امریکی انتخابات: تین نومبر، تین ریاستیں اور تین ہفتے


تین اہم سوئنگ سٹیٹس؟

انتخابات سے تین ہفتے قبل دونوں صدارتی امیدواروں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کی نظریں اب تین ریاستوں پر جمی ہوئی ہیں۔

سیاسی مبصرین کی آرا بتاتی ہیں کہ تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں تین ریاستوں فلوریڈا، اوہائیو اور پینسلوینیا میں ہار جیت نتائج کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔

ان ریاستوں کی اہمیت کے پیش نظر دونوں پارٹیوں نے ان پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ ایسی ریاستوں کو سوئنگ اسٹیٹس کہا جاتا ہے جن پر کسی ایک جماعت کی حمایت کا لیبل نہ لگا ہو اور یہ کہ یہ ریاستیں کبھی ایک جماعت کو تو کبھی دوسری جماعت کو فتح یاب کرانے کی تاریخ رکھتی ہیں اور عام طور پر یہاں کانٹے کا مقابلہ دیکھنے میں آتا ہے۔ اور یہ تینوں ریاستیں فلوریڈا، اوہائیو اور پنسلوینیا اس وقت اہم سونگ اسٹیٹس کا درجہ اختیار کر چکی ہیں۔

صدر ٹرمپ سین فورڈ ائرپورٹ پر انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کی ڈیموکریٹک پارٹی پر تنقید

صدر ٹرمپ نے فلوریڈا کے شہر سین فورڈ میں ایک تقریر کے دوران حریف پارٹی کے حوالے سے کہا کہ بد عنوان سیاسی طبقہ کسی بھی طور برسر اقتدار آنے کے لیے بے قرار ہے۔ اور ہم ان کی راہ میں حائل ہیں۔

ٹرمپ نے جو ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، الزام لگایا کہ ان کے مد مقابل بائیڈن بنیاد پرست عالمگیریت کے حامیوں کی ملکیت ہیں۔ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کو سوشلسٹ یعنی اشتراکیت نواز، کارل مارکس کی پیروکار اور بائیں بازو کے انتہا پسندوں کے القاب سے یاد کیا۔

کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے کے بعد صدر ٹرمپ کی الیکشن مہم کا یہ پہلا جلسہ تھا۔ اپنی تقریر میں ٹرمپ نے کہا کہ ہر فرد کو وہ دوا دستیاب ہو گی جس سے وہ صحت یاب ہوئے ہیں۔ اینٹی باڈی استعمال کرنے والی دوا ابھی تک صر ف ایمرجنسی میں ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو بہت توانا محسوس کرتے ہیں اور وہ مجمع میں ہر شخص سے قریب ہو کر ملنا چاہیں گے۔

ائرپورٹ کے کھلے مقام پر منعقد کی گئی اس ریلی میں کم ہی لوگوں نے صدر کی ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی تقریر کے دوران چہرے پر ماسک لے رکھے تھے۔

جب صدر کا جہاز ائرفورس ون فلوریڈ ا کی طرف جا رہا تھا تو وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ ان کا کرونا وائرس ٹیسٹ کا نتیجہ منفی آیا ہے۔

دریں اثنا نائب صدر مائیک پینس نے اوہایو ریاست میں پیر کے روز ایک ریلی سے خطاب کیا۔ شہر کولمبس میں ایک تعمیراتی کمپنی کے مقام پر ہونے والی ان کی تقریر کو احتجاجی مظاہرین کی طرف سے بارہا خلل کا سامنا رہا۔

اس مظاہرے کا اہتمام ڈیموکریٹک سینیٹر برنی سینڈر کے قائم کردہ ایک گروپ کی جانب سے کیا گیا تھا۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن

بائیڈن کی کرونا وائرس کے حوالے سے تنقید

دوسری طرف حزب اختلاف کے امیدوار بائیڈن نے بھی پیر کو اوہائیو ریاست کا دورہ کیا۔

ٹولیڈو میں گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کے اجتماع سے مخاطب بائیڈن نے کہا کہ اب امریکی عوام کے سامنے سے پردہ اٹھ گیا ہے۔ ان کا یہ اجتماع گاڑیوں کی صنعت میں ملازمین کی ایک یونین سے تھا، جس میں تقریر کے دوران اپنے جذبات کا اظہار ہاتھ تالیوں کی بجائے گاڑی کے ہارن کے بجا کیا جاتا رہا۔

بائیڈن نے کہا کہ کرونا کی وبا، اقتصادی بحران، نسلی عدم مساوات، اور عالمی صورت حال نے مجموعی طور پر جو مسائل کھڑے کیے ہیں امریکی اب اس سے واقف ہیں اور وہ اس صورت حال میں تبدیلی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

بعد ازاں بائیڈن نے ریاست سنسناٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دو لاکھ سے زائد افراد کرونا وبا کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں اور اتنی ہی مزید ہلاکتیں جنوری تک ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ ساری صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کیوں کہ صدر ٹرمپ صرف اسٹاک ایکسچینج کے متعلق فکرمند رہتے ہیں اور وہ سائنس کے مطابق نہیں چلتے۔

منگل کے روز بائیڈن ریاست فلوریڈا کا دورہ کر رہے ہیں جب کہ صدر ٹرمپ پینسلوینیا میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔

عوامی رائے شماری کے مقابلے میں الیکٹورل ووٹ کی اہمیت

جہاں تک اب تک کے انتخابی رجحانات کا تعلق ہے تو ادارے ریئل کلیئر پالیٹکس کے مطابق بائیڈن کو پینسلوینیا کی ریاست میں سات پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔

فلوریڈا میں بائیڈن کو ٹرمپ کے مقابلے میں 3.7 پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔ صدر ٹرمپ نے فلوریڈا کے سروے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ریاست میں فتح یاب ہوں گے۔

ریاست اوہائیو میں ایک حالیہ سروے کے مطابق دونوں امیدوار برابر دکھائی دیتے ہیں۔ اس ریاست میں صدر ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں 8 پوائنٹس سے ہلری کلنٹن کو شکست دی تھی۔

موجودہ انتخابی تناظر میں سیاسی ماہر سپنسر کمبل جو کہ ایمرسن کالج پولنگ کے ڈائرکٹر ہیں، کہتے ہیں کہ فلوریڈا اور اوہایو ٹرمپ کے دوسری مدت کے لیے صدر بننے میں بہت اہمیت کی حامل ہیں جب کہ بائیڈن کے لیے پینسلوینیا اہیمیت رکھتی ہے۔

پروفیسر کمبل کہتے ہیں کہ کوئی بھی ری پبلیکن ریاست اوہایو جیتے بغیر صدارت حاصل نہیں کر سکتا اور اگر مشی گن ریاست کو دیکھا جائے تو فلوریڈا جیتنے سے ہی بائیڈن یہ الیکن جیت سکتے ہیں۔

دوسری طرف، وہ کہتے ہیں، اگر پینسلوینیا ریاست ٹرمپ کے پاس ہی رہتی ہے تو بائیڈن کے لیے مشکلات ہوں گی کیونکہ متوقع طور پر امریکہ کی وسط مغربی ریاستوں میں ان کی کار کردگی بری ہو گی۔

یاد رہے کہ امریکی صدارتی انتخاب میں ہار جیت کا دار و مدار پاپولر ووٹوں یعنی کل ووٹوں میں برتری کی بجائے الیکٹورل کالج میں ڈیلیگیٹس کی تعداد پر ہوتا ہے۔ اور عام ووٹ یا پاپولر ووٹ جس ریاست میں جس پارٹی کے حق میں زیادہ ہوں، وہاں اسی پارٹی کے تمام ڈیلیگیٹس یا الیکٹوریٹس جیت جاتے ہیں۔

صدارتی انتخاب میں کامیابی کے لیے امیدوار کو کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ یا ڈیلی گیٹس جیتنا ہوتے ہیں۔ جن کا تعین امریکی ریاستوں کے ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی مجموعی تعداد سے ہوتا ہے۔

فلوریڈا، اوہائیو اور پینسلوینیا تین ریاستوں کے کل ڈیلیگیٹس کی تعداد 67 ہے۔

سب سے زیادہ الیکٹورل ووٹ ریاست کیلیفورنیا میں ہیں جہاں 55 ڈیلیگیٹس ہیں۔ سروے بتاتے ہیں کہ کیلی فورنیا میں بائیڈن کی کامیابی یقینی ہے۔

ریاست ٹیکساس کے 38 الیکٹورل ووٹ یا ڈیلی گیٹس ہیں اور سیاسی مبصریں کی اکثریت کہتی ہے کہ اس ریاست میں صدر ٹرمپ اپنی 2016 کی کامیابی کو دہراتے ہوئے کامیاب رہیں گے۔ بائیڈن اس ریاست میں پانچ پوائنٹس کے فرق سے پیچھے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa