ٹائیگر فورس: وزیراعظم کے رضاکاروں کی ٹیم مہنگائی پر کیسے قابو پائے گی؟


مہنگائی
سبزی، پھل اور گوشت خریدنے بازار جانا ہوا تو وہاں آئے ہر شخص کی زبان پر صرف دو جملے ہی سننے کو ملے۔ پہلا جملہ گاہک سے کہ ’مہنگائی نے تو کمر توڑ دی ہے‘ اور دوسرا دکاندار کے منھ سے کہ ’پیچھے سے ہمیں مال ہی مہنگا مل رہا ہے تو ہم کیسے سستا بیچیں۔‘

ملک بھر میں روز مرہ اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اقدامات تو جاری ہیں تاہم بظاہر یہ صرف جرمانوں اور ایک دن کی تھانے کی سیر تک محدود نظر آتے ہیں کیونکہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں کم نہیں ہو رہیں۔

بی بی سی کے عزیزاللہ خان کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاور میں گذشتہ روز درجہ اوّل کا آلو 120 روپے، درمیانے درجے کا 80 روپے جبکہ کم معیار کا آلو 40 روپے فی کلو فروخت ہوا ہے۔ اسی طرح ٹماٹر 100 روپے فی کلو اور پیاز 70 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔

پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے چند روز قبل ہی حیات آباد کی مارکیٹ میں ایک دودھ دہی کی دکان پر چھاپہ مارا اور دکاندار کو دودھ 130 روپے لیٹر اور دہی 140 روپے کلو فروخت کرنے پر گرفتار کر کے نہ صرف دکان کو سیل کر دیا بلکہ جرمانہ بھی کیا۔

لیکن اگلے ہی روز دکاندار جرمانہ ادا کر کے رہا ہو گیا اور پھر دودھ 130 روپے لیٹر فروخت ہونے لگا۔

اس بارے میں انتظامیہ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ان کی بھی ’کچھ مجبوریاں‘ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان میں مہنگائی کی وجہ ’کارٹلائزیشن‘ ہے؟

پاکستان میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان میں غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں؟

دکان کے مالک کے مطابق انھیں ڈیری فارم سے دودھ 115 روپے فی لیٹر ملتا ہے جبکہ سرکاری نرخ 90 روپے مقرر ہے، تو وہ اسے کیسے 90 روپے لیٹر میں فروخت کر سکتے ہیں۔

یہ معاملہ صرف دودھ دہی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی کھانے پینے کی اشیا جیسے پھل، سبزیاں، آٹا، چینی، دالیں۔۔۔ سب کا یہی حال ہے۔

ٹماٹر

وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے ایک حالیہ پیغام میں اعلان کیا کہ ’آئندہ سنیچر کو میں کنونشن سینٹر میں اپنی ٹائیگر فورس سے ملوں گا۔ تب تک ہمارے رضاکار اپنے قرب و جوار میں باقاعدگی سے دال، آٹا، چینی اور گھی کی قیمتیں معلوم کریں اور انھیں ٹائیگر فورس کے پورٹل پر ڈالیں۔ ہفتے کو منعقدہ نشست میں ہم ان پر تبادلہ خیال کریں گے۔‘

اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک اور ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ حکومت اشیائے خور و نوش سستی کرنے کے لیے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے گی۔ ’ہم پہلے ہی مہنگائی کے عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے تعین کر رہے ہیں کہ آیا رسد میں واقعی کمی ہے یا مافیا کی جانب سے ذخیرہ اندوزی و سمگلنگ وغیرہ اس کا سبب ہیں۔‘

وزیر اعظم کے اس پیغام کے بعد چند حلقوں کی جانب سے یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ اب ملک کا ہر نظام چلانے کے لیے ٹائیگر فورس کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں جبکہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

ٹائیگر فورس اور پرائس کنٹرول

اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کا تعین اور ان پر قابو پانا ضلعی انتظامیہ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ پنجاب میں اس کام کے لیے پرائس کنٹرول کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جس میں شامل ضلعی انتظامیہ کے نمائندوں یعنی مجسٹریٹ کا کام مہنگے داموں فروخت ہونے والی اشیا پر نظر رکھنا اور فروخت کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنا ہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کی ٹائیگر فورس کے بارے میں حالیہ پیغام پر بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹائیگر فورس جیسی ٹاسک فورس بنانا وزیر اعظم کی صوابدید ضرور ہے لیکن ٹائیگر فورس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

اس بارے میں ماہر معاشیات ڈاکٹر قیص اسلم کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے وزیر اعظم کی جانب سے ایسی ہدایات سے معاملات مزید خراب ہو سکتے ہیں اور ٹائیگر فورس کے ممبران اور دکانداروں کے درمیان تصادم بھی ممکن ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ’ قیمتوں پر قابو پانے کے لیے بہتر ہے کہ بلدیاتی حکومت کے نظام کو بحال کیا جائے۔ جب پہلے سے ہی نظام موجود ہے تو اسے بہتر بنانے کے بجائے ہم نئی طرز کی فورسز کیوں تشکیل دے رہے ہیں؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے اقدامات سے حکومت اپنی ناکامیوں اور بد انتظامیوں کا اعتراف خود کر رہی ہے۔‘

دوسری جانب آل پاکستان ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری نعیم میر نے بی بی سی سے کو بتایا کہ ٹائیگر فورس کا قیام اور اس کو دیے جانے والے اختیارات صرف ایک سیاسی عمل ہے۔

’ہم نے دیکھا کہ کورونا کے دنوں میں بھی اس فورس کے لوگ جا کر دکانداروں کو ہدایات دیتے تھے جبکہ یہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔‘

ٹائیگر فورس

انھوں نے مزید کہا کہ اس فورس کی کسی قسم کی تربیت نہیں کی گئی ہے نہ ہی انھیں علم ہے کہ انھیں کرنا کیا ہے۔ اس مرتبہ اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو تاجروں کی طرف سے سخت مزاحمت ہو گی اور اگر ہمیں مشکل ہوئی تو تصادم بھی ہو گا۔

دوسری جانب لاہور کے ڈپٹی کمشنر مدثر ریاض نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹائیگر فورس مدد گار ثابت ہو سکتی ہے تاہم ان کے اختیارات صرف اتنے ہیں کہ وہ اپنے علاقے اور آس پاس کی مارکیٹوں پر ایک عام شہری کی طرح نظر رکھیں اور اگر انھیں کہیں کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے جو کہ زیادہ قیمت پر فروخت کی جا رہی ہے تو وہ ضلعی انتظامیہ کو اطلاع دیں جس پر حکام خود کارروائی کریں گے۔

اشیائِے خورد و نوش کے دام کون مقرر کرتا ہے؟

حکومت کی جانب سے بار بار یہ بات کی جاتی ہے کہ ہم کسی کو بھی مقرر کی گئی قیمت سے زیادہ داموں پر کوئی چیز فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار ان بڑھتی ہوئی قیمتوں کا اصل ذمہ دار کون ہے۔

معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ایک آزاد مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں کا تعین ان کی طلب اور رسد کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اگر کسی چیز کی طلب، رسد سے زیادہ ہے تو اس کی قیمت بڑھ جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ مارکیٹ سے منسلک قوتیں خود ہی اس کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔

کنزیومر ایسوسی ایسشن کے چیئرمین، کوکب اقبال، کے مطابق پاکستان میں کوئی ایسا طریقۂ کار موجود نہیں ہے جس کے تحت اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والی کوئی بھی چیز، خصوصاً اشیاء خورد و نوش، میں کس شخص کو کتنا نفع یا نقصان ہو رہا ہے۔

ٹائیگر فورس

ڈاکٹر قیص اسلم کے مطابق موجودہ پرائس کنٹرول سسٹم کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُس ’مڈل مین‘ یعنی آڑھتی سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی ہے جو کھیت سے بازار تک لائی جانے والی اشیا کی قیمتوں میں جوڑ توڑ کرتے ہیں۔

مڈل مین کا کردار ایسے شخص کا ہوتا ہے جس کے پاس سرمایہ ہوتا ہے اور وہ اشیا تھوک بازار تک پہنچنے سے قبل ہی مہنگا کر دیتے ہیں۔ جبکہ کسان سے وہ کم داموں میں چیزیں خریدتے ہیں۔‘

ہول سیل مارکیٹ یا منڈیوں میں اشیا آنے کے بعد قیمتیں طلب اور رسد کے مطابق متعین کی جاتی ہیں۔ مڈل مین کا منافع نکل جانے کے بعد مارکیٹ میں شروع ہی سے قیمتیں زیادہ طے کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے بھی ضلعی انتظامیہ کے لیے اشیا کی قیمتیں سستی رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ڈی سی لاہور مدثر اقبال اس بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ مڈل مین کا کردار مارکیٹ سے ختم کرنا مشکل ہے۔ ’اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ منڈی اور مارکیٹ آنے والے اشیا کی قیمتوں کو کنٹرول کریں۔ جبکہ اشیا خورونوش کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے ہم ہر پندرہ دن یا مہینے بعد پرائس کنٹرول کمیٹی کا اجلاس منعقد کرتے ہیں جس میں حکومتی نمائندے، ضلعی انتظامیہ کے لوگوں سمیت مارکیٹ کے تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوتے ہیں جو مل کر قیمتوں کا تعین کرتے ہیں جس کے بعد ہی ریٹ لسٹ نکالی جاتی ہے۔

دوسری جانب انتظامیہ کے اس موقف پر آل پاکستان ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے سکریٹری نعیم میر کا دعویٰ ہے کہ قیمتوں کے تعین کے لیے اجلاس تین تین ماہ تک نہیں بلائے جاتے اور اس بد انتظامی کی وجہ سے بھی اشیا کی قیمتوں کا صحیح تعین نہیں کیا جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp