مہنگائی: حکومت کے لیے اصل خطرہ


مسئلہ، مسائل کے انبار کا ہے اور نہ وسائل کے فقدان کا، بلکہ اصل مسئلہ ہے نیت، اہلیت اور ترجیحات کا۔ سونے پہ سہاگا، انتقامی نفسیات بھی۔ گزشتہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا، اس کے سامنے دو بڑے چیلنج تھے۔ ایک ملک میں چہار سو پھیلی دہشت کی فضا کا خاتمہ، دوسرا توانائی کے بحران پر قابو پانا۔ تسلیم کرنا چاہیے کہ گزشتہ حکومت بہت سی روایتی اور غیر روایتی مشکلات کے باوجود، ان امتحانات سے عہدہ برا ہونے میں کامیاب رہی۔

یہ کہنے میں بھی مضائقہ نہیں کہ اگر حکومت کے ماتحت ادارے، دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے میں کماحقہ تعاون نہ کرتے، تو تن تنہا حکومت یہ بار گراں اٹھانے میں ناکام رہتی۔ موجودہ حکومت کو بھی اپنی ابتدا سے، دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ یعنی ملک کی دگرگوں اقتصادی صورت احوال میں بہتری لانا اور ملک کو در پیش سنگین بیرونی خطرات سے نمٹنا۔ پچھلی حکومت بڑی حد تک اپنا ٹارگٹ صرف اس وجہ سے پورا کرنے میں کامیاب ہوئی کہ نا صرف اس کی سوچ میں یکسوئی تھی بلکہ وہ غیر ضروری سیاسی محاذ آرائی سے بھی احتراز کرتی رہی۔

موجودہ حکومت کو اس وقت ریاستی اداروں کی جتنی سپورٹ حاصل ہے، شاید ملکی تاریخ میں کسی سیاسی حکومت کو نہیں ملی۔ اس کے با وجود اس حکومت نے نا صرف خارجہ محاذ پر ناکامیاں سمیٹیں، بلکہ اقتصادی تنزلی، بازاروں کی ویرانی، افراط زر اور ملکی کرنسی کی بے توقیری کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمام وزیر اشتعال سے بھرے ہوئے ہیں۔ تمام وزرا بشمول وزیر اعظم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سرمایہ، افراتفری اور خوف کی فضا میں ٹھکانا چھوڑ جاتا ہے۔ یہاں کوئی روز ایسا نہیں گزرتا، جب انتقام سے بھر پور تقریریں سننے کو نہ ملیں یا ہنگامہ نہ دکھائی دے۔

حالانکہ اس حکومت کو جتنی کمزور اپوزیشن ملی، اس کی بھی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ اپوزیشن عوام کو یہ تک بتانے میں نا کام رہی کہ انقلابی زبانوں کی شعلہ افشانی کے باعث گروتھ ریٹ منفی سے بھی نیچے گر چکا ہے، جو صرف ڈھائی سال پہلے تک 8.5 فی صد سالانہ تھا اور تمام عالمی ریٹنگ ایجنسیاں توقع کر رہی تھی کہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل قائم رہا تو با آسانی ایک سال بعد یہ سات فی صد تک پہنچ سکتا ہے۔ یاد رکھیں ملکی آبادی میں اضافے کی شرح ہی سالانہ 3 فی صد کے لگ بھگ ہے، اس لیے گروتھ کی شرح منفی ہونا، کس قدر خوفناک بات ہے، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح اس وقت شرح سود چھے فی صد سے کم تھی، جو طویل عرصے تک تیرہ فی صد رکھی گئی۔ اس نے کاروبار کا امکان ہی بالکل ختم کر دیا۔ مہنگائی کی شرح پچھلی حکومت 2.3 پر چھوڑ کر گئی تھی، وہ بھی دہرا ہندسہ کراس کر چکی اور غذا کی مہنگائی تو بیس فی صد کی خوفناک سطح بھی کراس کر چکی ہے اور اس صورت احوال کے باعث محاورتا ہی نہیں، بلکہ حقیقتاً لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پابندی کے با وجود، صرف دو سال میں جتنے نئے نوٹ چھاپے گئے، اتنے نوٹ پچھلے پورے دور حکومت میں نہیں چھاپے گئے اور افراط زر بڑھنے کی یہ بھی بڑی وجہ ہے۔

بجلی کی قیمت میں صد فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا، گیس تین گنا بڑھ گئی سرکلر ڈیٹ میں روز بروز اضافہ بھی جاری ہے اور وہ بڑھ کر پچیس سو ارب کے لگ بھگ پہنچ چکا، جو کل محصولات کا نصف بنتا ہے۔ ایکسپورٹ کو سہارا دینے کے نام پر روپے کی قدر کو تاریخ ساز جھٹکا دیا گیا۔ ایکسپورٹ میں تو پھر بھی اضافہ نہ ہوا، لیکن مہنگائی کے تازیانے سے غریب عوام کی کمر ضرور ٹوٹ گئی۔ آج صورت احوال یہ ہے کہ ملک کے ہر کونے میں بازار سنسان پڑے ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہاں تک دیہاڑی دار، پرچون اور سبزی فروش طبقے کے کاروبار بھی مندی کا شکار ہیں۔

سب سے زیادہ قابل رحم بھی یہی دیہاڑی دار طبقہ ہے، کیوں کہ ان کے پاس کچھ پس انداز نہیں ہوتا، یہ لوگ روز کمانے اور روز کھانے والے ہیں۔ جس دن ان کی دیہاڑی نہ لگے ان کے لیے بچوں کا پیٹ بھرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ دن بھر کی محنت مشقت کے عوض جو معمولی رقم ملتی ہے، اسی سے گھر لوٹتے وقت، اپنے گھرانے کی ضرورت کے لیے انہیں راشن لے کر جانا ہوتا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ملک میں پیدا ہونے والے معاشی بحران سے، نا صرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ مہنگائی بھی آسمان چھونے لگی ہے۔

اس عرصے کے دوران میں پیٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ میں اضافہ ہوا ہی ہے، جس سے عوام کی زندگی اجیرن ہے ہی، مگر اشیائے خورد و نوش کی گرانی، سب سے بڑا سوہان روح ہے اور حالیہ دنوں میں آٹا جو پیٹ کا دوزخ بجھانے کے لیے لازم ہے۔ اس کی کم یابی اور گرانی غریب آدمی کے لیے کتنا بڑا مسئلہ ہے۔ یہ الفاظ میں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ آئے روز چند کلو آٹے کے حصول کے لیے قطار میں لگ کر پسینہ اور آنسو بہاتے لوگ دیکھ کر، سینہ کٹ کر رہ جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ اب بھی کسی حکومتی ذمہ دار کو احساس نہیں ہو رہا کہ غریب آدمی کی زندگی کس قدر اجیرن ہے، اور دیہاڑی دار طبقہ کس حال میں ہے؟ اپنی آئینی مدت کا بڑا عرصہ غیر ضروری محاذ آرائی میں ضائع کرنے کے بعد بھی وزرا کی دل چسپی اور توجہ کا تمام تر محور سیاسی مخالفین ہیں۔

حکومتی وزرا کو فکر ہے، تو صرف یہ کہ اپنے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد کو کس طرح گندا کیا جائے۔ اس سنگین صورت احوال میں بھی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، بلکہ الٹا اس کے وزیروں مشیروں کے بیانات بے حسی و سنگ دلی کا ساتھ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں۔ لغو بیان بازی اور بے ہودہ یاوہ گوئی کے علاوہ حکومتی ذمہ داران کے پاس نا اہلی کو جسٹی فائی کرنے کا کوئی جواز ہے اور نا ہی ملک کو گرداب سے نکالنے کی پالیسی۔

ہر سوال کا جواب وہی رٹا رٹایا ملتا ہے کہ ”شکر ادا کیا جائے کہ ورنہ حالات اس سے بھی بد تر ہو سکتے تھے“ ۔ معلوم نہیں، آخر اس مزید بد تر حالات کیا ہوں گے؟ دو سال بعد بھی معیشت میں بہتری نہیں آ رہی اور عوام کا معیار زندگی پہلے سے بد تر ہو رہا ہے، تو یہ موجودہ حکومت کی ہی نا کامی ہے اور وہی اب اس کی ذمہ دار ہے۔ معیشت اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی، جب تک اسے ترجیح نہیں بنایا جاتا، لیکن حکومت سمجھتی ہے کہ یہ کام اس کی ذمہ داری میں شامل نہیں، بلکہ اسے ووٹ صرف انتقامی نفسیات کی تسکین کے لیے ملا ہے، حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ عوام کا اصل مسئلہ بھوک اور بے روزگاری ہے۔

اب اپوزیشن احتجاج کے لیے نکل رہی ہے تو حکومت اسے بھی طاقت کے ذریعے روکنے کی سوچ میں ہے۔ حکومت اگر احتجاج سے نمٹنا چاہتی ہے، تو اسے سمجھنا چاہیے یہ کام انتظامی ہتھکنڈوں سے نہیں ہو گا، بلکہ اسے معیشت اور گورننس کے شعبوں میں ہنگامی بنیاد پر بہتری لانا پڑے گی۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب اس وقت عوام میں بہت بے چینی ہے۔ حکومت پہلے ہی بہت وقت برباد کر چکی ہے۔ اب اسے فی الفور اپنے سیاسی ایجنڈے کو جسے وہ احتساب کا نام دیتی رہی، پس پشت ڈال کر معاشی میدان پر مکمل توجہ مرکوز کر لینی چاہیے، ورنہ عوام میں موجود بے چینی کے سامنے اس کا مزید ٹھہرنا ممکن نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).