کیا ہمارے بچے بھی ان آقاؤں کے بچوں کی گاڑیاں چومیں گے؟


شروع شروع میں جب آبادی بڑھنا شروع ہوئی، تو ریاست اور ریاستی ڈھانچے کی ضرورت محسوس ہوئی، جو روٹی کپڑا اور مکان جیسی ضروریات کے لیے ہونے والی قتل و غارت کو روک سکے۔ ورنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق جس کا دل کرتا، چار بندوں کا گروپ بناتا اور جتھے کی صورت میں اک آدمی کے گھر، مکان، غلہ، حتیٰ کہ ان کی عورتوں پر بھی قبضہ کر لیتا۔ ریاستی قوانین بنائے گئے جو طاقتور کو کمزوروں پر ظلم کرنے سے باز رکھ سکیں۔ قوانین تو بن گئے مگر ہر ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ پولیس فوج اور ان جیسے قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے بنا کر، اپنی طرف سے ان کو غلہ یا تنخواہیں دے سکے، تو اس کا حل یوں نکالا گیا کہ ان کو مافوق الفطرت چیزوں سے ڈرایا جائے اور اس کے لیے ریاست کے کرتا دھرتاؤں نے مذہب کا سہارا لیا اور مذہبی پیشواؤں سے گٹھ جوڑ کر لیا۔ مذہبی پیشوا اپنے ہم مذہبی معتقدین کو بادشاہ کے متعلق جھوٹی سچی حکایات اور کہانیاں سنا کر اس کی بات ماننے پر راضی کیا کرتے تھے۔ اس کرہء ارض کے کسی بھی خطے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، بادشاہ کو خدا کا اوتار بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ ہمارے یہاں بھی بادشاہ کو ظل الہی یعنی خدا کا سایہ مانا جاتا تھا۔

ریاست اور مذہب کے اس گٹھ جوڑ نے کئی صدیوں تک عوام پر راج کیا۔ مغرب میں سائنس کی ترقی نے اس مناپلی کو چیلنج کیا اور عوام بادشاہ کے خدائی تصور سے باہر نکلی۔ حالاں کہ اس مناپلی کو قائم رکھنے کے لیے مذہبی ہیڈ کوارٹرز کلیسا نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ چھاپے خانے جلا دیے گئے۔ کتاب لکھنے اور چھاپنے پر پھانسی کی سزائیں دی گئیں۔ سائنسی ایجادات کو حرام قرار دیا جاتا رہا۔ صرف مغرب کیا ہمارے یہاں بھی جب ٹریکٹر کھیتوں میں داخل ہوئے، تو لوگوں نے ڈنڈے اٹھا لیے کہ یہ ہماری زمینوں کو بنجر کرنے کی ودیشی سازش ہے۔ لاؤڈ سپیکر حرام تھا، تو ریلوے لائن کی پٹڑی بچھانے پر ہمارے بزرگوں نے فرمایا کہ گورے ہماری زمینوں کو لوہے کے ان پٹوں سے باندھ کر اپنے ملک گھسیٹ کر لے جائیں گے۔ خیر مغرب نے تو جلد ہی اس مناپلی کو ختم کر دیا، مگر ہمارے یہاں آج بھی مذہب اور سائنس کے درمیان جنگ جاری ہے۔ یقین نہیں آتا تو گوگل کر کے ہمارے علما کی طرف سے موٹر سائیکل، مسلمان کرنے کے طریقوں کی ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں۔ بلکہ ہمارے یہاں تو کہیں کہیں یہ مذہبی طبقہ سرکار سے بھی زیادہ طاقتور نظر آتا ہے۔

اس مناپلی کے ختم ہوتے ہی جاگیر داری نظام نے زور پکڑا۔ چوں کہ خوراک زندگی کا اک بنیادی جزو ہے، اور انسان اپنی غذا کا بڑا حصہ زمین سے حاصل کرتا ہے۔ اس لیے بڑی بڑی جاگیروں اور رقبوں کے مالک، عوام کی اس ضرورت کے بدلے میں ان کو قابو میں کرتے آئے ہیں۔ مٹھی بھر انگریزوں نے انہی جاگیر داروں کی مدد سے ہندوستان پر صدیوں حکومت کی۔ انگریز اپنے لیے مفید عناصر کو مضبوط کرنے کے لیے جاگیریں عطا کیا کرتے تھے۔ آج کے پاکستان میں سرکار چلانے والے بڑے بڑے خاندان انہی انگریزوں کی عطا کردہ جاگیروں کے بل بوتے پر یہاں تک پہنچے ہیں۔ ان کے بزرگوں نے انگریز دور میں اپنے ہی مقامی لوگوں کی مخبری کر کے، ان کی جانیں لے کر انگریز سرکار کے خلاف ہونے والی بغاوت کو کچلنے جیسے کارنامہ ہائے سر انجام دے کر یہ جاگیریں حاصل کیں۔ چوں کہ انگریز ہمارے حاکم تھے بادشاہ تھے ہماری زندگیوں کے فیصلے ان کے فیصلے کے وقت مزاج پر انحصار کرتے تھے، اس لیے ہم ان کا برہم مزاج برداشت نہیں کر سکتے تھے، اور موڈ اچھا کرنے کے لیے ہم نے خوشامد کا سہارا لیا۔ اک تو ویسے بھی عوام کی گوروں تک رسائی بھی بہت مشکل ہوا کرتی تھی، دوسرا عملی طور ان کے احکام پر عمل در آمد بھی یہی جاگیردار کراتے تھے۔ اس کے لیے ہم نے مقامی جاگیرداروں کو اپنا آقا تسلیم کیا ہوا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت اسی غلامانہ رویوں کی بدولت یہ جاگیر دار اسمبلیوں تک پہنچے اور آج تک ہمارے حاکم چلے آ رہے ہیں۔

سائنس نے مزید ترقی کی انسانوں کا معیار زندگی اور ترجیحات بدلیں اور جاگیرداری کی جگہ لبرل سرمایہ داری نے لے لی۔ ٹی وی آنے کے بعد کارپوریٹ سیکٹر نے انسان کو آئیڈیلزم کا عادی بنایا۔ کارپوریٹ سیکٹر کی مختلف پراڈکٹس کو اس انداز سے پیش کیا گیا کہ انسان ضروریات کے ساتھ ساتھ ان پراڈکٹس کے حصول جیسی خواہشات کا عادی بن گیا۔ پہلے کارپوریٹ سیکٹر نے تشہیر بازی کر کے عوام کا ذہن بنایا، جیسے مثال کے طور پر ہماری ذہنی سازی کی گئی کہ گورا رنگ حسن کا بنیادی عنصر ہے، پھر رنگ گورا کرنے کی پراڈکٹس متعارف کرائیں گئیں۔

آج میک اپ انڈسٹری دنیا کی پہلی دس کمائی کرنے والی انڈسٹری میں سے ایک ہے۔ اس کارپوریٹ ورلڈ نے آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لے لیا ہے۔ منافع کمانے کی اس دوڑ میں پہلے پہل، انہوں نے اپنے طور پر جیتنے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر کسی پراڈکٹ کی رسد و طلب میں فرق سے، ان کا منافع کم ہوا تو انہوں نے اپنی ہی فرم کے پانچ ہزار ملازمین کو نوکری سے برخواست کر دیا کہ اک تو ان کی تنخواہیں منافع میں شامل ہو جائیں گی۔ دوسرا ادارے سے مفت پراڈکٹ اور تنخواہ حاصل نہ کر سکنے کے باعث، مارکیٹ میں نئے پانچ ہزار افراد کا اضافہ ہو گا۔

پھر اس کارپوریٹ ورلڈ نے آہستہ آہستہ سرکار کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ پہلے پہل الیکشن لڑنے کے طریقوں کو ٹارگٹ کر کے اشتہار بازی کو اس کا جزو بنایا گیا۔ پھر پینا فلیکس، پمفلٹ، جھنڈے سٹیکر انتخابی نشانات کی نقل جیسی پراڈکٹس اور پارٹی ترانوں جیسے لوازمات کی مدد سے اس کو گلیمرائزڈ کر کے، اس سارے پروسیس کو مہنگا کر کے، غریب اور عام آدمی کی پہنچ سے دور کر دیا۔ پھر پارٹی فنڈ کے نام پر پیسہ دے کر پارٹی سربراہان اور ان کے ذریعے دیگر سیاستدانوں کو خریدا گیا۔

