر اوباما کی طرف سے ‘افورڈ ایبل کیئر ایکٹ’ کو منسوخ کرنے کی بات کی تھی۔

گو کہ صدر ٹرمپ اس قانون کو پوری طرح ختم نہیں کر پائے لیکن ان کی انتظامیہ نے اس کے کچھ حصوں کو ختم کردیا ہے جس میں انفرادی ذمہ داری بھی شامل ہے جس کے تحت لوگوں کو ہیلتھ انشورنس لینی پڑتی ہے یا ان کو ٹیکس جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے امریکہ میں ادویات کی قیمتوں میں کمی کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا اور اس سال جولائی میں کئی ایسے اقدامات اٹھائے جن سے سستی ادویات کی درآمد ممکن ہو سکی مگر کچھ مبصرین کا کہنا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔

انہوں نے سنہ 2017 میں افیون کے بحران کو قومی صحت کی ہنگامی صورت حال قرار دے دیا تھا اور ریاستوں کو وفاقی کی طرف سے ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی مالی مدد کا اعلان کیا تھا تاکہ وہ انسداد، علاج اور بحالی کے اقدامات پر خرچ کیے جا سکیں۔ انہوں نے افیون کو دوا کے طور پر تجویز کرنے پر بھی پابندی لگائی۔

ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ لاکھوں افراد کو علاج کی سہولت فراہمی کو یقینی بنانے والے افورڈ ایبل کیئر ایکٹ کے خلاف ان کے اقدامات سے افیون کے بحران سے نمٹنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

Oil pump

توانائی کے ذرائع میں اضافہ

جب سے انھوں نے اقتدار سنبھالا تھا صدر ٹرمپ نے سینکڑوں ایسے منصوبے ختم کر دیے جو کہ ماحولیات کو محفوظ بنانے کے لیے شروع کیے گئے تھے۔ ان میں بجلی بنانے والے کارخانوں اور گاڑیوں سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو کم سطح پر رکھنے اور وفاقی آبی گزرگاہوں کو محفوظ بنانے کے اقدامات شامل تھے۔ یہ وعدے ان کی گذشتہ انتخابی مہم میں بھی شامل تھے۔

انھوں نے پریس کے ماحولیاتی معاہدے سے بھی امریکہ کو نکال لیا تھا اور کہا تھا کہ یہ معاہدے امریکی مفادات کے خلاف اور صرف دوسرے ملکوں کے فائدہ میں ہے۔ اس معاہدے سے مکمل طور پر علیحدگی باضابطہ طور پر اکتوبر کے انتخابات کے بعد ہی ہو پائے گی۔

حال ہی میں ان کی انتظامیہ نے تیل اور گیس کی دریافت کے کام کی اجازت الاسکا کے آرٹک نیشل وائلڈ لائف رفیوج میں بھی دے دی ہے جو کئی دہائیوں سے قدرتی وسائل کی دریافت کے لیے بند تھا۔

پولیس کے نامناسب رویے کا پتا لگانے کے لیے اعداد و شمار جمع کرنا

صدر ٹرمپ ‘فرسٹ سٹیپ ایکٹ’ کو جرم اور انصاف کے نظام میں اصلاحات کی طرف ایک اہم قدم قرار دے رہے ہیں۔

سنہ 2018 میں دونوں جماعتوں کے اتفاق سے پیش کیا جانے والی قانونی مسودہ ایک اہم پیش رفت تھی جس کا مقصد وفاق کی سطح پر قانون میں اصلاح کرنا، ججوں کو سزا سناتے وقت زیادہ صوابدیدی اختیار دینا اور قیدیوں کی بحالی کے اقدامات کو مستحکم کرنا تھا۔

صدر ٹرمپ نے ’سیکنڈ سٹیپ ایکٹ‘ کا وعدہ کیا تھا جس سے سابق قیدیوں کو روزگار حاصل کرنے میں دشواریوں کو ختم کرنا شامل تھا لیکن اس بارے میں کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔

سنہ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ نے اپنے آپ کو قانون پر علمدرآمد یا بالادستی کا سب سے بڑا حامی اور داعی قرار دیا تھا اور وہ اپنے دورِ اقتدار میں اس پر کاربند بھی رہے۔ حال ہی میں قومی سطح پر نسل پرستی کےخلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران انھوں نے بھرپور طریقے سے پولیس کی حمایت جاری رکھی۔

گن نمبر چھ

David Weller y Jim Howells

اس سال جون میں صدر ٹرمپ نے بہت سے سرکاری حکمناموں پر دستخط کیے جو پولیس اصلاحات سے متعلق تھے۔ ان میں پولیس کے لیے وفاقی مالی معاونت میں اضافہ بھی شامل تھا تاکہ پولیس کے طریقہ کار کو بہتر کیا جا سکے اور ایسے پولیس اہلکاروں کے اعداد و شمار اکھٹے کیے جا سکیں جن کے خلاف نامناسب رویہ اختیار کرنے کی شکایات ہوں۔

صدر ٹرمپ نے یہ تو کہا کہ مشتبہ افراد کو قابو کرنے کے لیے ایسے متنازع طریقہ اختیار کرنے پر جس سے ان کی سانس رک جائے پابندی ہونی چاہیے لیکن ان پر پابندی لگانے کے لیے انھوں نے کچھ نہیں کیا۔

سیکنڈ ترمیم کا دفاع

امریکی ریاست ٹیکساس اور اوہائیو میں سنہ 2019 میں عوامی فائرنگ کے واقعات سے جب پورا ملک صدمے کا شکار تھا اس وقت صدر ٹرمپ نے اصلاحات کی بات کی تھی۔

ان اصلاحات میں اسلحہ خریدنے والوں کا پس منظر کی جانچ پڑتال کرنا اور ’ریڈ فلیگ لا‘ شامل تھے تاکہ معاشرے کے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے عناصر کی رسائی مہلک اسلحے تک محدود یا مشکل کی جا سکے۔

ابتدائی جوش خروش دکھانے کے بعد صدر ٹرمپ نے ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس کے برعکس نے امریکی آئین کی دوسری ترمیم کی حمایت جاری رکھی جو امریکی شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا آزادی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ملک کی طاقت ور اور با اثر ’گن لابی‘ اور نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کی بھی حمایت کرتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp