وبا کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے عالمی اتحاد میں ”ذمہ دار“ ممالک کی شرکت


کوو ایکس، کووڈ۔ 19 کے ٹیسٹ، علاج، نئی ویکسین کی ترقی، تیاری، تکمیل اور مساوی تقسیم کو تیز کرنے کے لیے عالمی سطح پرکیا جانے والا باہمی تعاون ہے۔ اس کے تحت زیادہ سے زیادہ ممالک اس مشترک ”حوض“ میں نا صرف اپنے تجربات، تحقیق اور نتائج دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں بلکہ اس تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے جو مالی وسائل درکار ہیں، ان کے لیے بڑی معیشتیں مالی سرمایہ کاری بھی کرتی ہیں، تا کہ اس مرض کے خلاف ویکسین کی تیاری میں تیزی آئے اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر موثر اور محفوظ علاج بھی دریافت کیا جا سکے۔ کوو ایکس کی ترجیح یہ ہے کہ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کو ویکسین کے حصول میں مدد فراہم کرے اور 2021 ء کے اختتام تک تحقیق اور ترقی کے لیے فنڈ اکٹھے کرنے کے ساتھ ساتھ کم آمدنی والے ممالک کے لیے ویکسین کی کم از کم دو ارب خوراکیں فراہم کی جائیں۔

یہ تو تھا کوو ایکس کا پس منظر اب اس حوالے سے اگر ہم عالمی اشتراک کی تو اب تک 172 ممالک سمیت مختلف ایجینسیاں اس مقصد کی تکمیل میں شراکت دار بن چکی ہیں۔ ترقی یافتہ اور مضبوط معاشی حیثیت کے 76 ممالک اس میں شامل ہیں اور ان کی جانب سے تحقیق کے لیے مالی معاونت بھی جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے تجربات اور وسائل بھی اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں مدد گار ہیں۔ ان ممالک کی اس منصوبے میں شرکت عالمی مسائل کے حل کی خاطر ان کے احساس ذمہ داری کا ثبوت ہے۔

اس حوالے سے اب تک چین کے کردار کو دیکھیں تو چین ویکسین پر کی جانے والی تحقیق اور تیاری کے حوالے سے سر فہرست ہے۔ تاہم اس حوالے سے قابل ذکر اور حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا میں عالمی طاقت یا عالمی رہنما کا کردار ادا کرنے والا امریکا، انسانی بقا کے اس منصوبے میں نا ہی شامل ہوا ہے اور نا ہی اس نے اس کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ جب کہ اگر اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے چین کے کردار پر نظر ڈالیں، تو اس وقت دنیا میں نو ویکسین کلینیکل ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں ہیں، جن میں سے چار چین کی ہیں، جب کہ پانچ امریکا، جرمنی، روس اور برطانیہ کی ہیں۔

یہاں خاص بات محض ویکسین کی تعداد کی نہیں، بلکہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ چین پہلے دن سے اس عہد کے ساتھ ویکسین کی تیاری کو جاری رکھے ہوئے ہے کہ وہ مالی مفادات سے بالا تر ہو کر انسانیت کے ناتے سے، ویکسین کو عام استعمال کے لیے آسانی سے خریدی جانے والی اشیا کے تحت عالمی مارکیٹ میں متعارف کروائے گا اور کئی فورم پر وہ اپنے اس ارادے کا اظہار کر چکا ہے کہ چین کی پہلی ترجیح ترقی پذیر ممالک اور وہ ممالک ہوں گے کہ جہاں کے عوام کی قوت خرید بے حد کم ہے اور ان کے لیے اسے کم قیمت پر فراہم کیا جائے گا۔ عالمی برادری کی جانب سے چین کے احساس ذمہ داری اور انسانیت کی فلاح کے اس جذبے کو بے حد سراہا گیا ہے۔

ایسے میں جب نا صرف یہ کہ چین اور کوو ایکس کا ایک ہی ہدف ہے، بلکہ چین ایک بڑی معیشت بھی ہے، جو مالی طور پر بھی کوو ایکس کو مضبوط بنانے کے لیے پر عزم ہے، چین کا باضابطہ طور پر کوو ایکس کے ساتھ تحقیق و تیاری کے عمل کا حصہ بننا، بے حد خوش آیند اور حوصلہ افزا ثابت ہے، کیوں کہ تحقیق کے میدان میں بھی چین مسلسل اپنے تجربات و نتائج بانٹتا چلا آ رہا ہے اور اب ویکسین کی تیاری میں سر فہرست ملک، اس عالمی اتحاد میں شامل ہو کر اس کو ایک نئی قوت بخش رہا ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ نے چین کی کوو ایکس میں شمولیت اور اس صورت احوال میں چین کے مجموعی کردار کے بارے میں بے حد مثبت تبصرے کیے، مگر ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ ایسے وقت میں جب کہ دنیا کو ایک مضبوط رہنما کی ضرورت ہے، تو ”نمبر ون ملک“ کہاں ہے؟ تعمیری کردار ادا کرنے کا وقت آیا، تو امریکا منظر نامے سے بالکل غائب ہے۔ ہاں البتہ ویکسین کی تیاری میں رکاوٹ ڈالنے، الزام تراشی کر کے حقائق کو مسخ کرنے، ابہام اور بے یقینی پیدا کرنے کا معاملہ دیکھیں تو وہاں پر امریکی حکومتی اہل کار بے حد فعال ہیں۔ کیا ”بڑا ملک“ اس طرح کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ایک بڑے ملک کی ذمہ داری ”تعمیر“ ہوتی ہے، نا کہ ”تخریب“ ۔ کیا یہ ”طاقتور ملک“ اس بات کا احساس رکھتا ہے کہ اس وقت اتحاد اور تعاون ہی انسان کی بقا کا واحد حل ہے؟

برطانوی اخبار ”گارجین“ کا کہنا ہے کہ چین کی اس منصوبے میں شمولیت، وبا سے لڑنے کے لیے عالمی یکجہتی میں اعتماد کا باعث ہے، جس سے چین کا عالمی تشخص مزید بلند ہوا ہے۔ چین ”ویکسین نیشنلزم“ کی مخالفت کرنے والی سب سے بڑی معیشت ہے

واشنگٹن پوسٹ نے چین کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چین میں کووڈ 19 پھیلنے کے بعد، حکومت نے نا صرف اندرون ملک وائرس کے پھیلاؤ پر فوری طور پر قابو پایا، بلکہ بیرون ملک ماسک، طبی ساز و سامان اور دیگر سامان عطیہ کیا، جس سے عالمی سطح پر چین کی ساکھ مزید بہتر ہوئی ہے۔ اب کوو ایکس میں چین کی شمولیت، چین کے اس کے ”وبا کے خلاف متحد“ ہونے کے عزم کا عملی ثبوت ہے

بلوم برگ نیوز کے مطابق، چین کا یہ رویہ بے حد مثبت ہے کہ وہ ڈبلیو ایچ او کی سربراہی میں ”ناول کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے عملی منصوبہ“ میں حصہ لے گا۔ چین کی شراکت داری نے امریکی حکومت کی وجہ سے عالمی سطح پر صحت کی قیادت میں پائے جانے والے خلا کو پر کیا ہے۔

سیانے کہتے ہیں کہ نیت صاف رکھو بد خواہ خود ہی منہ کی کھائیں گے اور اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ نا صرف چین اس مرض کے خلاف اپنے ملک میں فتح یاب ہوا، دوسرے ممالک کی ہر طرح سے مدد کرتے ہوئے، ان کے قریب ہوا، بلکہ حالیہ پیش رفت نے عالمی برادری کو یہ احساس بھی دلایا کہ ”بڑا ملک“ ہونے ”اور بڑے ملک“ کے طور پر ذمہ داری نبھانے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ایک طرف ہم ایک ”بڑے ملک“ کو دیکھتے ہیں، جو صرف اور صرف الزام تراشی اور بد خواہی میں مصروف ہے، نہ تو اپنے ملک کے عوام کو اس مرض سے بچانے کے لیے کوئی بڑا فیصلہ کر سکا نا ہی عالمی تعاون میں کوئی مثبت اور تعمیری کردار ادا کرتا نظر آیا۔ اور دوسری طرف ہم چین کو دیکھ رہے ہیں، جو طاقتور اور عالمی رہنما ہونے کا دعوی نہیں کر رہا، لیکن اس کا ذمہ دارانہ طرز عمل، اس کو عالمی رہنما ثابت کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).