آج دنیا بھر میں حکومتوں کے پیچھے انہی کارپوریٹ اداروں کا ہاتھ ہے۔ یہ اپنے منافع کو مد نظر رکھ کر پالیسیاں بناتے ہیں۔ اپنی طاقت کو دوام بخشنے کے لیے قانون سازی کرواتے ہیں۔ مختصرا عام آدمی کے پہناوے سے لے کر رات کے کھانے تک کا فیصلہ انہی لبرل سرمایہ داری کے ماسٹر مائنڈ کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے دیہاتوں میں جاگیرداری اور شہروں میں نیو لبرل سرمایہ داری نظام چل رہا ہے۔

ہماری اشرافیہ جس میں سیاستدان، بیورو کریٹس، فوجی افسر اور تاجر شامل ہیں، انہوں نے آپس میں ان کہا، ان دیکھا اور من چاہا ایکا کر رکھا ہے۔ اس اشرافیہ کلب کی ممبر شپ کو عام آدمی کی پہنچ سے اتنا دور کر دیا ہے کہ وہاں تک کوئی پہنچ نہیں پاتا۔ کوئی اگر مین سٹریم تک پہنچ بھی جائے تو اسے اک مذاق بنا کے رکھ دیا جاتا ہے۔ قندیل بلوچ اور جمشید دستی اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ اک کو جان سے جانا پڑا دوسرے کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔

ہماری اشرافیہ جاگیرداری اور نیو لبرل سرمایہ داری کی کٹھ پتلی ہے تو ہماری عوام ذہنی و فکری غربت کا شکار غلام رعایا۔ یہ غلامی ہمارے خون میں دوڑتی ہے۔ ہم جب تک اس سے جان نہیں چھڑا لیتے، ہم اسی طرح ذلیل خوار ہوتے رہیں گے۔ مطلب ہم لوگوں کو فرق ہی نہیں پڑتا کہ ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے والے کیسے لوگ ہیں۔ وہ کتنا بے ایمان ہیں۔ وہ کتنے عیاش ہیں، جن پیسوں سے سینکڑوں غریبوں کی زندگیاں بدل سکتی ہیں، وہ اتنے پیسوں کا تو صرف گاڑیوں کا فیول اڑا دیتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے وزیر اعظم ہاؤس کا اک ماہ کا صرف کچن کا خرچ کتنا ہے؟ صدر صاحب جن کی شکل پریڈ اور ایوارڈ دینے کی تقریب پر ہی دکھائی دیتی ہے، ان کے لان کے لیے کتنے روپے لگ چکے ہیں؟ وزیر اعلیٰ کے پاس کتنا صواب دیدی فنڈ ہوتا ہے؟ ایسا فنڈ جس کا کوئی حساب کتاب نہیں پوچھا جا سکتا۔

ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے ہر سال اربوں روپے یہ اپنی عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں اور ہم دھمال ڈالتے ہوئے، ان کی گاڑیاں چومتے ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں کون سی اک قائدانہ صلاحیت ہے، جس کی بنا پر تاریخ ان کو اچھے الفاظ میں یاد رکھ سکے؟ کون سا ایسا کارنامہ، جس کی بنا ہر ہم ان کی گاڑیاں چومیں؟ ان کو کھانسی بھی آئے تو علاج کے لیے لندن بھاگتے ہیں اور یہاں عوام بڑے بڑے آپریشن کے لیے بھی چندے کے پیسوں کی منتظر ہوتے ہیں۔ ان کے بچے لندن امریکا کی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں اور ہمارے بچوں کو ”امریکا کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے“ کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔

شریف خاندان نے فلیٹ کے معاملے میں ٹی وی پر بیٹھ کر اک ہزار اک جھوٹ بولے ہیں۔ ان کے بچے ٹین ایج میں کروڑ پتی بن گئے۔ ان کے رہن سہن اور معیار زندگی میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، مگر ان کا ٹیکس ریکارڈ دیکھیں تو اپنے بچوں کو دی جانے والی پاکٹ منی سے کئی ہزار گنا کم ہے، لیکن انہوں بنے کمال مہارت سے کرپشن کیس کو اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا نتیجہ ثابت کر دکھایا ہے۔

اک فلاحی ریاست کا محور مرکز ریاست کا شہری، یعنی فرد ہوتا ہے۔ سارا ریاستی ڈھانچا سرکار عہدے مل کر اسی فرد کے حقوق اور اس کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کام کرتے ہیں اور یہاں ریاست کے شہری خون پسینے کی کمائی اور اپنے نام پر بیرونی امداد لے کر سرکار اور سرکاری عہدیداروں کو عیاشی کرا رہے ہیں۔ یہاں روز وی آئی پی پروٹوکول کے نام پر عام فرد کی عزت نفس کچلی جاتی ہے۔ یہاں آدھی آبادی کے پاس رہنے کو گھر نہیں اور بڑے صاحب کروڑوں روپے کی کسٹمرائزڈ فیکٹری میڈ اشیا آرائش کے نام خرید ڈالتے ہیں۔ یہ رویہ صرف شریف خاندان پر ہی موقوف نہیں، پچھلی دور حکومت میں گیلانی صاحب کے سوٹ اور حنا ربانی کے کروڑوں روپے کے پرس اور ہار، غریبوں کے نام پر بنائی جانے والی پیپلز پارٹی کی سوچ کے عکاس ہیں۔

گزشتہ کے پی حکومت کے دور میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی اقربا پروری اور مائننگ بینکنگ کرپشن جیسے کارناموں پر پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی شکایات اور مہیا کیے جانے والے ثبوتوں پر، خان صاحب کی خاموشی کے با وجود عمران خان سے کچھ امید تھی، مگر حکومت ملنے کے بعد یہ امیدیں بھی توڑ دی ہیں۔ مہنگائی کا طوفان ٹیکسوں کی بھرمار، بیرونی امداد، قرضوں کے با وجود خزانہ خالی ہے اور ملک میں کوئی قبل ذکر میگا پراجیکٹ بھی نہیں چل رہے، تو پھر یہ پیسہ جا کہاں رہا ہے؟ کسی کو علم نہیں۔

اتنا دور کیوں جانا، اپنے مقامی ایم پی اے اور ایم این اے کی مثال لے لیں۔ ان کا رہن سہن اور عوام سے رویہ سب کے سامنے ہے۔ یہاں کسی میں ہمت نہیں کہ ان پر سوال اٹھا سکے۔ ہم سنا کرتے تھے کہ مسجد ایسی جگہ ہے، جہاں سبھی محمود و ایاز اک سے ہو جاتے ہیں، مگر یہ بڑے لوگ عمرہ بھی کرتے ہیں تو سیکیورٹی اہلکاروں کے گھیرے میں، اور مقامی ممبر جنازہ پڑھنے آئیں تو ہمارے پیاروں کی لاشوں تک کو ان کے آنے تک انتظار کرایا جاتا ہے۔

عوام سارا سال ان کو گالیاں دے کر بھڑاس نکالتے ہیں اور نوجوان نسل موبائل پر سر جھکا کر کمنٹس لائیک کر کے اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو جاتی ہے۔ جب عمل کا وقت آتا ہے تو ہم گھروں میں دبکے رہتے ہیں۔ اگر باہر نکلتے بھی ہیں، تو سزا یافتہ مجرموں کی گاڑیوں کے آگے دھمال ڈالنے اور فرط جذبات سے ان کی گاڑیاں چومنے۔ خیر اس میں ہمارا کیا قصور غلامی تو ہمارے خون میں شامل ہے۔ ہمارے باپ دادا نے اس نظام کے خلاف بغاوت کی ہوتی تو شاید آج ہم ایسے غلام ذہنیت کے مالک نہ ہوتے۔ آج ہم بھی بغاوت نہیں کر رہے تو امید واثق ہے، ہمارے بچے بھی ایسے ان آقاؤں کے بچوں کی گاڑیاں چومیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).