ایل او سی: ’مرنا آسان ہے، زخمی ہونا مشکل‘


شمالی کشمیر میں کنٹرول لائن کے نہایت قریبی قصبہ اُوڑی کے چورنڈا اور بھٹ گراں دیہات میں فضا ماتم کناں ہے۔ اوڑی سے بیس کلومیٹر کا نہایت دشوار گزار پہاڑی فاصلہ تھوڑا گاڑی سے اور بیشتر پیدل طے کرکے چورنڈا پہنچا جاسکتا ہے۔ یہاں پاکستان اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقوں کے درمیان عبوری سرحد سے ملحقہ یہ دونوں دیہات دہائیوں سے پاکستان اور انڈیا کی جانب سے سرحدی گولہ باری سے متاثر ہیں۔

63 سالہ ظہور احمد کے گھر میں اب بھی مایوسی ہے۔ گذشتہ ماہ پاکستان اور انڈیا کی افواج کے درمیان اسی سیکٹر میں گولہ باری کا تبادلہ ہوا تو ایک گولہ ظہور احمد کے صحن میں گرا جس کی وجہ سے اُن کی اہلیہ ہلاک ہوگئیں۔

یہ بھی پڑھیے

’ٹارچ بھی نہیں جلاسکتے تھے‘

ظہور کہتے ہیں: ‘ہم لوگ چارپائی ڈھونڈ رہے تھے تاکہ اُسے اوڑی کے ہسپتال پہنچایا جائے، لیکن وہ تب تک فوت ہوچکی تھیں۔ آپ نے راستہ دیکھا ہوگا، یہاں مرنا آسان ہے، لیکن زخمی ہونا بہت مشکل ہے۔’

اس واقعے کے بعد حکام نے بارہ مولہ کے اُوڑی اور کپوارہ کے کیرن اور کرنا قصبوں میں آبادیوں کے لیے پختہ حفاظتی بنکر تعمیر کرنے کا اعلان کیا، لیکن یہ کام سُست رفتاری کی نذر ہوگیا۔

ظہور احمد کا بیٹا جاوید احمد فوج کے ساتھ پورٹر (قلی) کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ جاوید کے گھر میں ایک پختہ بنکر کا کام تیزی سے جاری ہے۔

جاوید کا کہنا ہے : ’یہ سب فوج کی مدد سے ہوا۔ مجھے میجر صاحب نے پچاس ہزار روپے دیے اور کہا ہمارا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ فوج ہی یہ بنکر بھی بنا رہی ہے، حکام کے بھروسے رہتے تو پھر کوئی گولہ ہمارے صحن میں کوئی اور جان لے لیتا۔‘

ظہور احمد کا مکان پہاڑ کی ڈھلوان پر واقع ہے، اسی مکان کے پیچھے ایک پٹھار ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کئی سال تک اسی پٹھار پر انڈین فوج کا کیمپ تھا۔ ’شاید پاکستانی فوج اسی کیمپ کو نشانہ بناتی ہے، لیکن یہ کیمپ اب خالی ہے اور گولے گاؤں کو متاثر کر رہے ہیں۔‘

اپنے صحن سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ظہور احمد نے گھنے جنگلوں سے گھرے پہاڑوں پر ٹین کی چھتوں کے بارے میں بتایا کہ وہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا خواجہ بانڈی گاوں ہے، جو کنٹرول لائن کے بالکل قریب ہے۔ ’ہم لوگ براہ راست فائرنگ رینج میں ہیں، اور ابھی تک ہمارے گاؤں تک سڑک نہیں بن پائی ہے۔ جب بھی کوئی زخمی ہوجاتا ہے، تو اُسے چار پانچ لوگ چارپائی پر اُٹھا کر چٹانوں سے ہوتے ہوئے اُوڑی پہنچاتے ہیں، قسمت ہوئی تو بچ جاتا ہے ورنہ اکثر زخمی راستے میں دم توڑ دیتے ہیں۔‘

ظہور احمد کی اہلیہ کی ہلاکت کے بعد حکام نے کپوارہ کے کیرن، کرنا اور بارہ مولہ کے اُوڑی سیکٹر میں کئی دیہات خاص طور پر چورنڈا اور بھٹ گراں میں پختہ حفاظتی بنکر بنانے کا اعلان کیا، لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اکثر اوقات انڈیا اور پاکستان کی افواج کے درمیان شیلنگ کا تبادلہ ہورہا ہے اور بنکروں کی تعمیر کا کام نہایت سُست رفتار سے جاری ہے۔

اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے اوڑی کے سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ریاض ملک نے بی بی سی کو بتایا: ’حکومت نے فنڈس بھی اجرا کیے ہیں اور ہم نے ٹینڈر بھی جاری کیے۔ لیکن راستہ خراب ہونے اور مسلسل خطرے کی وجہ سے ٹھیکیداروں نے کام درِدست نہیں لیا، اب ہم نے مقامی نوجوانوں کی معاونت سے کام شروع کیا۔‘

کشمیر کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقسیم کرنے والی عبوری کنڑول لائن دنیا کی خطرناک ترین سرحدوں میں شامل ہے۔ 1947 میں برٹش انڈیا کی تقسیم کے بعد انڈیا اور پاکستان کے وجود میں آتے ہی دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے معاملے پر جنگ ہوئی اور اقوام متحدہ کی مداخلت سے جب جنگ بندی نافذ ہوئی تو عبوری سرحد کو سیز فائر لائن قرار دیا گیا اور بعد میں مذاکرات کے دوران دونوں نے اسے لائن اف کنٹرول قرار دینے پر اتفاق کیا۔

اسی عبوری سرحد کی دونوں جانب لاکھوں کشمیری رہتے ہیں جو سالہا سال سے انڈین اور پاکستانی افواج کے درمیان ہونے والے تصادموں کی زد میں ہیں۔ 2003 میں دونوں ملکوں نے کنٹرول لائن پر باہمی اتفاق سے جنگ بندی کا اعلان کردیا تو کئی سال تک سرحدی آبادیوں نے راحت کا سانس لیا۔ لیکن پچھلے چند برسوں کے دوران یہ سرحد پھر ایک بار اگ اگل رہی ہے۔

دونوں ملک ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ آئے روز سرحد کی دونوں جانب فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ اس سال تین ہزار سے زیادہ مرتبہ پاکستانی افواج نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اس دوران کشمیر کے شمال میں اُوڑی کے علاوہ کیرن، کرناہ اور گریز سیکڑوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں پر مسلسل خوف طاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp