ناگورنوکاراباخ میں جنگ بندی پر عمل درآمد نہ ہو سکا، بڑی جنگ کے خطرات منڈلانے لگے


ARMENIA-AZERBAIJAN Clashes

متنازع علاقے ناگورنوکاراباخ میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ بندی کے لئے روس کی کوششیں بار آور ہوتی ثابت نہیں ہو رہیں اور دونوں متحارب فریق بدھ کو ایک دوسرے پر تازہ حملوں کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔

ہفتے کے روز سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی نافذ العمل ہونا تھی، لیکن کوئی ایک فریق بھی سمجھوتے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس بڑھتی ہوئی لڑائی سے ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ یہ جنگ پھیل سکتی جس میں روس اور ترکی ملوث ہو سکتے ہیں اور بحیرہ کیسپئین کے راستے تیل کی برآمد کو متاثر ہو سکتی ہے۔

تنازعے کی بنیاد اور دیگر فوجی، جغرافیائی و سیاسی عوامل پر ایک نظر!

سوویت دور کے دوران ناگورنوکاراباخ آذربائیجان کے اندر ایک آزاد علاقے تھا، جس کی آبدی زیادہ تر آرمینیائی نسل کے لوگوں کی تھی۔ مسیحی آرمینیا اور زیادہ ترمسلمان آذربائیجان کے درمیان تاریخی لحاظ سے کشیدگی رہی ہے، جسے انیس سو پندرہ میں ترک عثمانیوں کی جانب سے پندرہ لاکھ آرمینیاؤں کے قتل عام کی یادیں مزید ہوا دیتی ہیں۔

انیس سو اٹھاسی میں ناگورنوکاراباخ نے آرمیینیا کے ساتھ الحاق کی کوشش کی، جس کے بعدوہاں لڑائی شروع ہو گئی جو کہ انیس سو اکانوے میں سویت یونین کے انہدام کے وقت ایک پوری جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ جب انیس سو چورانوے میں جنگ بندی ہوئی، تو اس وقت تک، تقریباً تیس ہزار لوگ ہلاک ہو چکے تھے اور دس لاکھ افراد بے گھر ہو گئے تھے۔ اس وقت آرمینیا کی افواج نے صرف ناگورنو کاباخ پر قبضہ کر لیا تھا بلکہ اس کی سرحدوں سے باہر بھی ایک بڑی علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

ناگورنو کاراباخ پہاڑی جنگلوں پر مشتمل چار ہزار چار سو مربع کللو میٹر پر پھیلا علاقہ ہے، جو کہ آرمینیا کی مدد سے خود اپنے امور چلاتا ہے

Armenia and Azerbaijan

امن کی ناکام کوششیں

جب سے آرمینیا کی افواج نے آذربائیجان کو شکست دی تب سے بین الاقوامی ثالث مسئلے کا کوئی سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آرگنائزیشن فار سیکیورٹی اینڈ کو آپریشن ان یورپ منسک گروپ کے زیر اہتمام روس، امریکہ اور فرانس نے مشترکہ طور پر ناگونوکاراباخ میں امن بات چیت کے لئے متعدد کوششیں کی ہیں لیکن آرمینیا کی جانب سے قبضہ کیے گئے علاقوں کو نہ چھوڑنے کی ضد، قیام امن میں سب س بڑی رکاوٹ ہے۔

تاہم اسی دوران، تیل سے مالامال آذربائیجان نے تیل کی فروخت سے حاصل کی گئی دولت کو اپنی افواج کو جدید ترین اسلحے سے لیس کرنے پر صرف کیا ہے، اور اب قیام امن کے لئے تین عشروں پر محیط ناکام کوشوں کے بعد، اس کا کہنا ہے کہ وہ قوت کے بل پر اپنے علاقے واپس لے گا۔

فوجی طاقت میں فرق

صورتحال یہ ہے کہ اس وقت آذربائیجان نے اپنی افواج کو ترکی کے فراہم کردہ جدید ترین لڑاکا ڈرونوں اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے متعدد اقسام کے راکٹوں سے مسلح کیا ہے، جبکہ ناگورنو کاراباخ کی علیحدگی پسند فورسز اور آرمینیا کی افواج کا سارا انحصار سویت دور کے اسلحے پر ہے۔

دو ہفتے سے زیادہ عرصے سے جاری لڑائی میں آذربائیجان نے واضح طور ناگورنوکاراباخ کی افواج پر برتری حاصل کی ہے اور انہیں دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ آذربائیجان کی افواج نے ناگورنو کاراباخ کے ارد گرد کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور اس کے قصبوں پر راکٹ برسائے ہیں اور گولہ باری کی ہے۔

آرمینیا کی افواج نے سویت دور کی توپوں، بی ایم ٹوینٹی ون راکٹ لانچروں اور متروک میزائلوں سے حملے کیے ہیں لیکن، ان میں آذربائیجان کے جدید اسلحے کی طرح ٹھیک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے اور تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

ترکی کا نیا کردار

ترکی پر الزام عائد ہو رہا ہے کہ وہ شامی لڑاکوں کو آرمینیا سے لڑنے کے لئے آذربائیجان بھیج رہا ہے، جو کہ اس کا پرانا اتحادی ہے۔ ترکی اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔ تاہم نیٹو کے رکن ترکی نے بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ وہ آذربائیجان کی اپنے علاقے واپس چھڑانے میں کھل کر مدد کرے گا۔ ترکی کے آذربائیجان سے تاریخی نسلی اور ثقافتی روابط ہیں۔

Presiden Turki Tayyip Recep Erdogan berpidato di Ankara, Turki, 4 September 2020. (Foto: Reuters)

متصادم اہداف

اگر آرمینیائی افواج ناگورنو کاراباخ میں شکست سے دوچار ہوتی ہیں، تو وہ سیاسی چال چلتے ہوئے، ناگورنوکاراباخ کو ایک آزاد علاقے کے طور پر تسلیم کرنے اعلان کر سکتی ہے، جو کہ اس نے ابھی تک نہیں کیا اور نہ ہی اس نے آذربائیجان کی فوج کو براہ راست چیلنج کیا ہے۔

آرمینیا کے پاس روس کے فراہم کردہ اہداف کو ٹھیک نشانہ بنانے والے اور زمین سے زمین پر مار کرنے والے طاقتور اسکندر میزائل موجود ہیں لیکن اس نے تاحال یہ طاقتور ہتھیار استعمال نہیں کیا۔ لیکن اگر آرمینیائی فوج کو ناگارنوکاراباخ میں پسپائی کا خطرہ ہوا تو وہ یہ طاقتور ہتھیار استعمال کر سکتی ہے۔

آرمینیا کے حکام نے ابھی تک آذربائیجان کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ نہ بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے، جس میں تیل کی پائپ لائن شامل ہے جو کیسپئین سے نکلنے والے تیل کو ترکی اور دیگر مغربی منڈیوں تک پہنچاتی ہے، لیکن اگر ناگورنو کاراباخ میں آرمینیا کو کونے ے سے لگایا جاتا ہے تو پھر شاید وہ اپنے ارادے تبدیل کر لے۔ اس پر آذربائیجان بھی رد عمل دکھائے گا۔

جولائی میں ہونے والی کشیدگی کے دوران آذربائیجان نے آرمینیا کے جوہری پاور پلانٹ کو اپنے جدید ترین میزائلوں س نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی، جس پر آرمینیا نے کہا تھا کہ ایسا اقدام نسل کشی ہو گا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa