جھوٹ کی صحافت: کیا یہ کمپنی چلے گی؟


پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے صحافیوں کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شروع میں یہ صحافی عمران خان کو ڈراتے رہے کہ تم نہیں چل سکو گے، پھر ان صحافیوں نے فوج کو ڈرانا شروع کیا کہ تختہ الٹو ورنہ عمران خان تمہارا نام ڈبو دے گا۔ اب جب کاکول اکیڈمی میں افسران کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے دوٹوک انداز میں منتخب وفاقی حکومت کی مدد کی بات کی ہے تو وہ صحافی جو پہلے ڈرا رہے تھے، اب فوج کی منتیں کر رہے ہیں کہ خدارا مارشل لا لگاؤ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ بنی کہ سلیم صافی جیسا سینئر صحافی بھی اب اپنے حواس کھو رہا ہے اور کھلے عام کہہ رہا ہے کہ فوج کو آ جانا چاہیے۔ اگر عمران خان کی حکومت مسلسل ناکام ہو رہی ہے تو کیوں نہ اسے تین برس مزید دیے جائیں تاکہ یہ مکمل بے نقاب ہو اور آئندہ پاکستانی نوجوانوں کو بے وقوف بنانے کی ہمت نہ کر سکے لیکن ادھر تو عمران خان کو ایک دن گزارنے نہیں دیا جا رہا۔

آخر کیوں اس ملک کے صحافی سیاستدانوں سے بھی دو ہاتھ آگے چل رہے ہیں؟ کیا عمران خان کی طرف سے ”نو لفٹ“ کا بورڈ ہی اصل مسئلہ ہے یا پھر غیر ملکی دوروں میں ساتھ نہ لے جانے کا غصہ نکالا جا رہا ہے۔

سابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ کچھ عرصہ میڈیا کو مثبت رپورٹنگ کرنی چاہیے، ٹھیک کہا تھا۔ (محترم، اسی پہ اعتراض ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کام قطعاً نہیں کہ صحافیوں کو ہدایات جاری کریں۔ مدیر) پاکستان میں ہی روزانہ ہزاروں اچھی چیزیں بھی ہوتی ہیں، وہ میڈیا کا حصہ کیوں نہیں بن پاتیں؟ میڈیا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پر شو کیوں نہیں کرتا؟ ہر وقت سیاست اور صرف سیاست کا کھیل ہی کیوں جاری ہے؟

اس پاکستانی صحافت پر ملک کے شہریوں کے ساتھ ساتھ اوورسیز پاکستانی بھی بہت پریشان ہوتے ہیں جب یہاں سے سب برا ہے کی رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ ففتھ جنریشن وارفیئر کا پہلا وار یہی ہے کہ قوم کا ملک سے اعتبار اٹھ جائے۔ یہی بات کاکول میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کی اور انہوں نے کہا کہ سن لو، پاکستان میں سب اچھا ہوگا۔

ہمیں اپنے ذاتی مفادات اور بغض و عناد کو پس پشت ڈال کر ملکی مفاد کو ترجیح دینی ہوگی۔ ملکی مفاد ہم سب سے زیادہ قیمتی ہے۔

پچھلے دنوں وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی زلفی بخاری اپنے بیٹے کی پیدائش پر 10 دن کی چھٹی لیکر لندن گئے تو پیچھے سے عارف حمید بھٹی جیسے سینئر صحافی نے افراتفری پھیلا دی کہ زلفی بخاری اپوزیشن کی تحریک سے ڈر کے فیملی سمیت بھاگ گیا ہے۔ اب کل زلفی بخاری واپس آئے اور کابینہ کے اجلاس میں شریک بھی ہوئے۔

کیا سینئر صحافیوں کی طرف سنسنی، افراتفری اور جھوٹ پر مبنی یہ کمپنی مزید چل سکے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).