موٹروے ریپ کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی نے خود گرفتاری دی یا اسے پولیس نے پکڑا؟


پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پولیس کو تقریباً ایک ماہ سے مطلوب موٹروے ریپ کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کی گرفتاری کے اعلان کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی چند ویڈیوز نے ایک نکتے پر بحث چھیڑ دی ہے: آیا ملزم کو پولیس نے چھاپہ مار کر گرفتار کیا یا اس نے خود گرفتاری دی؟

ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو لاہور کے مضافاتی علاقے مانگا منڈی سے گرفتار کیا گیا تھا اور ابتدائی تفتیش کرنے والے پولیس افسران کے مطابق ملزم کو پکڑنے میں اُس موبائل فون سے مدد ملی جو اس نے فیصل آباد میں اپنی اہلیہ کے بھائی کے گھر سے چوری کیا تھا۔

تاہم ملزم کے والد کی طرف سے مقامی ذرائع ابلاغ پر نشر کی جانے والے ایک ویڈیو بیان نے اس حوالے سے تضاد پیدا کر دیا ہے۔ ویڈیو میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم عابد ملہی کو پولیس نے گرفتار نہیں کیا بلکہ وہ خود گرفتاری کے لیے پیش ہوا۔

اپنے ویڈیو بیان میں انھیں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’میرے بیٹے نے مجھ سے کہا کہ میں آنا چاہتا ہوں، یہ پولیس والے مجھے مارنا چاہتے ہیں، تو میں نے کہا تم آ جاؤ۔۔۔ اس کو ہم نے ایک مقامی شخص خالد بٹ کے سامنے پولیس کے حوالے کیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

موٹروے ریپ کیس: مرکزی ملزم گرفتار، پنجاب حکومت کی تصدیق

موٹروے ریپ کیس کا مرکزی ملزم ہر موڑ پر پولیس سے آگے کیسے

پاکستان میں ریپ جیسے جرائم کے لیے کیا مزید قانون سازی کی ضرورت ہے؟

تاہم اس حوالے سے پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ: ’یہ درست ہے کہ ملزم کے والد نے پولیس کو کال کر کے ملزم کے گھر آمد کی اطلاع دی لیکن یہ درست نہیں کہ وہ خود کو پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم نے بتایا کہ ابھی اس کا خود کو پولیس کے حوالے کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ ’اسے پولیس نے اپنے ذرائع استعمال کر کے پکڑا اور اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔‘

سی آئی اے پولیس کے مطابق مقامی شخص خالد بٹ کی گاڑی کو ملزم عابد کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ پولیس افسر کے مطابق سی آئی اے کا طریقہ کار زیادہ تر ایسا ہی ہوا ہے اور وہ ایسے کام کے لیے سرکاری گاڑیاں استعمال نہیں کرتے۔

یاد رہے کہ ابتدائی دنوں میں ملزم عابد پیچھا کرنے والی پولیس سے چند قدم آگے رہا تھا۔ اس کی موجودگی کی اطلاع پر پولیس نے جب بھی کہیں چھاپہ مارا تو وہ ہر بار فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا۔

پولیس افسر کے مطابق ایک مقام پر ننکانہ صاحب کے ایک علاقے میں جب اس کی موجودگی کی اطلاع پر پولیس نے اس جگہ کو گھیرے میں لیا تو ملزم اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاس واقع قبرستان میں چھپ گیا تھا اور بعدازاں وہاں سے فرار ہو گیا۔

تاہم گذشتہ چند روز سے ملزم بالکل روپوش ہو چکا تھا۔ پولیس کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ملزم موبائل فون استعمال نہیں کر رہا تھا اور اس نے اپنے قریبی رشتہ داروں اور عزیز و اقارب سے رابطہ بھی نہیں کیا تھا۔

ملزم غائب کیسے ہوا؟

پولیس کے اعلیٰ پولیس افسر کے مطابق ’اس کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس کی گرفتاری کے لیے اشہار بھی نکالا جا چکا ہے اور اطلاع دہندہ کے لیے انعام بھی رکھا گیا تھا۔ اس کے قریبی عزیزوں نے بھی ہر بار پولیس کو اس کی موجودگی کی اطلاع دی تھی۔‘

یہی وجہ تھی کہ وہ رشتہ داروں پر بھروسہ بھی نہیں کر رہا تھا اور سفر کرنے کے لیے بھی عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کرنے سے گریز کر رہا تھا۔

اس نے ابتدائی تفتیش میں پولیس کو بتایا کہ اس نے کئی میل پیدل سفر بھی کیا جس کی وجہ سے اس کے پیر بھی زخمی ہوئے تھے۔ وہ کئی روز تک بھوکا بھی رہا اور اس نے بھیک مانگ کر بھی کھانا کھایا۔

ہمیں اس کی طرف سے غلطی کا انتظار تھا

تاہم پولیس کے مطابق اس کی گرفتاری کے لیے جو جال پھیلایا گیا تھا اس میں انتظار صرف ملزم کی طرف سے غلطی کرنے کا تھا۔

پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس نے یہ غلطی اس وقت کی جب اس نے فیصل آباد میں رات کو چوروں کی طرح اپنے سالے کے گھر میں گھس کر اس کا موبائل فون چوری کیا۔‘

اس سے قبل پولیس اس کے والدین، بیوی، بھائی اور دیگر قریبی عزیزوں کو تحویل میں لے چکی تھی جن میں سے چند کو اس یقین دہانی پر رہا کیا گیا تھا کہ وہ عابد ملہی کی گرفتاری میں مدد دیں گے یعنی وہ اس کی طرف سے رابطے پر پولیس کو اطلاع کریں گے۔

ان اقدامات کے بعد پولیس یہ بھی جانتی تھی کہ ملزم کے پاس زیادہ دن گزارا کرنے کے لے کافی رقم نہیں تھی۔ وہ عوامی مقامات پر بھی زیادہ دیر نہیں رہ سکتا تھا اور کہیں ملازمت وغیرہ اس لیے نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس کا شناختی کارڈ اس کے پاس نہیں تھا۔

ملزم اپنے رشتہ دار کے گھر چوری چپھے کیوں گھسا؟

پولیس افسر کے مطابق ’ہمیں معلوم تھا کہ اس طرح کے ملزم اس طرح کے حالات میں زیادہ دن نہیں گزار سکتے اور اس نے غلطی ضرور کرنا تھی۔ اس نے جو غلطی کی وہ بہت بنیادی نوعیت کی تھی جبکہ اپنی طرف سے اس نے بڑی چالاکی کی تھی۔‘

پولیس کے مطابق موبائل فون استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ہی ملزم اتنے روز بچا رہا تھا اور جیسے ہی اس نے موبائل فون چوری کیا تو وہ فوراً ریڈار پر آ گیا یعنی یہ پتہ لگانا آسان ہو گیا کہ وہ کہاں موجود تھا اور اس کا رخ کس طرف تھا۔

پولیس افسر کے مطابق عابد ملہی رات کے اندھیرے میں فیصل آباد میں واقع اپنی اہلیہ کے بھائی کے گھر کی دیوار پھلانگ کر چوروں کی طرح داخل ہوا اوراس کے سوتے میں موبائل فون چوری کر کے فرار ہو گیا۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’وہ اس لیے چوری چھپے اس کے گھر میں داخل ہوا کہ اسے ڈر تھا کہ اگر اس نے اپنے سالے سے بات کی تو ہو سکتا ہے وہ پولیس کو اطلاع دے کر اسے پکڑوا دے۔‘

موبائل چوری کے بعد وہ پولیس کی نظر میں کیسے آیا؟

پولیس افسر کے مطابق جب ملزم کی اہلیہ کے بھائی کو موبائل چوری ہونے کا علم ہوا تو اس کا شک عابد ملہی ہی کی جانب گیا۔ اس نے پولیس کے ایمرجنسی نمبر پر اطلاع دی۔

افسر کے مطابق ہر ایمرجنسی کال لاہور میں قائم سیف سٹی اتھارٹی کے کنٹرول روم میں بھی رجسٹر ہوتی ہے۔ ’وہاں سے ہم نے موبائل فون کی مدد سے اس کی لوکیشن کو ٹریک کرنا شروع کر دیا تھا۔‘

عابد ملہی نے اس موبائل فون کے ذریعے مانگا منڈی میں اپنے والد سے رابطہ کیا۔ پولیس کے مطابق اس کے حالات انتہائی خراب تھے۔ اس کے پاس کھانے پینے کے پیسے بھی ختم ہو چکے تھے اور وہ گھر جانا چاہتا تھا۔

پولیس افسر کے مطابق ملزم اگلے روز جب مانگا منڈی اپنے گھر پہنچا تو اس کے والد نے پولیس کی ہدایات کے مطابق سی آئی اے پولیس کو اطلاع دے دی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس کی لوکیشن سے آگاہ تھی۔ جس کے بعد اسے گرفتار کر کے سی آئی اے پولیس سٹیشن منتقل کر دیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp