ڈاکٹر عبدالسلام کا نوبیل انعام یافتہ الیکٹرو ویک نظریہ: کائنات کے ابتدائی مراحل کا احاطہ کرنے والی تھیوری کیا تھی اور یہ کیوں اہم ہے؟


پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوبیل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے علمِ طبیعیات کے میدان میں ایک نظریہ قریباً 50 برس قبل پیش کیا تھا۔ طبیعات کے میدان میں اس کی حیثیت اس قدر کلیدی ہے کہ آج بھی اسے نصاب میں معمول کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔

ان کا نظریہ الیکٹرو ویک تھیوری بعد میں سلام وینبرگ ماڈل کے نام سے جانا گیا۔ اس کی جدید شکل کو آج سٹینڈرڈ ماڈل کا نام دیا جاتا ہے۔ سٹیون وین برگ وہ امریکی سائنسدان ہیں جنھیں سنہ 1979 میں اس نظریے کے لیے ڈاکٹر عبدالسلام اور شیلڈن لی گلاشو کے ہمراہ نوبیل انعام سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنے نظریے میں پہلی مرتبہ یہ دعوٰی کیا کہ کائنات میں پائی جانے والی چار بنیادی قوتوں میں سے دو یعنی ویک فورس یا کمزور نیو کلیائی طاقت اور الیکٹرومیگنٹزم یا برقی مقناطیسیت بنیادی طور پر ایک ہی قوت کی دو شکلیں ہیں۔

انھوں نے ان دو طاقتوں کو متحد کیا اور اسے الیکٹرو ویک قوت کا نام دیا۔ ان کی اس دریافت سے کئی نتائج برآمد ہوئے اور اس نے کئی سائنسی پیشن گوئیوں کو جنم دیا۔

ان میں سے ایک ان بنیادی ذرات کے حوالے سے تھی جو اس وقت تک دیکھے نہیں گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کائنات کیسے بنی؟ تخلیق کے پہلے سیکنڈ کے مزید شواہد

سٹیون ہاکنگ کی آخری تحقیق: کائنات ایک نہیں ان گنت ہیں

نوبیل انعام یافتہ 30 برس تک نظراندازکیوں؟

پاکستان میں ماہرِ علم طبیعات پروفیسر پرویز ہود بھائی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کے نظریے کو طبیعات کے میدان میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

’ان دو قوّتوں کو متحد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے یہ ثابت کیا کہ ریاضی کے نقطہ نظر سے ان دونوں کی ساخت ایک جیسی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کام مانا گیا کیونکہ اس سے پھر طرح طرح کے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔‘

پروفیسر پرویز ہود بھائی کے مطابق ڈاکٹر سلام کے نظریے نے جن نتائج کو جنم دیا ان میں ایک انتہائی اہم یہ تھا کہ انھوں نے اس بات کی پیشن گوئی کی کہ ’کچھ ایسے ذرے ہیں جو بنیادی اہمیت رکھتے ہیں لیکن وہ اس وقت تک دیکھے نہیں گئے تھے۔‘

یہ ذرے اس دریافت کے پندرہ برس کے بعد دیکھے گئے جب ان کو یورپی ادارہ برائے ایٹمی تحقیق میں تلاش کیا گیا۔

کائنات

یہ ذروں اور قوتوں کا کھیل کیا ہے؟

کاسمولوجسٹ یا ماہرینِ علم کائنات یہ مانتے ہیں کہ کائنات ابتدا میں ذرات پر مشتمل روشنی اور قوت کا ایک انتہائی گرم مجموعہ تھا۔ پھر ایک بہت بڑا پھیلاؤ دیکھنے میں آیا جس سے کائنات کی حالیہ شکل کی طرف سفر کا آغاز ہوا۔

سائنسدانوں کے مطابق یہ بڑا پھیلاؤ ایل لمحے میں ہوا اور اس بنیادی پھیلاؤ کے عمل کو بگ بینگ کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کے ذریعے سورج، چاند، ستارے، سیارے اور دیگر اجرام فلکی کے وجود پانے کی وضاحت کی جاتی ہے۔

اس نظریے کی بنیاد زیادہ تر علمِ کائنات کے مشاہدات میں ہے اور سائنس ثبوت مانگتی ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا نظریہ ہمیں کائنات کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟

علمِ طبیعات کی ایک شاخ کو پارٹیکل فزکس کہا جاتا ہے جو بنیادی جوہری ذرات کی بناوٹ اور خصوصیات سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے ماہرین انہی سائنسی ثبوتوں کی تلاش کرتی ہیں جن سے کائنات کے وجود اور اس میں پائی جانے والے اجرام اور زندگی کی تخلیق کی وضاحت کی جا سکے۔

ڈاکٹر عبدالسلام ان ہی سائنسدانوں میں سے ایک تھے۔ پروفیسر پرویز ہود بھائی کے مطابق کاسمولوجی کے میدان میں اتحاد کے اس نظریے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور یوں ہم جان سکتے ہیں کہ کائنات کے ابتدائی لمحات کس طرح گزرے تھے۔

’اس میں کس قسم کے ذرات تھے اور کیا درجہ حرارت تھا اور پھر جو مختلف عناصر ہیں جو بعد میں بنے وہ اس مقدار میں کیوں بنے جن کا آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔‘

بنیادی ذرات کیا ہیں، کسے وجود دیتے ہیں؟

ڈاکٹر عبدالسلام کے نظریے کو علمِ طبیعات میں کلیدی مقام کیوں حاصل ہے، اس کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ یہ بنیادی ذرات اور بنیادی قوتیں ہیں کیا اور ان کا کائنات اور اس کی تخلیق سے کیا تعلق ہے۔

سائنس کے مطابق ہمارے ارد گرد موجود تمام مادہ بنیادی ذرات سے بنا ہے یعنی یہ بنیادی ذرات مادہ کے تعمیری بلاک ہیں۔ یہ دوسرے ذرات کو وزن دیتے ہیں۔

اس کی مثال اس طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک کھڑی ہوئی ٹرین کو اگر آپ اپنی جگہ سے ہلائیں گے تو آپ کو اس کا وزن محسوس ہو گا۔ یہ وہ وزن ہے جو اس کو بنانے والے بنیادی ذرات نے اس کو دیا۔ لیکن اب سوال یہ تھا کہ ان بنیادی ذرات کو اپنا وزن کہاں سے ملا؟

اس سوال کا جواب ہمیں آگے جا کر ڈاکٹر عبدالسلام کے نظریے کی وضاحت میں ملے گا۔ پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ بنیادی قوتیں کیا ہیں؟

کائنات میں موجود چار بنیادی قوتیں ہیں کیا؟

پروفیسر پرویز ہود بھائی اس کی وضاحت ایسے کرتے ہیں کہ ’ہم اپنی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ چار بنیادی قوتیں ہیں جن کی ہم الگ الگ شناخت کر سکتے ہیں۔ ان کو پھر ہم مختلف مساوات میں بند کرتے ہیں اور ان سے جو پیشن گوئیاں ہیں ان کی ہم مطابقت دیکھتے ہیں تجربے کے ساتھ۔‘

یہ طاقتیں بنیادی ذرات کو چلانے کی ذمہ دار ہیں۔ ان میں سے ایک کو تو آپ کششِ سکل کے نام سے جانتے ہیں۔

باقی تین میں الیکٹرومیگنٹزم، اسٹرانگ فورس اور ویک یا کمزور طاقت بتائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر سلام اور وینبرگ ماڈل اور اس کی جدید شکل سٹینڈرڈ ماڈل ان تین قوتوں اور بنیادی ذرات کے تعلق کی بہترین وضاحت پیش کرتا ہے۔

یہ تین قوتیں ایسے ذرات کے تبادلے سے جنم لیتی ہیں جنھیں فورس کیریئرز یا قوت رکھنے والے ذرات کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کا تعلق جس گروہ سے ہے اسے ’بوسن‘ کہا جاتا ہے۔ کسی بھی مادے کے ذرات ایک دوسرے کے ساتھ ان ہی بوسن کے تبادلے کے ذریعے طاقت کی منتقلی کرتے ہیں۔

ان بنیادی طاقتوں کے میل جول سے کیا ہوتا ہے؟

پروفیسر پرویز ہود بھائی بتاتے ہیں کہ ’جب کائنات بنی تو اس وقت یہ چاروں قوتیں ایک قوت کے اندر ضم ہو گئی تھیں۔ جوں جوں کائنات پھیلتی چلی گئی تو ان میں فرق آتا چلا گیا۔‘

ہر بنیادی طاقت کا اپنا بوسن ہوتا ہے۔ ڈاکڑ عبدالسلام کے نظریے کے حوالے سے ہم یہاں ان میں سے دو ہی کو دیکھتے ہیں۔ الیکٹرومیگنیٹک کو فوٹون اٹھا کر چلتا ہے جبکہ کمزور قوت کو جو بوسن اٹھا کر چلتے ہیں انھیں ’ڈبلیو‘ اور ’زیڈ‘ کہا جاتا ہے۔

کمزور نیوکلائی قوت کے کام کرنے کی حد بہت محدود ہوتی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسے بہت بڑے ذرات اٹھا کر چلتے ہیں۔ اور یہ کہ یعنی ڈبلیو اور زیڈ بوسن کا تو وزن تھا لیکن فوٹون کا کوئی وزن نہیں تھا۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے ان دونوں قوتوں کو یکجا کیسے کیا؟

ڈاکٹر عبدالسلام نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اگر چار ایسے ذرات موجود ہوں جو ’پیغام رساں‘ یا کیریئر ذرات ہوں۔ ان میں سے دو نیوٹرل ہوں اور دو برقی چارج رکھتے ہوں تو وہ الیکٹرو ویک اتحاد کو ممکن بنا سکتے تھے۔

اس طرح یہ معلوم ہوا کہ اس نظریے کا بنیادی توازن کسی ایسے لائحہ عمل میں پوشیدہ تھا جو کمزور نیوکلائی قوت کے تبادلے کے دوران منتقل ہونے والے ذرات کو تو وزن دیتا تھا مگر الیکٹرومیگنیٹک تبادلے کے دوران فوٹون کو وزن نہیں دیتا تھا۔

ہگز بوسن

ان کی پیش گوئی کتنی اہم تھی؟

ڈاکٹر عبدالسلام اور وینبرگ کے نظریے میں پیش گوئی کی گئی کہ ایک ایسی اضافی فیلڈ یا میدان موجود ہے جو نظر نہیں آتا مگر پوری خلا میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے ساتھ تامل یا میل جول سے ذرات کو وزن ملتا ہے۔

اس میں ہمارے اس سوال کا جواب بھی موجود ہے کہ بنیادی ذرات جن سے دوسرے ذرات بنتے ہیں یا وزن لیتے ہیں، ان کا اپنا وزن کہاں سے آتا ہے یا وہ کیسے بنے۔

اس وقت تک نہ دیکھے جانے والی اس فیلڈ یا میدان کو بعد میں ہگز بوسن کے نام سے جانا گیا اور اس کو اٹھا کر چلنے والے ذرے کو ہگز پارٹیکل کہا گیا جو اس نظریے کو پیش کرنے والے سائنسدان پیٹر ہگز کے نام سے منسوب ہے۔

ہگز بوسن کیا ہے؟

پروفیسر پرویز ہود بھائی کے مطابق ہگز نے سنہ 1964 میں ایک مضمون لکھا تھا جو الیکٹرو ویک تھیوری کے ضمن میں نہیں تھا۔

‘بس وہ ایک عجوبہ تھا کوانٹم فیلڈ تھیوری کے مضمون میں کہ ذرات کو وزن دیا جا سکتا ہے۔ سلام اور وائینبرگ نے اس کام کا اطلاق ویک اور الیکٹرومیگنیٹک تامل پر کیا۔’

پروفیسر ہود بھائی کے مطابق ان دونوں نے یہ لکھا کہ یہ بوسن موجود ہے تاہم ان کا نظریہ یہ نہیں بتا سکا کہ وہ کتنا بھاری ہو گا اس لیے اسے تجرباتی طور پر ڈھونڈنا پڑا۔

ہگز فیلڈ دوسرے بنیادی ذرات کی فیلڈ سے اس طرح مختلف تھی کہ اس کا حجم تو تھا مگر اس کی کوئی سمت نہیں تھی۔ اسی طرح باقی ذرات کے برعکس اس کے ذرے یعنی ہگز بوسن کی گردشی قدر صفر تھی۔

اس کی ایک غیر معمولی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی طاقت اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب اس کی فیلڈ کی قدر صفر ہو۔

اس نے کائنات کی ابتدا کے سوال میں کس بات کی وضاحت کی؟

ہگز بوسن نظریے کے مطابق تمام بنیادی ذرات کو اس وقت وزن ملا جب انھوں نے ہگز فیلڈ کے ساتھ تامل کیا اور یہ اس وقت ممکن ہوا تھا جب کائنات ٹھنڈی ہوئی اور ابتدائی بڑے پھیلاؤ یا بگ بینگ کے بعد اس میں موجود قوت کم ہوئی۔

بنیادی مادی ذرات کے مختلف اوزان بھی اس وجہ سے ہیں کہ انھوں نے مخلتف قوت کے ساتھ ہگز فیلڈ کے ساتھ تامل کیا۔

اس نظریے نے ڈاکٹر عبدالسلام کے اس نظریے کی بھی وضاحت کی کہ ویک فورس کے بوسن ڈبلیو اور زیڈ کیوں وزنی تھے جبکہ الیکٹرومیگنیٹک فورس کے فوٹون کا کوئی وزن نہیں تھا۔

‘یہ ڈاکٹر عبدالسلام ہی کا کام تھا’

سنہ 2012 میں یورپی ادارہ برائے ایٹمی تحقیق میں سائنسدانوں نے ہگز بوسن کی تلاش کے لیے ایک بہت بڑا تجربہ کیا اور لارج ہیڈروں کولائیڈر نامی سنٹر پر سائنسدانوں نے یہ دعوٰی کیا کہ انھیں ایسا اشارہ موصول ہوا تھا جو ہگز بوسن سے مطابقت رکھتا ہے۔

یہ نظریہ کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اور اس سے کئی نتائج برآمد ہوئے جن میں ایک اس سوال کی وضاحت بھی تھی کہ کائنات ایک لمحے میں کیسے پھیلی اور پھر اس کا مزید پھیلاؤ کیسے ممکن ہوا۔

پروفیسر پرویز ہود بھائی کے مطابق کائنات کے وجود کے بیانیے میں موجود ہزاروں چیزوں میں سے یہ صرف ایک چیز ہے۔ تاہم یہ ڈاکٹر عبدالسلام اور وائینبرگ ہی کا کام تھا جس کے ذریعے ہگز پارٹیکل دیکھا گیا اور دریافت ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp