مشیگن ’سازش‘: امریکہ میں ملیشیا گروہ کا ’گورنر کو اغوا کرنے اور تخت الٹنے کا منصوبہ‘ ناکام بنا دیا گیا


ملیشیا
امریکہ کے تفتیشی ادارے ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ مشیگن میں ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی گورنر گریچین وہٹمر کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی میں شامل چھ افراد کا تعلق مسلح ملیشیا گروہ سے ہے۔

عدالیت میں پیش کی گئی دستاویز کے مطابق قانون نافذ کرنے والے خفیہ ذرائع نے جون میں ڈبلن میں ایک اجلاس میں شرکت کی، جہاں مشیگن کے ایک ملیشیا گروپ کے اراکین نے ’ریاستی حکومتوں کے تخت الٹنے‘ پر تبادلہ خیال کیا، کیونکہ ان کے خیال میں ’ریاستی حکومت امریکی آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔‘

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ متعدد اراکین نے ’ظلم کرنے والوں‘ کو قتل یا موجودہ گورنر کو اغوا کرنے کے بارے میں بات کی تھی۔

واضح رہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے اپنی ریاست میں سخت اقدامات نافذ کرنے کے بعد گریچین وہٹمر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

چین اور امریکہ: تجارتی جنگ، سفارتی جنگ اور پھر اس کے بعد؟

امریکہ میں چین کے چار فوجی افسران پر فرد جرم عائد

ٹرمپ پر لکھی ہر کتاب پڑھی، جو سیکھا آپ بھی جانیے

روس، چین اور ایران امریکی انتخابات میں کس کی فتح کے خواہش مند

تو سوال یہ ہے کہ ملیشیا گروپ سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ کون ہیں، ان کے کیا نظریات ہیں اور قانون اس بارے میں یہ افراد کیا کہتے ہیں؟

ملیشیا گروپ کیا ہیں؟

اس اصطلاح کی ایک پیچیدہ تاریخ ہے۔

ملیشیا ایکٹ 1903 کے نتیجے میں نیشنل گارڈ کو فوج کے ایک دستے کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ نیشنل گارڈ کا انتظام ہر ریاست وفاق سے ملنے والے فنڈ کے ذریعے چلاتی ہے۔

ان کی تعریف ’غیر منظم ملیشیا‘ کے نام سے کی جاتی تھی اور اس میں 17 سے 45 سال کی عمر کے ایسے مرد شامل تھے جو کسی فوج یا گارڈ کا حصہ نہیں۔

آج نیشنل گارڈ سماجی سطح پر کام کرتا ہے اور ہر گورنر انھیں اپنی ریاست میں موسمیاتی ایمرجنسی، یا شہری بدامنی جیسے حالات کی صورت میں تعینات کر سکتا ہے، جیسے کہ اس سال پولیس کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران کیا گیا۔

اس کے مقابلے ملیشیا گروپ کسی حکومتی عہدیدار کو رپورٹ نہیں کرتے اور بہت سارے واضح طور پر حکومت مخالف جذبات کے اردگرد منظم ہوتے ہیں۔

سدرن پوورٹی لا سینٹر(ایس پی ایل سی) نامی ایک تنظیم امریکہ میں موجود ملیشیا گروہوں کو حکومت مخالف تحریک کا ’مسلح گروہ‘ قرار دیتی ہے۔

گریچین وہٹمر

یہ ملیشیا گروہ فوجی مشقیں اور بندوق کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور عام طور پر وفاقی حکومت سے متعلق سازشوں پر یقین رکھتے ہیں۔

وہ امریکی آئین میں اسلح رکھنے سے متعلق حقوق کی حفاظت پر زور دیتے ہیں۔

ایس پی ایل سی کے انٹیلیجنس پروجیکٹ کی ڈائریکٹر ہیدی بیریچ میلیشا تحریک کو امریکہ میں پیدا اور پروان چڑھنے والی تحریک کے طور پر بیان کرتی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ ملیشیا گروپ امریکہ کے انقلابی دور کو بہت ’رومانوی‘ انداز میں دیکھتے ہیں اور برطانوی راج سے لڑنے والی نو آبادیات کو پسند کرتے ہیں۔

’آئی آئی آئی پرسینٹ‘ نامی ایک ملیشیا گروپ خود کو ایک ایسے اتحاد کے طور پر بیان کرتا ہے جس کا مقصد عوام کو ’بیرونی اور اندرونی دشمن ‘ سے محفوظ رکھنا ہے۔‘

اس گروپ کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ’ایسے مواقع پر جب حکومت اپنے خلاف عمل درآمد کرنے والوں پر طاقت کا استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو پھر یہ لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حکومت سے اپنے ملک کا دفاع کریں۔‘

امریکہ میں دوسرے ممالک کے برعکس ملیشیا کی نوعیت پر ہیدی پیریچ کا کہنا ہے کہ جب ’ایک بری وفاقی حکومت کے سازشی نظریات‘ کی بات آتی ہے تو امریکہ میں ان گروہوں کے انقلابی ماضی نے انھیں مزید منفرد بنا دیا ہے۔

ملیشیا

وہ کس بات پر یقین رکھتے ہیں؟

ہیدی پیریچ کہتی ہیں ان کا سب سے پہلا ایجنڈا دوسری ترمیم کا تحفظ ہے۔

’یہ وہ تنظیمیں ہیں جو یقین رکھتی ہیں کہ ان سے ہتھیار لینے کے لیے سازشیں ہو رہی ہیں۔‘ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ملیشیا سفید فام بالادستی کی تحریک جیسی نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر وہ سفید بالادستی کی وکالت نہیں کرتے، اگرچہ ان کے کچھ نظریات ایک جیسے ہیں۔

بیریچ کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ملیشیا کی تحریک نے امیگریشن مخالف خیالات کی جگہ لے لی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ان خیالات نے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کی پیشگوئی کی لیکن ان کی انتخابی جیت نے اس تحریک کو تقویت بخشی۔

اگرچہ یہ گروہ ہمیشہ وفاقی حکومت سے نفرت کرتے ہیں لیکن وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے کافی بڑے ’فین‘ ہیں تو یہ عجیب صورتحال ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن سوچتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی گہری ریاستی سازش ہے۔

احتجاج

گورنر ویٹمر نے رواں ہفتے اپنے خلاف سازش پر بات کرتے ہوئے صدر ٹرپ پر ’خوف، نفرت اور تفرقہ پھیلانے والوں کو سکون فراہم کرنے‘ کا الزام عائد کیا ہے۔

تاہم صدر ٹرمپ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ شکریہ کے مستحق ہیں کیونکہ وفاقی تفتیش کاروں نے ان کے خلاف مبینہ دھمکی کا خاتمہ کیا۔

بیریچ کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں میں سفید بالادستی کے حامی افراد نے کھلے عام کام کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ ماضی میں نایاب تھا۔

مثال کے طور پر ’آئی آئی آئی پرسینٹ‘ کے اراکین سنہ 2016 میں ورجینیا کے شارلٹس وِل میں دائیں ہاتھ کی ریلی میں شامل ہوئے تھے۔

بیریچ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک زہریلا مرکب ہے جس کے بارے میں ہمیں فکر مند ہونا چاہیے۔‘

اور اس ہفتے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے کہا ہے کہ سفید بالادستی کے حامی انتہا پسند امریکہ کے لیے ’گھریلو دہشت گردی کا سب سے مہلک خطرہ ہیں۔‘

اس رپورٹ میں ستمبر میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹفر رے کی گواہی کی گونج بھی سنائی دی، جس کے مطابق زیادہ تر سفید فام بالادستی کے حامی ’نسل پر مبنی پُرتشدد انتہا پسندی‘ کا ایک بڑا حصہ گھریلو دہشت گردی کا سب سے بڑا خطرہ ہیں۔

امریکہ میں ملیشیا گروہ کتنی تعداد میں؟

جب بھی کیپٹل ہل میں ہتھیاروں پر پابندی کی بات ہوئی ہے تو ملک بھر میں ملیشیا کی رکنیت بڑھی۔

سنہ 2019 میں ایس پی ایل سی نے 576 انتہائی حکومت مخالف گروہوں کی نشاندہی کی جو سرگرم تھے۔ ان گروہوں میں 181 ملیشیا تھے۔ چونکہ یہ تنظیمیں انتہائی خفیہ رہ سکتی ہیں، تو یہ تعداد ممکنہ طور پر کم ہے۔

بیریچ کے مطابق اوباما کے دور میں یہ تعداد انتہائی تیزی سے بڑھی۔ ’اوبامہ بمشکل ہی کبھی اس معاملے پر بولے لیکن وہ (ملیشیا) انھیں ایک خطرہ سمجھتے تھے۔‘

بیریچ کے مطابق ایسی ہی صورتحال ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر بل کلنٹن کے دور میں بھی ہوئی۔ ملیشیا تحریک ڈیوکریٹک کے برعکس ریپبلیکن پارٹی کو گن قوانین کی محافظ سمجھتی ہے۔

سنہ 2008 میں ریپبلیکن پارٹی کے صدر جارج ڈبلیو بش کے اقتدار کے آخری برس ایس پی ایل سی نے 149 حکومت مخالف گروہوں کی نشاندہی کی۔

اگلے برس ڈیموکریٹک صد اوباما کے دور میں یہ تعداد 512 ہو گئی جبکہ سنہ 2012 میں یہ تعداد 1360 ہو گئی۔

کیا یہ قانونی ہے؟

جی ہاں۔ لیکن یہ ریاست پر منحصر ہے جہاں ملیشیا واقع ہے۔ تمام ریاستوں کے پاس نجی فوجی سرگرمی پر پابندی کے قوانین موجود ہیں لیکن جب نیم فوجی یا ملیشیا تنظیم سازی کی بات کی جاتی ہے تو اس میں فرق ہوتا ہے۔

بیرچ کہتی ہیں کہ بندوق رکھنے والے افراد کے بارے میں امریکہ میں بہت کم اصول موجود ہیں۔

’ان میں سے بہت سے فوجی تربیتی مشقوں کو دوسری ترمیم کے ساتھ اپنے حق کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسلحہ رکھنے کے اپنے حق کو استعمال کرتے ہیں۔‘

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق 25 ریاستیں اس طرح کی نیم فوجی سرگرمی کو جرم قرار دیتی ہیں، جس سے اسلحہ یا دھماکہ خیز مواد استعمال کرنے کی تعلیم دینا غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے۔

28 ریاستوں میں حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر نجی ملیشیا پر پابندی کے قوانین موجود ہیں۔

مس بیریچ کہتی ہیں ’تمام ملیشیا ایک طرح کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتے۔‘

’اگر لوگ ریاستوں میں دوسری ترمیم کے تحت اپنے آئینی حقوق کو استعمال کرنے میں مصروف ہیں جو ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد نہیں کرتے ہیں تو، انھیں اس میں شامل ہونے کا پورا حق ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp