زینب الرٹ ایپ لانچ کر دی گئی جس سے گمشدہ بچوں کی رپورٹ اور بازیابی میں مدد ملے گی


            وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے مطابق وزارت انسانی حقوق اور پی ایم ڈی یو کے اشتراک سے زینب الرٹ ایپ لانچ کر دی گئی ہے جس کی مدد سے بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو فوری رپورٹ کیا جا سکے گا اور گمشدہ بچوں کی بازیابی میں بھی مدد ملے گی۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں 2018 میں زینب نامی بچی کی ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد حکومت کی جانب سے 2019 میں ’زینب الرٹ بل‘ کے نام سے ایک بل پیش کیا گیا اور اس کے مسودے میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی بچے کے اغوا یا اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کا مقدمہ درج ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر اس مقدمے کو مکمل کرنا ہوگا۔

یہی نہیں بلکہ یہ بل بچوں کی گمشدگی کے واقعات کو رپورٹ کرنے اور ان کی بازیابی کے لیے ایک نئے ادارے ’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی’ کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔ اس بل کی ایک شق کے مطابق حکومت ایسا سسٹم متعارف کروائے گی جس کے ذریعے گم شدہ بچوں کو ڈھونڈنے میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیے

قصور ریپ کیسز: عائشہ سے زینب تک

’آج کے غم کے نام‘

’زینب بیٹا مجھے کبھی معاف نہ کرنا‘

زینب الرٹ ایپ کیا ہے؟

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ٹیکنیکل ٹیم بی ایم ڈی یو کے سربراہ انس طارق نے بتایا کہ اس ایپ کو اس انداز میں بنایا گیا ہے کہ یہ عام شہری کو باآسانی متعلقہ اداروں تک جوڑ سکے گی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ایپ پاکستان سیٹیزن پورٹل کے ہی ایک حصے کے طور پر بنائی گئی ہے۔

ان کے مطابق اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی بھی بچہ گم یا اغوا ہو جاتا ہے یا پھر تشدد، زیادتی یا کسی بھی قسم کا کوئی نا خوشگوار واقعے کا شکار ہوتا ہے تو اس کو رپورٹ کرنے کے لیے شہری اس ایپ کو استعمال کر سکتے ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ شہری اس ایپ کو اپنا ذاتی کیس رجسٹر کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں اور اپنی سماجی ذمہ داری نبھانے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

زینب الرٹ ایپ کو استعمال کرنے کا طریقہ

اس اپب کو سیٹیزن پورٹل کے علاوہ موبائل فون میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس کے لیے صارف کو ایپ سٹور میں جا کر ’زینب الرٹ‘ کے نام سے یہ ایپ ڈاؤن لوڈ کرنی ہو گی۔

انس طارق کے مطابق اس ایپ میں وہ تمام فیچیر متعارف کروائے گئے ہیں جس کے ذریعے شہری اپنے اور بچے کے متعلق ہر قسم کی معلومات ایپ میں ڈال سکیں گے۔

اگر کوئی شہری ذاتی حیثیت میں کوئی واقعہ رپورٹ کرانا چاہتا ہے تو اسے ہر قسم کی دستیاب معلومات اس میں فراہم کرنا ہوں گی جس میں بچے کا نام، عمر، حلیہ وغیرہ وغیرہ سب مہیا کرنا ہوگا۔

انس طارق کے مطابق ’ہم نے اضافی معلومات کے لیے ایک خانہ دیا ہے اور کوشش یہی کی گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ معلومات لکھنے کے لیے جگہ رکھی جائے‘۔

دوسری جانب اگر کوئی بھی شہری سماجی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے کسی کیس کو رپورٹ یا اس کی معلومات دینا چاہتا ہے تو وہ ایپ میں دی گئی آپشن ’سماجی ذمہ داری‘ پر کلک کرے گا۔ جس کے بعد وہ واقعے سے متعلق ہر قسم کی معلومات درج کر سکے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ دو آپشنز ہم نے اس لیے دیے ہیں تاکہ ہمارے پاس ایپ میں ریکارڈ آئے کہ یہ شہری کا اپنا بچہ ہے یا وہ بطور ذمہ دار شہری یا کسی اور کی طرف سے واقعے کو رپورٹ کر رہا ہے‘۔

واقعہ رپورٹ ہونے کے بعد کیا ہوگا؟

ایپ یا پاکستان سیٹیزن پورٹل پر واقعہ رپورٹ ہونے کے فوری بعد شہری کے بتائے ہوئے علاقے کو دیکھا جاتا ہے کہ یہ واقعہ کس ڈسٹرکٹ میں پیش آیا ہے۔ جس کے بعد اس ڈسٹرکٹ کے ڈی پی او کے پاس رپورٹ ہونے والا کیس چلا جاتا ہے۔

’ہم نے ملک بھر کے تمام ڈی پی اوز کو ڈیش بورڈ فراہم کیے ہوئے ہیں اور وہ پہلے سے ہی یہ سسٹم استعمال کر رہے ہیں۔ اس ڈیش بورڈ میں یہ کیس رپورٹ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ڈی پی او کو اس کے موبائل فون پر بھی ایس ایم ایس موصول ہوگا جس سے اسے ذاتی طور پر معلوم ہو جائے گا کہ یہ کیس رپورٹ ہوا ہے۔ واقعہ رپورٹ ہونے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اس افسر کو رپورٹ ہونے والے کیس پر جواب دینا ہوگا‘۔

پولیس کا کردار

دیے گئے چوبیس گھنٹے کے وقت میں پولیس اس شخص سے رابطہ کرے گی جس کی جانب سے واقعہ رپورٹ کیا گیا ہے۔ جس کے بعد اگلا مرحلہ رپورٹ ہونے والے واقعے کی تصدیق کا ہوگا جس میں یہ معلوم ہو سکے گا کہ کیا واقعی ہی یہ واقعہ رونما ہوا ہے یا نہیں۔

اگر واقعے کی تصدیق ہو جاتی ہے تو پولیس اس واقعے کہ ایف آئی آر رجسٹر کرے گی۔ جس کے بعد کیس کی انکوئری کی جائے گی اور ایکشن لیا جائے گا۔ آخری مرحلہ کیس بند کرنے کا ہوگا۔ یہ اس وقت کیا جائے گا جب کیس کو کسی منتطقی انجام تک پہچا دیا جائے گا اور لاپتہ یا اغوا ہونے والا بچہ مل جائے گا۔

اگر پہلے مرحلے میں کوئی کیس جعلی نکلتا ہے تو پولیس اس کے جھوٹے ہونے کی تصدیق کرے گی اور کیس کو بند کر دے گی۔ اس بارے میں

انس طارق سے سوال کیا گیا کہ پولیس کے رویے کے بارے میں شہری کو اگر شکایت ہوتی ہے یا شہری پولیس کی تصدیق کے بعد بھی اگر یہ کہتا ہے کہ رپورٹ کیا گیا کیس سچا ہے تو اس صورت میں کیا کیا جائے گا؟

جس پر ان کا کہنا تھا کہ پولیس کا ڈیش بورڈ صرف ڈی پی او تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس کے اوپر آر پی او اور آئی جی تک بھی ہر کیس کی معلومات پہنچ رہی ہوتی ہیں جس کے تحت وہ مانیٹر کر سکیں گے کہ کس ڈسٹرکٹ میں کیا اپ ڈیٹ ہے۔

’اس کے علاوہ ہم بھی ایسے تمام کیسز کا جائزہ لیں گے کہ اگر کسی کیس کو فیک یا جعلی کہا جا رہا ہے تو اس کی کیا وجوہات ہیں‘۔

انھوں نے مزید بتایا کہ انسانی حقوق کی وزارت نے اداروں کو خط لکھ رکھے ہیں جن میں ایپ میں مزید بہتری لانے کے لیے تجویز دینے کا کہا گیا ہے۔ اس لیے ہم وقت کے ساتھ ساتھ اس ایپ میں تبدلیاں بھی لائیں گے۔

اگر کسی کو گم شدہ بچہ ملے تو وہ اس کی اطلاع کہاں کرے؟

زینب الرٹ ایپ میں ہر شہر کی ایک لسٹ دی گئی ہے جس میں ہر کیس سے متعلق معلومات بھی درج ہیں۔ ان لسٹوں میں زینب الرٹ ایپ یا پورٹل کے ذریعے درج ہونے والے کیسز کے علاوہ بھی پولیس کو ہدایات کی گئی ہیں کہ تھانوں میں درج ہونے والے بچوں سے متعلق کیسز کو بھی اپ لوڈ کیا جائے تاکہ اگر کوئی شخص کسی بھی جگہ کسی بچے یا واقعے سے متعلق معلومات یا اطلاع دینا چاہتا ہے تو وہ لسٹ میں سے کیس کو نکال کر بتا سکتا ہے کہ میں نے اس وقت، اس جگہ، اس حالت میں بچے کو دیکھا ہے۔

نہ صرف یہ بلکہ ایپ میں یہ آپشن بھی دی گئی ہے کہ اگر کوئی بچے کی تصویر کھینچ کر اپ لوڈ کرنا چاہے تو وہ بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس ایپ میں سوشل میڈیا پر شئیرنگ کی آپشن بھی رکھی گئی ہے تاکہ گم شدہ بچوں کو ڈھونڈنے میں مدد مل سکے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ یہ ایپ صرف پولیس کے ادارے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ’ہم ایدھی سینٹرز اور چائلڈ پروٹیکشن والوں کا ڈیٹا بیس بھی لے رہے ہیں تاکہ اسے بھی ہم اپنے سسٹم میں ڈال سکیں کیونکہ ان کے پاس بھی ایسے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے اس ایپ کو لانچ کرنے سے پہلے پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں استعمال کر کے دیکھا ہے جس کا رسپانس کافی اچھا آیا ہے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp