آگہی کا عذاب


”بازار اور دفاتر کھل گئے ہیں، لیکن کرونا کا خطرہ ابھی ہے۔“ حالات سے زیادہ گمبھیر آواز میں چلتا پیغام اس کے اعصاب پہ ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا۔ اس نے جھنجھلا کر کال کاٹ دی۔

اس کے اعصاب شدید کشیدہ تھے۔ دل کی دھڑکن پہ توجہ جاتی تو لگتا کہ شاید اگلی دھڑکن سنائی ہی نہ دے گی۔ وہ موبائل اسکرین پہ نظر جمائے بیٹھی تھی، جو یوں ہلکورے کھاتی لگ رہی تھی، جیسے وہ کشتی یا ٹرین میں بیٹھی ہو۔ لیکن اسے پتا تھا کہ اسکرین نہیں ہل رہی بلکہ یہ صبح سے بھوکے ہونے کا اثر ہے۔ اس نے انگشت شہادت کو موبائل کی پشت پہ بنے فنگر پرنٹ پینل پہ رکھا، اسکرین ان لاک ہوتے ہی، اس نے کووڈ 19 کی ایپ کو چھونے کی کوشش کی، لیکن انگوٹھا اوپر والی ایپ پہ جا لگا۔

ایپ بند کرنے کی کوشش میں ایک کے بعد دوسری ایپ کھلتی چلی گئی۔ اسے لگ رہا تھا، جیسے اسے موبائل استعمال کرنا ہی نہیں آتا۔ دماغ یوں ماؤف تھا کہ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا، کیسے پے در پے کھلتی ایپس کو بند کرے اور مطلوبہ ایپ کھولے۔ اس نے ایک لمحے کو رک کے آنکھیں بند کیں۔ اسے اپنا سر واضح طور پر چکراتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ اس نے دو تین گہری سانسیں لیں آنکھیں کھول کر ساری کھلی ایپس بند کیں اور دھیان سے کووڈ 19 کی سرکاری ایپ کھولی۔

اس میں ہر کیٹیگری میں اعداد ہی اعداد تھے۔ متاثرہ بھی اعداد۔ بچ جانے والے بھی اعداد۔ مر جانے والے بھی اعداد اور وہ ان اعداد میں بھی مطلوبہ نام ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے کچھ ہی دیر میں اپنی حماقت کا احساس ہو گیا، لیکن یہ حماقت تو وہ آج سیکڑوں بار کر چکی تھی۔ اس نے ایپ میں موجود اگلا آپشن چھوا۔ شہر کا نقشہ نظر آنے لگا، جہاں اس کے موبائل کی موجودگی ہرے دائرے میں دکھائی جا رہی تھی اور انگریزی میں لکھا آ رہا تھا کہ آپ محفوظ علاقے میں ہیں۔ یہ بھی وہ سیکڑوں بار دیکھ چکی تھی۔

صبح سے اب تک وہ چشم تصور سے کئی بار گھر میں حکومتی اہل کاروں کو گھستے دیکھ چکی تھی۔ کبھی اپنی اور گھر والوں کی لاشیں چپکے سے دفناتے دیکھتی، کبھی جسمانی اعضا نکال لیے جانے کے بعد لاشوں کو کچرے کے ڈھیر پہ پڑا دیکھتی۔

فاطمی اور اس کا شوہر فیروز، ایک سرکاری ادارے میں ملازم تھے اور وبائی حالات کے با وجود، روز خدمات انجام دینے دفتر جانے پہ مجبور تھے۔ وہاں روز ان کا واسطہ، کئی سو افراد سے پڑتا تھا۔

گرمی میں بہتے پسینے کے ساتھ ماسک اور دستانے مشقت کی تکلیف اور بڑھا دیتے تھے۔ ایک طرف ویسے ہی جراثیم کش ادویات کا خرچ بڑھ گیا تھا۔ ان کے نرخ کرونا کے ساتھ ساتھ بڑھ رہے تھے۔ پھر مرے پہ سو درے کے مصداق، یہ کہ سرکاری ادارہ ہونے کے باوجود دفتر میں سارے حفاظتی اقدامات کے اخراجات بھی ملازموں کو اپنی ہی جیب سے ادا کرنے تھے۔ روز کوئی نا کوئی پڑوسن، بازار کی سمت بھاگتی دکھائی دیتی کہ کل سے سب بند ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ وہ بھی بھاگ پڑتی۔

اس خوف سے اس نے کئی مہینوں کا راشن ایک ساتھ جمع کر لیا تھا۔ گھر کا ہر کونا کسی آفت زدہ علاقے کا امدادی کیمپ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ہر وقت کی ٹینشن تھی۔ جس سے جو ٹوٹکا پتا چلتا، اس کا ڈھیروں سامان لے آتی۔ میاں الگ ناراض تھا کہ ان گرمیوں میں اے سی نہ چلانے پہ بھی بجلی کا بل ہوش اڑائے دے رہا ہے۔ پہلے جو تھوڑی بہت بچت ہوجاتی تھی، اب اس کا امکان تو دور کی بات، ضروری خرچ پورے کرنے کے لیے بھی ادھر ادھر سے مانگ تانگ کے پورا کرنا پڑ رہا ہے۔

جولائی کے شروع ہونے تک وہ اتنا جھنجھلا چکی تھی کہ اب اس نے ماسک پہننا ہی چھوڑ دیا تھا۔ لیکن کرونا کی عفریت تھی کہ بجائے دور ہونے کے اور قریب آتی جا رہی تھی۔ کہاں تو مارچ کے پورے مہینے یہی شش و پنچ تھا کہ یہ وبا ہے بھی یا بس یونہی ذرا سے نزلے زکام کو ہوا بنا لیا ہے۔ پھر پتا چلا کہ انہی کے ادارے کے دوسرے شہروں کے ملازمین اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ پھر ان کے شہر کے ملازمین تک پہنچی، پھر عمارت تک، پھر ان کی منزل تک اور پچھلے ہفتے، اس کمرے تک بھی پہنچ ہی گئی، جہاں وہ بیٹھتی تھی۔

جب دو کی حالت بگڑی تو اس نے دوبارہ ماسک لگانا شروع کر دیا لیکن اوپر سے احکامات آئے کہ سب کے ٹیسٹ کروائے جائیں۔ تین دن پہلے کمرے میں بیٹھنے والے تمام ملازمین کے ٹیسٹ کروائے گئے تھے، جس میں سے دو یہ میاں بیوی تھے اور آج ان کی رپورٹیں آنی تھیں۔ گھبرا تو وہ پرسوں سے ہی رہی تھی لیکن آج اسے ہر لمحے لگتا تھا کہ سانس بند ہو جائے گی۔ کچھ ہی دیر بعد اسے سرکاری قرنطینہ لے جایا جائے گا، موبائل ایپ پہ اس کا گھر غیر محفوظ علاقے میں دکھایا جانے لگے گا۔ اعداد و شمار میں اس کا اور اس کے شوہر کا نام نظر آنے لگے گا۔ اسے پتا تھا یہ سب احمقانہ خدشے ہیں، لیکن اگر ٹیسٹ مثبت ہوا تو؟ اس سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ پھر بھی سوچ رہی تھی۔

کیا بچوں کو ان سے الگ کردیں گے؟ یا انہیں بھی ساتھ لے جائیں گے؟ کبھی سوچتی کہ جہاں بھی لے جائیں، ساتھ لے جائیں پھر سوچتی، ہمیں بھلے لے جائیں، ہمارے بچوں کو کچھ نہ کہیں۔ بچوں کو وہ اپنی امی کے گھر بھیج دے گی۔ ایسا نا ہو کہ بچوں کو کوئی انجیکشن لگا دیں۔

فاطمہ بے چینی سے کروٹیں بدلتی رہی۔ صبح دفتر جانے کا وقت ہوا تو جسم گرم محسوس ہونے لگا۔ اس نے بستر سے نکلنے سے پہلے ہی دراز میں رکھا ماسک منہ پہ لگا لیا اور خاموشی سے ناشتا بنانے میں لگ گئی۔ آدھے گھنٹے بعد فیروز بھی تیار ہو کر باہر آ گیا۔ اس نے ماسک ضرور دیکھا ہو گا، لیکن خاموشی سے ناشتے کرنے میں مصروف ہو گیا۔ اور یہ خاموشی اس کے اعصاب اور زیادہ کشیدہ کر رہی تھی۔ وہ چاہ رہی تھی کہ دونوں معمول کے مطابق بات چیت کریں، لیکن منہ کھولنا اور کچھ کہنا بھی دنیا کی سب سے بڑی مشقت لگ رہی تھی۔ فیروز نے ناشتا کر کے سامان اٹھایا تو بالآخر وہ بول پڑی:

”سنیں! آج آفس نہ جائیں۔“

”آفس نہ جانے سے اگر ٹیسٹ رپورٹ پہ کوئی اثر پڑے گا تو نہیں جاتا!“ فیروز نے جواب دے کر چند لمحے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا پھر اس کا گال تھپتھپا کر باہر نکل گیا۔

سارا دن تو جیسے تیسے کٹ گیا مگر چھٹی کے وقت سے لے کر گھر پہنچنے کے وقت تک کا وقفہ، اس کے لیے سب سے کٹھن ہو رہا تھا۔ پورا دن اس نے ایک بار بھی فیروز کو کال نہیں کی۔ اسے ڈر تھا کہ کوئی اجنبی آواز اسے یہ نہ بتائے کہ اس کے شوہر کو قرنطینہ میں لے گئے ہیں۔ لیکن موبائل مسلسل ہاتھ میں رکھے بیٹھی تھی۔ لاک اسکرین پہ آتی گھڑی کے سیکنڈز کے بدلتے ہندسوں پہ نظریں جم سی گئی تھیں۔ جونہی گھر پہنچنے کا وقت ہوا، اس کے اعصاب مزید کشیدہ ہوتے چلے گئے۔ ایک ایک بڑھتا سیکنڈ اس کے اعصاب کو مزید توڑ رہا تھا۔ ساٹھ سیکنڈ اتنے طویل ہو گئے، جتنا پورا دن بھی نہیں تھا اور ایک منٹ اوپر ہوتے ہی اس کی ہمت جواب دے گئی۔ فیروز کا نمبر ملا لیا۔ لیکن پیغام چلتا رہا، دوسری طرف سے کال اٹھائی نہیں گئی۔ پہلے جو خدشات دھیرے دھیرے ایک کے بعد ایک دل میں آرہے تھے، انہوں نے ایک دم ایک ساتھ یلغار کر دی۔

وہ اٹھ کر دروازے تک گئی اور اسے کھول کے گلی میں جھانکنے لگی۔ شعوری طور پہ وہ شوہر کو دیکھنا چاہتی تھی مگر لا شعوری طور پہ اسے ڈر تھا کہ کہیں کوئی پولیس یا اسپتال کی وردی والے نہ دکھ جائیں۔ ایک دو منٹ وہ یونہی باہر جھانکتی رہی، پھر دروازہ بند کر کے دروازے کے قریب بنے ستون کو تھام کر کھڑی ہو گئی۔

مزید ایک منٹ گزرنے کے بعد دروازے میں بنے انٹر لاک میں چابی گھومنے کی آواز آئی اور اگلے ہی لمحے فیروز اندر داخل ہوا۔ اس نے فاطمہ کی زرد ہوتی شکل دیکھی، پھر مسکرایا کر کچھ کہا۔ ایک لمحے کو جیسے وقت وہیں رک گیا کہ فیروز کے منہ سے الفاظ نکلے تو لیکن شاید فضا میں ہی کہیں منجمد ہو گئے اور اس کی سماعت تک پہنچے ہی نہیں۔ اس کے منہ سے قدرے بھاری غیر مانوس سے آواز نکلی۔

”ہنہ!“ فاطمہ کو لگ رہا تھا کہ اگر اس نے وہ سن لیا، جو فیروز نے بتایا، اور وہ وہی ہوا، جو وہ نہیں سننا چاہتی، تو اس کا دل ابھی کے ابھی رک جائے گا۔

”رپورٹس کلیئر ہیں“ فیروز نے اپنی بات دہرا دی۔
اسے لگا یا تو اس نے غلط سنا یا فیروز اسے جھوٹی تسلی دے رہا ہے وہ وہیں زمین پہ بیٹھتی چلی گئی۔
فیروز اپنا سامان ایک دم ہی دروازے کے پاس رکھ کر اسے سنبھالنے کے لیے آگے بڑھا۔
”آپ مجھے جھوٹی تسلی دے رہے ہیں؟“
فیروز نے نفی میں سر ہلایا پھر پلٹ کر سامان سے رپورٹس نکال کر ہاتھ میں تھما دیں۔

وہ کئی لمحے لفظ نیگیٹو پہ نظریں جمائے بیٹھی رہی۔ پھر سوچا، اٹھ کر شکرانے کے نفل پڑھے۔ وہ ستون کا سہارا لے کر اٹھی۔ دھیرے سے پیچھے سے دامن ٹھیک کیا۔ ساتھ ہی دو تین بار جھاڑا۔ چند قدم کمرے کی طرف بڑھی۔ پھر مڑ کر باورچی خانے میں رات کا کھانا پکانے گھس گئی۔ اسے پتا تھا، ابھی کئی بار اور اس خوف سے گزرنا ہے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima