وارث میر کی روشن خیالی (دوسری قسط)


اس سلسلے کے پہلے مضمون میں، ہم نے پروفیسر وارث میر پر گفتگو کا آغاز کیا تھا۔ اپنی کتاب ”حریت فکر کے مجاہد“ میں وارث میر نے مسلمان فلسفیوں اور سائنس دانوں میں اخوان الصفا کا بھی ذکر کیا ہے۔ وارث میر لکھتے ہیں :

”مصر میں اسلامی قوانین اور عدالتوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے والے روشن خیال علما کی جد و جہد کا مطالعہ کریں تو صورت حال پاکستان سے مختلف دکھائی نہیں دے گی۔ نقاب اور نکاح و طلاق کے بارے میں قاسم امین کی کتابوں کے خلاف مصر میں احتجاج اور مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا اور قدامت پسند علما نے، ان پر شدید تنقید کی اور عمر بھر چین نہیں لینے دیا گیا۔“ (صفحہ 44 )

وارث میر کے مطابق قرآنی آیات میں سائنسی حقائق تلاش کرنے کا رجحان علامہ مشرقی میں ملتا ہے اور سنسنی خیزی کی سطح پر اسے غلام جیلانی برق نے فروغ دیا۔ وارث میر کے مطابق مشرق وسطی کے ممتاز عالم ناصر الدین البانی نے کتاب پردہ کے حواشی لکھے ہیں اور مولانا مودودی کے پردے کے بارے میں اکثر خیالات سے شدید اختلاف کیا ہے۔ پھر عبد القادر المغربی کا ذکر ہے، جنہوں نے اپنے معاشرتی، مذہبی، ادبی اور تاریخی مقالات کے ذریعے مسلمانوں میں عقلیت کی تحریک کو پروان چڑھایا۔

مگر ایسے اکثر مفکرین کو بڑی قربانیاں دینا پڑیں۔ مثلاً مصری یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر منصور فہمی کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں، جن کے مقالے کا عنوان تھا۔ ”اسلام کے روایتی ارتقائی دائرے میں عورت کی حالت“ فرانس سے پی ایچ ڈی کر کے آنے پر ڈاکٹر منصور فہمی کو مسلسل مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، نا ہی وہ مصری یونیورسٹی میں اپنا عہدہ حاصل کر سکے، کیوں کہ علما کا قدامت پسند طبقہ ڈاکٹر منصور کو مغرب زدہ قرار دیتا تھا۔

وارث میر کا ایک مضمون، مصر کے طحہ حسین اور شیخ علی کے بارے میں ہے۔ وارث میر ہمیں بتاتے ہیں کہ نابینا مصنف ڈاکٹر طہ حسین کا شمار مصر کے ان عظیم علما اور روشن دماغ مفکرین میں ہوتا ہے، جنہوں نے ادب اور تاریخ کے تجزیے اور تنقید کے فرسودہ اصولوں سے بغاوت کی اور آنے والے مصری مصنفین کو سائنسی نقطہ نگاہ عطا کیا۔ طہٰ نے مصری یونیورسٹی میں ابو العلا معری کی شاعری اور سوربورن یونی ورسٹی میں فلسفہ ابن خلدون پر تحقیق کر کے ڈاکٹریٹ کی دو ڈگریاں حاصل کیں۔

برسبیل تذکرہ بتا دوں کہ عبد السلام ندوی نے ڈاکٹر طہ حسین کے ابن خلدون پر مقالے کا اردو ترجمہ کیا ہے، جو دار الشعور نے سن دو ہزار چھے میں شایع کیا، مگر پرانے کسی ایڈیشن کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ ڈاکٹر طہ حسین نے اسلامی ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں لکھیں، مگر جب قبل اسلام کی شاعری پر ان کی کتاب ’الشعر الجاہلی‘ شایع ہوئی، تو طوفان کھڑا ہو گیا۔ پھر انہوں نے اپنی کتاب کا نام بدل کر ”الادب الجاہلی“ رکھ دیا۔ پھر بھی ان کے ترقی پسند خیالات نشانہ بنتے رہے۔ خوش قسمتی سے یہ کتاب بھی اب اردو میں دست یاب ہے، جس کا ترجمہ رضا انصاری نے سن انیس سو چھیالیس میں کیا تھا۔ اب اسے انجمن ترقی اردو کراچی نے سن دو ہزار سترہ میں شایع کیا ہے۔

پروفیسر وارث میر اپنی کتاب ”حریت فکر کے مجاہد“ میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر طہٰ حسین کے مطابق جس لٹریچر کو ہم قبل اسلام کا قرار دیتے ہیں وہ زیادہ تر ظہور اسلام کے بعد لکھا گیا۔ اس لیے یہ جاہلی نہیں اسلامی ہے، جس میں قبل اسلام کے زمانے کی زندگی کے بجائے، خود مسلمانوں کی زندگی اور ان رجحانات و خیالات کا اظہار ہوتا ہے۔ اسے جاہلیت سے منسوب کرنے میں بعض مفادات وابستہ تھے اور غالباً مفسروں کے مقاصد کی تکمیل بھی پیش نظر تھی۔ جب ڈاکٹر طہٰ حسین نے ”الادب الجاہلی“ میں بعض ایسے خیالات و افکار کا اظہار کیا، تو علما کی طرف سے انہیں ملحد قرار دے دیا گیا۔

اس کتاب میں انہوں نے مروج طریقوں پر شدید نکتہ چینی کی تھی اور قدما کی ہر بات کو بلا تنقید قبول کرنے کی مذمت کی تھی۔ انہوں نے لکھا کہ اگر ادبیات عربی کو ترقی دینا ہے، تو اسے علوم دینی سے بالکل آزاد کرنا ہو گا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ طہٰ حسین کے جواب میں کیمیا کے ایک ماہر محمد الغمراوی نے ”نقد تحلیلی“ کے عنوان سے کتاب لکھ کر دلیل دی کہ ہر مسئلے کی پرکھ کا آغاز تشکیک سے نہیں کیا جا سکتا اور بعض باتوں کو سوال کیے بغیر تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح وارث میر، شیخ علی عبد الرزاق کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ بھی ڈاکٹر طہٰ حسین کے خیالات کے قریب تھے اور انہوں نے 1925 ء میں اپنی کتاب ”الاسلام و اصول الحکم“ میں خلافت کی موقوفی کی بات کی، کہ ابتدائے اسلام میں کسی مملکت کی بنیاد رکھنے کی کوشش نہیں کی گئی اور نہ منصب نبوت کا یہ تقاضا تھا۔ دعوت اسلام خالص مذہبی تھی اور نا یہ کسی سیاسی مملکت کے قیام کی دعوت تھی نا کسی سلطنت کے قیام کی منشا تھی۔

مصر کے شیخ علی کے مطابق دین اسلام میں کوئی ایسی بات نہیں جو مسلمانوں کو پرانے نظام ختم کرنے سے روکتی ہو، جنہوں نے عرصے سے انہیں محکوم بنا رکھا ہے۔ مسلمان آزاد ہیں کہ اپنے ملکوں کے قواعد اور نظام کو تازہ ترین نتائج فکر کی بنا پر تعمیر کریں، جو انسانوں کے ذہن نے دریافت کیے ہیں اور جنہیں قوموں کے تجربے نے بہترین اصول حکومت قرار دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کہتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں، جو دستور مملکت دیا اور نظام حکم رانی قائم کیا، اسی پر عمل دنیا کے لیے کار آمد ہو گا۔ مگر شیخ علی اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں اور جنگی، دنیاوی، سیاسی اور مذہبی پہلوؤں کو الگ رکھتے ہیں۔ اس کو اگر ہم پاکستان پر لاگو کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے مسائل کی ایک بڑی وجہ یہی رہی ہے کہ ہم نے جنگی، دنیاوی، سیاسی، اور مذہبی پہلو گڈ مڈ کر دیے ہیں۔

وارث میر کے مضامین میں مصری ادیب اور ڈراما نگار توفیق الحکیم کا بھی ذکر ہے، جن کے ڈراموں میں ترقی پسند رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ان کے دو ڈراموں ”شہر زاد“ اور ”اہل کہف“ کے اردو ترجمے ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کر چکے ہیں۔ ان کے علاوہ الجزائر کے ایک روشن خیال مفکر اور معلم مالک بن نبی کا بھی تذکرہ ہے، جو عقل اور فطرت کے اصولوں کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور الجزائر کی بیداری میں کردار ادا کیا۔

وارث میر مصر کے ایک اور روشن خیال مفکر اور ادیب ڈاکٹر احمد امین کی تصانیف کو بھی ہم سے متعارف کراتے ہیں جس میں لکھا۔

”کسی قوم کی تاریخ پر تحقیقات کرنے والے کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا اس قوم کی فکری اور عقلی نشو و نما کی تاریخ اور اس تاریخ پر بیرونی آرا و مذاہب کے اثرات کی تحقیقات سے ہوتا ہے۔“ (صفحہ 52 )

وارث میر نے احمد امین کا یہ پیرا گراف نقل کیا ہے، جس میں وہ اپنی ذات کے خول سے باہر آنے کا ذکر کرتے ہیں۔

”اگر میں مختلف مراحل طے نہ کرتا تو کس قسم کا انسان ہوتا؟ میں دنیا ایک آنکھ سے دیکھتا۔ اب دونوں آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ پہلے زمانہ ماضی کے تصورات میں گھرا ہوا تھا، اب ماضی و حال دونوں دیکھنے لگا۔ پہلے ایک علم سے بہرہ ور تھا، اب متعدد علوم سے متمتع تھا۔ پہلے مجھے چیز کے ایک رنگ اور ذائقے کا پتا تھا، اب کئی رنگ اور ذائقے چکھ لیے تھے۔ اس طرح آنکھ میں موازنے، تنقید اور تبصرے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ اگر یہ مراحل طے نہ کرتا تو رجعت پسند ادیب ہوتا۔

الفاظ کی خالی خولی آرائش کا خیال رہتا۔ جودت معنی کی طرف دھیان بھی نہ جاتا۔ جدید ادبا کو چھوڑ کر قدیم ادبا پر اعتماد رہتا۔ زمانہ حاضر کے مفکروں کو نظر انداز کر کے قدیم مفکروں کی طرف ملتفت رہتا۔ بغیر کسی تمحیص اور نقد کے تصنیف و تالیف میں لگا رہتا۔ میں ترجمہ، تالیف، انشا میں جدید افکار کا مرہون منت ہوں، یہ نئے پھول ہیں، جن میں پرانے پھول ملا کر، گل دستہ تیار کیا گیا ہے۔ ”(صفحہ 53 )

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پروفیسر وارث میر نے کس خوبی سے ایک مصری روشن خیال اور ترقی پسند مفکر کے الفاظ کو ہم تک پہنچایا ہے۔ وارث میر ہمیں بتاتے ہیں کہ مصری قوم کو اپنے روشن خیال مفکرین پر جائز طور پر فخر ہے، لیکن 1952 ء کے انقلاب سے پیش تر ان مفکرین کی بیدار مغزی کو حکومتی یا سیاسی سطح پر کسی قسم کی فعال معاونت میسر نہ آ سکی تھی۔ جمال عبد الناصر نے رجعت پسندانہ شاہی نظام سے قوم کو نجات دلائی اور سیاست کے ساتھ قدامت پرستانہ اور آمریت پسندانہ مذہبی رجحانات کو بھی کمزور کیا، لیکن اخوان المسلمون اور دوسرے مسلمان ممالک میں ناصر کا تعلق صہیونی تحریک سے جوڑا گیا۔

ناصر کے بعد سادات نے اخوان المسلمون پر عائد پابندیوں کو کم کیا اور ان کے اخبارات و رسائل کی اشاعت بحال کی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے سادات نے اپنے پابند صوم و صلوة، پرہیز گار اور دین دار ہونے کا تاثر دیا۔ وارث میر لکھتے ہیں کہ 1983 ء میں ان کے دورۂ قاہرہ کے دوران میں مصری صحافیوں نے انہیں بتایا کہ مصری ٹی وی کو خاص ہدایات تھیں کہ سادات کی تقریر ہوتے وقت ان کے ماتھے کے محراب کو خاص طور پر فوکس کیا جائے۔ لیکن اس کے با وجود سادات رجعت پسندوں کے ہاتھوں ہی مارے گئے۔

مختصر یہ کہ پروفیسر وارث میر کی کتاب ”حریت فکر کے مجاہد“ علم اور معلومات کا بے بہا خزانہ ہے۔ اس میں ان کے روزنامہ جنگ میں شایع ہونے والے ایسے مضامین اور کالم ہیں، جو آج پاکستان میں صحافت سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو پڑھنے چاہئیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وارث میر کی کتاب ضمیر نیازی اور مہدی حسن کی کتابوں کے ساتھ پاکستان کی جامعات کے صحافتی نصاب کا حصہ ہوتی لیکن اگر ایسا ہوتا تو آج بڑی تعداد میں ایسے صحافی موجود ہوتے، جو روشن خیال اور ترقی پسند ہوتے اور ان میں یہ صلاحیت ہوتی کہ مطالعہ پاکستان کی درسی کتابوں سے پیدا ہونے والی تنگ نظر ذہنیت سے نکل آتے۔ مگر غالباً یہی ہمارے اصل حکمرانوں کو منظور نہیں ہے اس لیے فیاض چوہان جیسے لوگ پروفیسر وارث میر کے بارے میں غیر ضروری گفت گو کرتے ہیں اور منہ کی کھاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).