کچھ ذکر قائد ملت لیاقت علی خان کا


وزارت عظمی کی چمک دمک میرے لیے بے معنی ہے، اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ میں بطور چپڑاسی پاکستان کی بہتر خدمت کر سکتا ہوں، تو بخدا میں اس سے انکار نہیں کروں گا۔۔۔ میرے پاس نہ روپیہ ہے اور نہ دولت، صرف ایک جان ہے جو قومی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہے، میں یقین دلاتا ہوں کہ جب کبھی بھی پاکستان کے لیے خون دینے کا وقت آیا تو میرا خون بھی عوام کے خون میں شامل ہوگا، یہ الفاظ ہیں، پاکستان کے اس پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی کراچی میں کی گئی دو تقاریر سے، جن کو 16 اکتوبر 1951 ایک سنگ دل قاتل نے لیاقت باغ راولپنڈی میں گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا۔

قوم و ملت کے یہ عظیم غمخوار تقریر کرنے کے لئے دل میں وطن کی محبت کا جذبہ لئے، امن و سکون کے ساتھ، لاؤڈ اسپیکر کی طرف سامعین کو مخاطب کرنے کے لیے بڑھے۔ ابھی صرف یہ الفاظ کہے تھے برادران ملت، کہ دو گولیوں کے یکے بعد دیگرے چلنے کی آواز نے فضا میں خوفناک انتشار پیدا کر دیا، آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے، نہایت بلند آواز میں کلمہ طیبہ پڑھا اور دھیمی آواز میں فرمایا، خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان ایک محب وطن پاکستانی اور مسلمان تھے۔

وہ حب الوطنی کے جذبات سے لبریز اور جمہوریت کے اسلامی تخیل کے دلدادہ تھے۔ اپنے ساتھیوں سے زیادہ دور اندیش تھے۔ ان کی وسعت نظر، ان کا بے لاگ فیصلہ اور ان کی وہ پر سکون اور اطمینان بخش طبیعت، جس کی مدد سے عدیم المثال ہمت کے ساتھ یکے بعد دیگرے دشواریوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ جو دوستوں کے لئے باعث تقویت اور دشمنوں کے لیے مایوسی تھی۔ اپنے اردگرد سیاسی طوفان کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ ہوئی۔ وہ نہ تو ناکامیوں سے ہراساں ہوتے تھے اور نہ کامیابیوں سے ان کی معتدل مزاجی میں فرق آتا تھا۔

بانی پاکستان قائداعظم کے وفادار نائب کی حیثیت سے انہوں نے اس دشوار جدوجہد میں نہایت جرات مندی سے اپنا فرض سر انجام دیا۔ جس نے ہماری قوم کو آزاد اور جمہوریت پسند قوموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی حیثیت سے مرحوم نے ہماری قوم کی مخفی خواہشات اور صلاحیتوں میں ربط وضبط پیدا کیا۔ بہت کم قوموں اور مملکتوں کو اس طرح کی افراتفری اور ابتری کا سامنا کرنا پڑا ہو گا جس سے 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت ہمیں واسطہ پڑا اور بہت کم قومیں اس سے سرخرو ہو کر نکلی ہوں گی۔

لیاقت علی خان 1895 کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ کچھ عرصہ علی گڑھ میں تعلیم پائی۔ پھر الہ آباد سے بی اے کی ڈگری اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔ بعد ازاں آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1922 میں بیرسٹری کی سند بھی حاصل کی۔ اس دوران سیاسی شعور اس درجہ پیدا ہو گیا تھا، کہ آپ نے لندن میں قیام کے دوران ہی سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا اور انڈین مجلس لندن کے رکن منتخب ہوئے، پھر سیکرٹری منتخب ہوئے۔

1922 میں لیاقت علی خان وطن واپس ہوئے۔ آپ نے کرنال کی بجائے مظفر نگر میں سکونت اختیار کی۔ 1923 میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1924 کے مسلم لیگ کے پندرہویں سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور میں پہلی مرتبہ شرکت فرمائی۔ آزاد امیدوار کی حیثیت سے مجلس قانون ساز کے لیے صوبہ یو پی کے انتخابات میں حصہ لیا اور 1926 میں یوپی اسمبلی کے ممبر بنے۔ اس میں ڈیموکریٹک پارٹی بنائی اور چودہ سال تک یوپی اسمبلی کے ڈپٹی لیڈر کی حیثیت سے سیاسی زندگی گزاری اور مسلمانان یوپی کی بھرپور خدمت کی۔

اس دوران سائمن کمیشن کا بائیکاٹ اور عدم اعتماد کا ووٹ یو پی اسمبلی میں آپ نے پیش کیا۔ آپ کو تعلیم سے بے حد دلچسپی تھی۔ خود اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ آگرہ یونیورسٹی اور علی گڑھ یونیورسٹی کے امتحانات کے بیرونی ممتحن کے بھی فرائض انجام دیے۔ اینگلو عریبک کالج دہلی کے سات سال تک اعزازی سیکرٹری رہے۔ 1933 میں آپ نے دوسری شادی محترمہ رعنا لیاقت علی خان سے کی۔ 1934 میں آپ لندن تشریف لے گئے۔ اپریل 1934 میں آپ کی قائداعظم سے ملاقاتیں ہوئیں۔

آپ نے قائد اعظم کو ہندوستان واپس آ کر قوم کی خدمت کے لیے تیار کیا۔ قائداعظم آپ کے جذبہ قومی خدمت اور علامہ اقبال کے اصرار پر وطن تشریف لائے۔ مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنانے کا فیصلہ ہوا اور حضرت قائداعظم مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کا پارلیمانی سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ 1940 میں بریلی میں مرکزی اسمبلی کی نشست خالی ہوئی تو آپ نے قائداعظم کے حکم پر وہاں کا الیکشن لڑا اور اکثریت کے ساتھ منتخب ہوئے۔

انہوں نے مرکزی اسمبلی میں ڈپٹی لیڈر کے فرائض بھی انجام دیے۔ 1945 میں وہ انتخابات جو قیام پاکستان کے نام پر لڑے گئے، لیاقت علی خان مسلم لیگ کی طرف سے حلقہ میرٹھ سے مرکزی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ ان کے مقابلے میں نہایت ہی مقبول سیاسی کارکن محمد احمد کاظمی کو کانگرس نے اپنا امیدوار نامزد کیا۔ یہ حلقہ مشہور کانگرسی عالم دین مولانا حسین احمد مدنی کے عقیدت مندوں کا تھا۔ مولانا حسین احمد مدنی اس حلقے کے ایک ایک گاؤں میں گئے اور ایک ایک ووٹر سے مل کر اپنے مذہبی اثر و رسوخ کو سیکولر کانگریس کے سیاسی مقاصد کے حق میں استعمال کراتے رہے اور مسلم لیگ کی تائید کرنے والوں پر بے دھڑک کفر کا فتویٰ عائد کرتے رہے۔

مولانا کے علاوہ سردار پٹیل۔ پنڈٹ نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی اس حلقے کا دورہ کیا اور نامور سرمایہ داروں ٹاٹا اور برلا کی تمام دولت صرف اسی ایک نشست کے لیے پانی کی طرح بہائی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس پورے حلقے میں مسلم لیگ کے خلاف ایک شدید سیاسی تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان چونکہ مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل تھے، لہذا کانگرس کا خیال تھا کہ اگر وہ مسلم لیگ کے مرکزی سیکرٹری جنرل کو ان انتخابات میں شکست دینے میں کامیاب ہو گئی تو اسے پوری مسلم لیگ کی شکست قرار دینے کا موقع مل جائے گا اور یہ قیام پاکستان کے خلاف ایک موثر پروپوگنڈا ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکے گا۔

چنانچہ اس نازک صورت حال پر قابو پانے کے لیے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء نے اس حلقے میں جان پر کھیل کر مولانا حسین احمد مدنی اور دیگر کانگریسی لیڈروں کے اثر کو زائل کیا۔ جمعیت علمائے ہند نے ان طلبہ کے لیے بے شمار مشکلات پیدا کیں، مگر بے سود، قائداعظم کے ان دیوانوں نے چند دنوں میں ہی اس حلقہ انتخاب کی فضا کو اس نعرہ مستانہ سے سازگار بنا دیا کہ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ پولنگ ختم ہوئی تو نوابزادہ لیاقت علی خان نے 4530 ووٹ حاصل کر کے کامیابی کا جھنڈا لہرا دیا جبکہ مولانا حسین احمد مدنی کے امیدوار کو صرف 2,723 ووٹ ملے۔

اس کامیابی کی خوشی میں 11 نومبر 1945 کو پورے ہندوستان میں مسلم لیگ نے یوم فتح منایا۔ کانگریس نے اس الیکشن پر چالیس لاکھ روپے خرچ کیے مگر مولانا حسین احمد مدنی کی کرامت کی بدولت شکست سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ 23 مارچ 1940 کو قرارداد لاہور منظور ہونے کے بعد قیام پاکستان کی تحریک نے زور پکڑا۔ لیاقت علی خان چونکہ مسلم لیگ کے سیکرٹری تھے، اس لیے حضرت قائداعظم کے بعد سب سے زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ آپ پر ہی تھا۔

آپ نے اپنی پوری توانائی اور قوت ارادی کے ساتھ ان ذمہ داریوں کو نبھایا۔ ہر تین سال بعد پارلیمانی سیکرٹری کے انتخابات ہوتے رہے۔ ہر دفعہ حضرت قائد اعظم نے آپ کو سیکرٹری مقرر کیا۔ یہاں تک کہ 1947 میں آپ کو اپنا دست راست قرار دے دیا۔ تقسیم ملک کے سلسلے میں حکومت وقت اور کانگریسی ارباب حل و عقد کے ساتھ جتنے بھی سیاسی مذاکرات ہوئے ان میں وہ قائداعظم کے دست راست بن کے ان کے ساتھ برابر شریک رہے۔ چنانچہ ایک موقع پر خود قائد اعظم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ، لیاقت علی خان میرے دست راست ہیں، انہوں نے دن رات کام کیا ہے اور ملک و قوم کی خدمت کی ہے، کسی شخص کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ انہوں نے کس قدر بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے، میری دعا ہے کہ ان کی عمر دراز ہو۔

1946 میں برطانوی وزیروں اور ہندوستان کی مختلف جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی تو قائد اعظم کے ہمراہ آپ انگلستان تشریف لے گئے۔ پھر اسی سال وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن مقرر ہوئے۔ 1946 میں جب ہندوستان کی عارضی حکومت قائم ہوئی تو کانگریسی لیڈروں نے جان بوجھ کر وزارت خزانہ کا قلمدان لیاقت علی خان کے حوالے کیا کیونکہ کانگریسی رہنماؤں کا خیال تھا کہ مسلمان حساب کتاب میں لائق نہیں ہوتے اس لیے لیاقت علی خان وزارت خزانہ چلانے میں ناکام ہو جائیں گے۔

لیکن نوابزادہ صاحب نے 1946 کی عبوری حکومت میں چوہدری محمد علی کے صلاح مشورے سے جو بجٹ پیش کیا، اسے غریب آدمی کا بجٹ قرار دیا گیا۔ اس عارضی حکومت میں سردار پٹیل وزیرداخلہ تھے۔ یہ اپنے محکمے میں ہندوؤں کی بڑی بھرتی کر کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کو کمزور کرنا چاہتے تھے، لیکن لیاقت علی خان نے سردار پٹیل کی چالیں اس طرح ناکام بنائیں، کہ ان کو کہہ دیا کہ وزارت خزانہ اس کی منظوری نہیں دے سکتی۔ انہوں نے 15 اگست 1947 کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے اس عہدے جلیلہ کا قلمدان سنبھالا اور انتہائی کامیاب وزیراعظم ثابت ہو ہوئے۔

وزیر اعظم کی حیثیت سے شاندارخدمات سر انجام دیں۔ اسی بنا پر انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی چار سالوں میں انہوں نے ملک کو اقتصادی اور سیاسی طور پر مستحکم بنانے کے لیے خود کو وقف کر دیا ان کی دوراندیشی، صبر و تحمل سیاسی بصیرت، خلوص و دیانتداری اور عوام کو مول لینے کی بے پناہ صلاحیت اس مشکل کام میں ان کی معاون ثابت ہوئی۔ وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں پاکستان کے قومی پرچم کا ڈیزائن منظوری کے لیے پیش کیا، انہوں نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا، کیوں کہ دو سو سال سے ہم غلامی کے مرض کا شکار رہے ہیں، اس لیے جناب صدر یہ پرچم نہ صرف یہ کہ پاکستانی قوم کے لئے آزادی کا پیغام ہوگا بلکہ دنیا کی دوسری اقوام کے لیے بھی امن کا علمبردار ہوگا، یہاں کسی بھی فرقے، قوم یا کسی پارٹی کو خاص رائے یا حقوق سے نہیں نوازا جائے گا۔

آپ پاکستان کے وزیراعظم ہی نہ تھے بلکہ مملکت کے وزیر دفاع بھی تھے اور انہیں پاکستان کے تمام مسائل کا بخوبی اور شدت سے احساس تھا۔ وہ بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ اگر پاکستان کو فوری طور پر دفاعی لحاظ سے مستحکم نہ بنایا گیا تو اس کی تمام اقتصادی آزادی دھری کی دھری رہ جائے گی اور دفاع کو مستحکم بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ جدید ترین اسلحے کا حصول اور پاکستان میں اسلحہ سازی کے کارخانے کا قیام تھا۔ انہوں جدید اسلحہ حاصل کرنے کے لیے کئی منصوبے بنائے اور بڑی دانشمندی اور وقار کے ساتھ ان کو عملی جامہ بھی پہنایا۔

انہوں نے عالمی سطح پربھارتی جارحیت کو بے نقاب کیا اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی۔ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے جو قراردادیں پاس ہوئیں، آج بھی انہیں لیاقت علی خان کی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے دور میں برطانیہ نے اپنے پونڈ کی قیمت کم کردی۔ برطانیہ کے اس فیصلے کے بعد دنیا کے بہت سے ملکوں نے جن میں بھارت بھی شامل تھا، اپنے سکوں کی قیمت کم کردی، لیکن لیاقت علی خان نے طے کیا کہ پاکستان اپنے روپے کی قیمت قائم رکھے گا۔

دنیا حیران رہ گئی۔ بھارت میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ یہاں تک کہ اس نے پاکستان کی مقرر کردا شرح مبادلہ کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس نے پاکستان سے تجارتی تعلقات منقطع کر لیے اور کوئلے کی فراہمی روک دی۔ ان دنوں پاکستانی ریلوے انجن بھارت سے درآمد شدہ کوئلے سے چلتے تھے۔ ادھر بھارت کی ملوں کے لئے خام مال کی صورت میں کپاس اور پٹ سن پاکستان فراہم کرتا تھا۔ لیاقت علی خان نے اعلان کر دیا کہ پاکستان اپنا پٹ سن خلیج بنگال میں غرق کر دے گا، لیکن بھارت کے ہاتھ فروخت نہیں کرے گا۔

لہذا پاکستان نے اس کی فروخت کے لیے دوسری منڈیاں ڈھونڈ لیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خام مال نہ ہونے کی وجہ سے بھارت کے ملیں بند ہو گئیں۔ ادھر پاکستان نے دوسرے ممالک سے کوئلہ خرید لیا لیکن لیاقت علی خان نے روپے کی قیمت کم کرنے کے لیے دباؤ قبول نہ کیا۔ چھ ماہ کے اندر بھارت نے ہار مان لی اور پاکستانی سکے کی مقرر کردہ قیمت کو تسلیم کر لیا۔ پٹ سن اور روئی کی زبردست فروخت اور سکے کی قیمت کم نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں خوشحالی پھیل گئی۔

11 ستمبر 1948 کو جب قائد اعظم نے وفات پائی تو قائد ملت کو قائد اعظم کے دست راست کا اعزاز حاصل رہا۔ انہوں نے اس نازک وقت میں بڑی ہمت و دانشمندی سے کام لیا، چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ بانی پاکستان کی وفات سے پاکستان کی تباہی کے جن لوگوں نے غلط اندازے لگائے تھے، وہ بہت ہی غلط ثابت ہوئے۔ پاکستان کی بقا، تحفظ اور روشن مستقبل کے لئے ان کے چار کارناموں کو خاص اہمیت دی جا سکتی ہے۔ ان کے یہ چار کارنامے گویا چار مضبوط ستون ہیں جو انہوں نے پاکستان کو سہارا دینے کے لیے نصب کر دیے ہیں۔

1۔ انہوں نے پاکستان کی مجلس دستور ساز میں وہ قرارداد مقاصد پیش کی جس سے ایک طرف خود مسلمانوں کو اطمینان و یقین ہو گیا کہ مملکت خداداد کا دستوری نظام خالص اسلامی تصورات پر مبنی ہوگا۔ اور دوسری طرف اقلیتوں کے دل میں یہ اعتماد جا گزیں ہو گیا کہ اس سر زمین پر ہماری کوئی حق تلفی نہ ہو گی۔ ملک کی اندرونی فضا کو خوشگوار و سازگار بنانے میں اس قرارداد مقاصد نے غیر معمولی کام کیا۔ 2۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد رونما ہونے والے واقعات نے ایسی ناخوشگوار فضا پیدا کر دی تھی کہ دونوں نئی مملکتوں میں بے چینی اور بے اطمینانی پھیلتی گئی۔

قائد ملت نے سکون و طمانیت کی فضا پیدا کرنے کے لیے وہ قدم اٹھایا یا جو لیاقت نہرو معاہدہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 3۔ تقریباً دو ماہ تک ریاستہائے متحدہ امریکہ کے بہت سے اہم شہروں کا سرکاری دورہ کیا، جس کے طفیل امریکہ کے لوگ بلکہ باشندگان عالم پاکستان اور یہاں کے عام حالات سے بخوبی واقف ہو گئے۔ اسی دورے کا نتیجہ تھا کہ امریکہ اور یورپ کے بعض اخبارات جو اپنی ناواقفیت کی بنا پر پاکستان کے بعض مسائل پر بڑی تنقیدی کیا کرتے تھے اپنا رویہ بدل دیا۔

4۔ تباہی و بربادی اور خونریزی کے اس دور میں جب کہ کشمیر کے معاملے میں جنگ ہو چکی تھی، قائد ملت جو وزیراعظم ہونے کے علاوہ وزیر دفاع بھی تھے، انہوں نے دفاعی لحاظ سے وہ قوت جمع کر لی کہ دشمنوں کے اوسان خطا ہونے لگے اور قائد ملت کا مکہ لہرانا ہندوستان کے لئے خوف کی علامت بن گیا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کس قدر سادہ طبعیت، درویش وزیر اعظم اور ملک و قوم کے ایک ایک پیسے کی بچت کرنے والے عظیم انسان تھے۔

جو لوگ انہیں سالہا سال سے جانتے تھے اور جنہوں نے مرحوم کو ان کی امارات اور خوشحالی کے زمانے میں دیکھا تھا، وہ یہ دیکھ کر متعجب ہوتے تھے کہ اس قدر آرام و آسائش کی زندگی بسر کر چکنے کے بعد اور عیش و عشرت اور آسانیوں کی عادت پڑ جانے کے باوجود کس طرح وہ اپنے وقت آرام اور بچی کچھی دولت کو مسلم لیگ کی ترقی اور پاکستان کے استحکام کی خاطر قربان کرتے جا رہے تھے، حتی کہ اس ملک کے وزیراعظم بن جانے کے بعد، انہوں نے اپنی ضروریات زندگی کو درویشانہ حد تک گھٹا دیا تھا۔

سنگ مر مر کے وسیع کمروں اور عالیشان دالانوں کی جگہ ایک پرانے اور بوسیدہ مکان نے لے لی تھی۔ جس کے معمولی برآمدے کے ایک کونے کو الماریوں سے محصور کر کے کپڑے بدلنے کا کمرہ بنایا گیا تھا۔ لیاقت علی خان مرحوم کو کثرت کار کے باعث کھانے کے لئے بھی وقت نہ ملتا تھا۔ تھوڑا بہت ابلا ہوا کھانا کھڑے کھڑے ٹرے میں رکھ کر ہی کھا لیا کرتے تھے۔ یہ سب کچھ وہ نفع کے لیے نہیں بلکہ خوشی خوشی کیا کرتے تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے پاکستان ایک غریب ملک ہے اور میرے لئے یہ عمل جائز و مناسب نہیں کہ میں اپنی تن آسانی کے لئے پبلک کا روپیہ ضائع کروں۔

فی زمانہ مرحوم کا یہ ایثار وقربانی بہت ہی باعث حیرت ہے۔ شہید ملت لیاقت علی خان ہندوستان میں بہت بڑی بڑی جاگیروں کے مالک تھے مگر پاکستان آنے کے بعد انہوں نے یہاں ایک انچ زمین یا کوئی بھی دوسری جائیداد الاٹ نہیں کرائی۔ حالانکہ وہ اگر چاہتے تو بڑی آسانی سے یہ سب کچھ کر سکتے تھے۔ نواب صدیق علی خان جو پاکستان میں شہید ملت کے پولیٹیکل سیکریٹری تھے، انہوں نے اپنے گھر پر مسلم لیگ کے خاص خاص کارکنوں کو ڈنر دیا۔

جس میں شہید ملت بھی شریک تھے۔ ایک کارکن نے آپ سے سوال کیا کہ آپ نے ہندوستان میں اپنی بے پناہ جائیدادوں، جاگیروں، کوٹھیوں اور مارکیٹوں کے عوض پاکستان میں کوئی کلیم کیوں داخل نہیں کیا۔ قائد ملت نے فرمایا کہ میں طارق بن زیاد کے ماننے والوں میں سے ہوں، جب وہ سپین پہنچے تو انہوں نے اپنی کشتیاں جلا دی تھیں، پاکستان کا وجود ہی میرے لئے ایک عظیم وراثت ہے، میں جائیداد لے کر کیا کروں گا۔ ایک بار چند طلباء ان کے پاس چندہ مانگنے کے لئے گئے، آپ نے حکومت پاکستان کے کھاتے سے انہیں دو ہزار کا چیک دینا چاہا، تو طلباء نے کہا کہ ہم حکومت سے کوئی چندہ لینا نہیں چاہتے، آپ اپنی جیب سے جو کچھ دینا چاہیں تو آپ دے سکتے ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ میں تو تنخواہ دار آدمی ہوں، زیادہ نہیں دے سکتا، لہذا یہی چیک قبول کر لیں، طلباء نے پھر اصرار کیا توآپ نے اپنے اکاؤنٹ سے دو ہزار روپے کا ہی چیک اس شرط کے ساتھ دیا کہ یہ چیک آپ اگلے ماہ کی پہلی تاریخ کے بعد کیش کرائیں گے، کیوں کہ میری تنخواہ اس وقت تک بینک میں جمع ہو جائے گی۔ لیکن پہلی تاریخ سے پہلے ہی پاکستانی قوم کا یہ درویش صفت وزیراعظم مرتبہ شہادت پر فائز ہو گیا۔ طلبہ نے جب چیک بینک میں جمع کرایا تو آپ کے اکاؤنٹ میں صرف پانچ سو روپے تھے، لہذا بینک منیجر نے سیٹھ محمد علی حبیب کو فون کیا کہ وہ کیا کریں۔ سیٹھ محمدعلی حبیب کے پاس اس وقت محمد علی منھاج بھی بیٹھے تھے، جب انہیں بھی اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ آپ چیک کیش کروا دیں، پیسے میں جمع کرا دوں گا۔ چنانچہ چیک کیش ہو گیا۔

ایک دفعہ موسم سرما میں ان کے ڈریسنگ روم میں جہاں سرد ہوا آ رہی تھی، انہیں شیو کرتے ہوئے دیکھا گیا، تو ان کے ایک وفادار نے کہا، سر آپ کو سردی لگ جانیکا اندیشہ ہے، اس پر مرحوم نے بے پرواہی سے جواب دیا کہ خدا کا شکر ہے کہ میرے سر پر یہ چھپر تو ہے، ایسے بھی ہزاروں خدا کے بندے موجود ہیں، جن کو یہ بھی میسر نہیں، آرام کی جتنی عادت ڈالو اتنی ہی بڑھ جاتی ہے، مناسب یہ ہے کہ آپ اپنی ذاتی ضروریات کو بے حد محدود کر لیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لیاقت علی خان مرحوم خوش پوش انسان تھے۔ لیکن ان کے پاس بیش قیمت کپڑے بہت کم تھے۔ کراچی میں حمید برادرز مرحوم کے درزی تھے۔ وہ شاہد ہیں کہ لیاقت علی خان نے قیام پاکستان کے بعد ساڑھے چار برس میں مشکل سے تین یا چار سوٹ سلوائے ہوں گے۔ اپنے پرانے سوٹ ہی درست کرواتے رہتے تھے۔ 1940 کے بعد ان کا جسم زیادہ بھاری ہو گیا تھا۔ چنانچہ ان کے سابقہ کپڑے تنگ ہو گئے تھے۔ لیاقت علی خان مرحوم ان تنگ کپڑوں کو رد کرنے کی بجائے بڑے کرواتے اور پہنتے رہتے تھے۔

لیاقت علی خان گھر میں نہایت سادہ کپڑے پہنا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہیں ایک قمیض پہنے دیکھا گیا، جس کی آستین پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ آستین کا کپڑا نکال کر اس کا کالر بنایا گیا تھا، اس طرح لیاقت علی خان مرحوم اپنا ذاتی کام چلایا کرتے تھے۔ ان تمام کفایت شعاریوں کے باوصف لیاقت علی مرحوم کو اپنی ماہانہ تنخواہ میں گزارا کرنا مشکل ہوتا تھا، کیونکہ انہوں نے خود ہی اپنا مشاھرہ بہت کم مقرر کروایا تھا۔

ہندوستان میں ان کی تمام املاک ان کے ہاتھ سے نکل چکی تھیں، اور پاکستان میں انہوں نے اپنی ذاتی جائیداد نہ بنائی۔ وہ اپنی جائیداد کے تبادلے کے لیے بھی اس وقت تک راضی نہ تھے، تاوقتیکہ ہر ایک پاکستانی کی جائیداد کا تبادلہ نہ ہو جائے، قرض کے بار سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہ اپنے بچوں کو معمولی سکول میں تعلیم دلوا رہے تھے۔ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود لیاقت علی خان ایک زندہ دل انسان تھے اور اپنی خانگی زندگی میں بھی انہماک رکھتے تھے۔

اسی وجہ سے ان کے گھر کا ماحول نہایت خوشگوار تھا۔ اس ماحول کے پیدا کرنے میں ان کی محبوب بیوی رعنا لیاقت کا بڑا حصہ تھا۔ مرحوم کی زندگی میں وہ نا صرف ایک فرض شناس بیوی تھیں بلکہ لیاقت مرحوم کے کھانے پینے کی وہ اس طرح نگرانی کیا کرتی تھی جس طرح کہ کسی معصوم بچے کی کی جاتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ مرحوم جب کھانے میں مصروف ہوتے تو بیگم صاحبہ ان کو اخبار کی خبریں اور دن بھر کے حالات و واقعات پڑھ کر سنایا کرتی تھیں۔

جب وہ نئے نئے وزیراعظم مقرر ہوئے تو جمعہ کی نماز کراچی کی مختلف مسجدوں میں ادا کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ کیماڑی کی جامع مسجد میں گئے تو مسجد پوری بھر چکی تھی، چنانچہ لیاقت علی خان خاموشی کے ساتھ آخری صف میں کھڑے ہو گئے، لوگوں نے انہیں دیکھ کر بہت کوشش کی کہ ان کے لیے صف اول میں جگہ نکالی جائے مگر مرحوم نے منظور نہ کیا اور وہیں ایک مصلے پر خدا کے حضور میں جھک گئے، پھر جب ان کے برابر ایک ضعیف مسلمان پھٹے پرانے کپڑے پہنے ان کے کندھے سے کندھا ملا کر نماز کے لیے کھڑا ہوا تو دوسرے مسلمانوں نے یہ کہہ کر اسے وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی کہ دیکھتے نہیں ہو، وزیراعظم پاکستان کھڑے ہیں۔ اس پر مرحوم ان لوگوں پر بہت خفا ہوئے اور فرمایا کہ خدا کے گھر میں وزیراعظم پاکستان اور غریب بے نوا مسلمان دونوں برابر ہیں، اور پھر لیاقت مرحوم اور غریب بوڑھے نے برابر میں کھڑے ہو کر خدا کا فریضہ ادا کیا۔ یہ واقعہ عہد سعادت اور اسلام کے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد دلاتا ہے۔ بعد میں لیاقت علی خان نے جمعہ کے لئے مساجد میں جانا ترک کر دیا، کیونکہ غرض مند لوگوں نے ان کا سکون کے ساتھ نماز ادا کرنا مشکل کر دیا تھا۔

ان کو دیکھتے ہی لوگ ظاہری تواضع شروع کر دیتے، مگر مرحوم کو مسجد کے اندر یہ نمائش سخت ناپسند تھی۔ قائد اعظم کے اے ڈی سی عطا ربانی لکھتے ہیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک پرانی کار ملی تھی، جسے اسٹارٹ کرتے وقت ہمیشہ پریشانی ہوتی تھی۔ میں اس قسم کے واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ جب وزیر اعظم گورنر جنرل سے ملاقات کے لیے یا وزارت کے اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے، تو مجھے ان کی کار کا انجن چالو کرنے کے لئے دھکا لگانے میں مدد کرنی پڑتی۔

ایک دفعہ ایسے ہی موقع پر وزیراعظم کو اچھے موڈ میں دیکھ کر میں نے مزاحیہ انداز میں کہا، کیا یہ بہتر نہ ہوگا، اگر اس کار کو بیچ کر بگھی خرید لی جائے، جس پر پاکستان کا جھنڈا لہرائے۔ اس پر وزیر اعظم نے کہا، یہ تو بتاؤ ایسی کار کو خریدے گا کون، اچھا بتاؤ تمہاری آفر کیا ہے۔ کچھ مدت بعد وہ اپنی نئی کار میں گورنر جنرل ہاؤس آئے، تو انہوں نے مجھے کان سے پکڑا اور پورچ تک لے گئے اور کہنے لگے، میری بگھی پر ایک نظر ڈالو، تمہیں پسند آئی۔

عطا ربانی نے ایک دلچسپ قصہ بھی لکھا ہے۔ لیاقت علی خان عام طور پر اپنی بائیں بغل میں ایک چھڑی رکھتے تھے۔ قائداعظم کے مونوکل اور نہرو کے کاج میں گلاب کے پھول کی طرح۔ یہ ان کی شخصیت کا ایک حصہ بن گئی تھی۔ ایک دن عطا ربانی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر ان کی فیملی کے ساتھ چائے پی رہے تھے، تو یہ چھڑی میز پر پڑی تھی، انہوں نے یونہی ہاتھ لگایا تو پتہ چلا کہ وہ سکے کی طرح بھاری ہے۔ وزیراعظم کا ا چھا موڈ دیکھ کر انہوں نے پوچھا، سر اتنی بھاری چھڑی میں کیا خوبی ہے، جو آپ اسے ہر وقت اٹھائے پھرتے ہیں۔

بیگم لیاقت علی خان اس سوال پر ہنس پڑیں۔ وزیراعظم نے مجھے دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا، مسکرائے، اور اس بھاری چھڑی سے مجھے ہلکا سا ٹہوکا دے کر کہنے لگے، یہ مولابخش، تم جیسے شرارتیوں کو درست کرنے کے لئے ہے، لارڈ ویول جو 30 اکتوبر 1943 سے 23 مارچ 1947 تک ہندوستان کے وائسرائے رہے، اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں، لیاقت علی خان ایک شریف انسان اور پسندیدہ شخصیت ہیں، وہ ایک دل موہ لینے والے شخص ہیں، جناح کی نسبت ان سے بات کرنا زیادہ آسان ہے، وہ ایک دل آویز شخصیت ہیں، وہ دھیمے لہجے اور معقول طریقے سے بات کرتے ہیں، لیکن وہ ہوتی ہے، جناح کی باز گشت۔ وہ ایک متوازن ذہن کے آدمی ہیں، لیاقت ہمیشہ میری پسندیدہ شخصیت رہے ہیں اور ان میں بھرپور عقل سلیم ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 20 نومبر 1947 کو ویول کی انگلستان میں ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ویول سے کہا کہ، مسلمانوں کی طرف سے لیاقت نے ہوش مندی اور کچھ تدبر کا مظاہرہ کیا تھا۔ ویول لکھتے ہیں کہ میری رائے بھی کچھ ایسی ہی ہے، لیکن لیاقت علی خان کی صحت ٹھیک نہیں ہے، ان کے بعد پاکستان میں کوئی کام کی شخصیت نہیں ہے۔

16 اکتوبر 1951 کو وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، ابھی انہوں نے صرف برادران ملت ہی کہا تھا کہ ایک شخص سید اکبر نے ان پر پستول سے فائر کیے ، دو گولیاں ان کے سینے میں لگیں اور خون بہنے لگا۔ ان کے پولیٹیکل سیکریٹری نواب صدیق علی خان نے جو ان کے پیچھے کھڑے تھے، انہیں سہارا دیا۔ انہوں نے نحیف آواز میں کہا، مجھے گولی لگ گئی ہے، اس کے بعد باآواز بلند کلمہ طیبہ پڑھا اور آخر میں کہا۔

خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔ یہ جملہ بڑا ہی معنی خیز تھا۔ اور یوں انہوں نے اپنی وہ بات سچ کردکھائی کہ جب کبھی بھی پاکستان کے لیے خون دینے کا وقت آیا تو میرا خون بھی عوام کے خون میں شامل ہوگا۔ شہادت کے وقت پیوند لگی ہوئی قمیض اور پھٹی ہوئی بنیان پہنی ہوئی تھی۔ آپ کا کوئی بینک بیلنس نہ نکلا اور نہ ہی کوئی مال و دولت زیورات برآمد ہوئے بلکہ ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان کے پاس اپنے گھر کا ایک ماہ کا خرچہ چلانے کے لئے بھی پیسے نہیں تھے۔

اور گھر تو ہندوستان کے اس بہت بڑے جاگیر دار اور نواب نے الاٹ ہی نہیں کروایا تھا۔ حکومت پاکستان نے ان کا دو ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا اور رہنے کے لئے مناسب سا گھر بھی دے دیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک روایت یہ بھی رہی ہے کہ عام سوگ کے موقع پر وہاں سائرن بجایا جاتا ہے۔ جو اس بات کا اعلان ہے کہ یونیورسٹی اس رنج و غم میں برابر کی شریک ہے۔ چنانچہ جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور ایم اے او کالج علی گڑھ کے قدیم طالب علم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو شہید کر دیا گیا تو یونیورسٹی کے طالب علموں نے اصرار کیا کہ سائرن بجایا جائے۔

یونیورسٹی انتظامیہ اس پر راضی نہ تھی۔ چنانچہ طلبہ کا ایک مشتعل ہجوم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوٹھی پر پہنچا اور مطالبہ کیا کہ وہ سائرن بجانے کا حکم دیں، لیکن وہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے۔ آخر کار بڑی ناگواری سے کہہ دیا کہ جائیے اور جو چاہے کیجئے۔ طالب علموں نے واپس یونیورسٹی آ کر اس کمرے کا تالا توڑا جہاں سائرن نصب تھا اور سائرن بجا کر علی گڑھ یونیورسٹی کی طرف سے پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کر دیا۔ سترہ اکتوبر کو بعد دوپہر آپ کا جنازہ اٹھایا گیا۔ لاکھوں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی اور قائد اعظم کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).