گلگت بلتستان الیکشن: پارٹی بدلنے کا رجحان


گلگت بلتستان کے 15 نومبر کو ہونے والے الیکشن کے لئے، تمام وفاقی جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا۔ یوں سیاسی میدان میں اب خوب میلہ جمے گا۔ ٹکٹوں کے اعلان سے پہلے یوں لگ رہا تھا کہ سیاسی جماعتیں اب شاید پاور پالیٹکس سے تائب ہو گئیں ہیں اور الیکشن میں حقیقی اور مخلص کارکنوں کو بطور امیدوار سامنے لائیں گی۔ لیکن وہ سیاست ہی کیا جس میں کوئی سیاست نہ ہو۔

گلگت بلتستان کے پارٹی بنیادوں پر الیکشن کی تاریخ پر اگر نگاہ ڈالی جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عموماً اس پارٹی کی حکومت بنتی ہے یا بنا دی جاتی ہے، جو وفاق میں صاحب اقتدار ہو۔ اس ضمن میں ملکی سطح کے سیاسی تجزیہ نگاروں اور الیکشن کے امور کے ماہرین کا بغیر کسی تردد کے یہ تجزیہ رہتا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے الیکشن میں کوئی خاص بات نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہی ہوتا ہے جو وفاق چاہتا ہے۔ اگر ہم 2009ء سے لے کر 15 نومبر کے متوقع الیکشن تک کے ٹکٹوں کی تقسیم اور پارٹی بدلنے کے رجحان پر نظر ڈالیں، تو تجزیہ نگاروں کی بات درست لگتی ہے۔

2009ء کے الیکشن جو گلگت بلتستان گڈ گورننس آرڈر کے تحت ہوئے، اس میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ اس الیکشن کے امیدواروں کی فہرست پر نظر کریں، تو گلگت بلتستان اسمبلی کی 24 نشستوں پر پیپلز پارٹی نے جو امیدوار کھڑے کیے تھے، ان میں سے بڑی تعداد تو پارٹی کے اپنے پرانے کارکن یا جیالے تھے۔ جب کہ کچھ مسلم لیگ ق سے وفا داری تبدیل کر کے اقتدار میں شامل ہو گئے تھے۔ اسی طرح 2015ء کے الیکشن میں اقتدار کی وہی رسہ کشی اور میوزیکل چیئر کا کھیل، اس الیکشن میں بھی کئی امیدوار دوسری جماعتوں سے اپنا ناتا توڑ کر مسلم لیگ نون کو ملک و قوم کے لئے نا گزیر اور نواز شریف کو نجات دہندہ قرار دے کر آن ملے، اور اپنی اپنی سیٹیں کھری کر لیں۔

اب جب 15 نومبر 2020ء کے الیکشن کے لئے امیدواروں کا اعلان ہوا ہے، تو صورت احوال جوں کی توں رہی۔ مسلم لیگ نون کی صوبائی حکومت کے اہم عہدے دار اور صوبائی وزرا یوں دیوانہ وار تحریک انصاف کی طرف بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا، جس پارٹی کے حق میں وہ صبح و شام رطب اللسان تھے، ان کو بس پکارتی رہ گئی۔ اور اب صورت احوال یہ ہو گئی ہے کہ مسلم لیگ نون کو امیدوار ڈھونڈنے سے نہیں مل رہے۔

شاید بھولے بھالے ورکروں اور جیالوں کو علم نہیں کی اقتدار کا کھیل کتنا بے رحم ہوتا ہے۔ اس کھیل کے اپنے قاعدے اور اصول ہوتے ہیں، جن پر نا تو منطق چلتی ہے اور نا ہی وفاداری کا حلف کام آتا ہے۔ نظریاتی سیاست کے گال پر تو جنرل ضیا الحق نے یہ کہہ کر چماٹ (تھپڑ) مارا تھا کہ آئین تو کاغذ کا ٹکڑا ہے، اور سیاست دان میرے ایک اشارہ پر دم ہلاتے چلے آتے ہیں۔ موصوف نے واقعتاً یہ کر دکھایا اور ان کی legacy اب تک ملکی سطح پر چل رہی ہے، تو ہم گلگت بلتستان والے کس شمار میں۔

مغل حکمرانوں کی تاریخ سے واقف دوست احباب جانتے ہیں کہ جب شاہ جہان نے اپنے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو ولی عہد نام زد کر دیا، تو منجھلے بیٹے اورنگزیب کو اقتدار سے دوری کہاں راس آنی تھی۔ والد محترم کو زنداں میں قید کر دیا اور آنکھوں میں سلائی پھیر دی۔ جب کہ دارا شکوہ اور دیگر بھائیوں کو تہء تیغ کر دیا۔ کرسی کہاں چھوڑ دینی تھی۔

اب گلگت بلتستان کے متوقع الیکشن میں بھی تبدیلی کی لہر زوروں پر ہے۔ وہ کارکن جو امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ ان کے نام کا بھی قرعہ نکلے گا، وہ شاید متذکرہ بالا مثالوں سے واقف نہیں، یا حد درجہ رجائیت پسندی کا شکار تھے کہ پارٹی ان کے لئے ہے اور ان کی قدر و قیمت ہو گی۔ لیکن الیکٹیبل کے کھیل نے سارے معیار کو مات دی ہے۔

ہاں ایک بات نہایت حساس ہے کہ اب کے بار، الیکشن پہلے سے بہت زیادہ اہم ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی سطح پر یقین دلانا ہو گا کہ الیکشن شفاف اور غیر جانب دارانہ ماحول میں منعقد ہوا۔ کیوں کہ سننے میں آیا ہے کہ بعد از انتخابات عبوری صوبے کا کام ہونا ہے اور اس ضمن میں کوئی بد مزگی پیدا نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).