برطانیہ کی لاکھوں کلومیٹر طویل زیرِ زمین سرنگوں کے جال کا انکشاف


سنہ 2017 میں لینڈ رجسٹری کے شائع ہونے والے نئے ڈیٹا میں لندن میں زیرِ زمین مواصلات اور ابلاغ کے لیے چالیس لاکھ کلو میٹر طویل سرنگوں کا انکشاف ہوا جن میں اکثر محکمہ ڈاک، برٹش ٹیلی کام اور وزارتِ دفاع نے خفیہ طور پر تعمیر کرائی تھیں۔

سرد جنگ کے زمانے کی یہ پُر اسرار سرنگیں اور زیرِ زمین بڑی بڑی جگہیں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے، کئی دہائیوں سے حیران کن دلکشی کا باعث رہی ہیں۔ لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے تک حکام اس کے بارے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے، ان میں بہت ساری سرنگیں وزارتِ دفاع کی تھیں اور ان میں سے بیشتر کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔

سب سے زیادہ حیرت انگیز انکشاف یہ تھا کہ حکومت کے صدر دفتر 57 وائٹ ہال کے نیچے پوسٹ ماسٹر جنرل کی خفیہ سرنگ تھی۔ اسے کسی ایٹم بم کے حملے کے خطرے کی صورت میں حکومتی مشینری اور مواصلات کے نظام کو محفوظ رکھنے کے لیے تیار کیا گیا تھا، اور یہیں ایک ایسا محفوظ دفتر بھی تھا جسے ایک زمانے میں برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل نے استعمال کیا تھا۔

سنہ 2014 میں رافیل ہوٹلوں کی کمپنی نے وزارتِ دفاع سے 45000 مربع میٹر علاقے پر مشتمل ایک پرانی عمارت 35 کروڑ پاؤنڈز میں خریدی۔ برطانوی قانون کے مطابق پرانی عمارتیں قومی ورثہ ہوتی ہیں اس لیے ان میں ایک قانونی حد کے اندر رہتے ہوئے ہی تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ اس عمارت کا نام ’دی او ڈبلیو او‘ تھا، اب یہ جگہ لندن کی ایک عالیشان علامت کی حیثیت میں سنہ 2022 میں دنیا کے بہترین اور پرتعیش ہوٹل کے طور پر کھولی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

لندن ٹیوب میں کوک سٹوڈیو

لندن میں روبوٹس کی پریڈ

لندن کے دو بابے

چرچل کا سگار 12 ہزار ڈالر میں نیلام

تیس سے زیادہ سرنگ کے رستے اور درجن بھر سے زیادہ لِفٹیں، جو لندن کے کم آمدن ولے لوگوں کے ایسٹ اینڈ کے علاقے سے لے کر وائٹ ہال تک پھیلی زیر زمین سرنگوں کے لیے بنے ہوئی تھیں، یہ پوسٹ ماسٹر جنرل کی سرنگ کو خفیہ سرنگوں کے ایک جال سے ایسے ملاتی تھیں کہ ان کے رستے بالکل بلا روک ٹوک اور خاموشی سے کسی سرکاری عمارت یا ٹیلی فون ایکسچینج سے نکلتے تھے۔

ذرا فاصلے پر آگے چل کر ایٹم بم کے حملے سے محفوظ رکھنے والا ایک ٹیلیفون ایکسچینج جو کہ ہولبورن ہائی سٹریٹ کے نیچے ہے، اصل میں یہ سنہ 1940 کی دہائی میں ہوائی بمباری کی تباہی سے بچنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ سنہ 1960 سے لے کر سنہ 1980 کی دہائی تک دو سو سے زیادہ انجینیئروں کا ایک مرکزی دفتر تھا۔

ان دونوں سرنگوں پر مشتمل زیرِ زمین پناہ گاہ میں زاویہ قائمہ انداز میں چار اور سرنگوں کی توسیع کر کے اس میں بحرِ اوقیانوس کے آر پار سب سے پہلی ٹیلیفون کیبل کا ٹرمینل پوائنٹ بنایا گیا تھا اور اس میں اتنی جگہ تھی کہ اس میں سٹاف کے لیے ایک ریسٹورانٹ تھا، چائے پینے کی ایک جگہ تھی، گیم روم تھا اور ایک بار بھی تھا۔ اس جگہ بننے والی بار برطانیہ کی زمین میں گہری ترین بار کہی جاتی ہے، یہ چانسری لین کی ٹیوب سٹیشن کے نیجے سڑک کی سطح سے 60 میٹر زیرِ زمین واقع ہے۔

اب جبکہ دریافت ہونے والی ان گہری سرنگوں تک جانے کے لیے عام لوگوں کے لیے رستے نہیں ہیں، وائیٹ ہال کے نیجے ایک زیرِ زمین محفوظ کمرہ ہے جسے عام لوگ دیکھ سکتے ہیں اور جسے عام لوگوں کے لیے سنہ 1984 میں کھولا گیا تھا، یہ کیبنیٹ کا ’وار روم‘ تھا۔ ایک بات جو اب تک کوئی نہیں جانتا تھا، وہ یہ تھی کہ چرچل کے کمرے سے چھ کلو میٹر دور اندر اندر ہی بیتھنل گرین کے علاقے تک پیدل چلا جا سکتا تھا جہاں سڑک کے درمیان ٹریفک کے ایک جزیرے سے اس کا رستہ باہر نکلتا تھا۔

گائے شربسول، جنھوں نے لینڈ رجسٹری کے ڈیٹا کا نقشہ بنایا ہے اور سرنگوں کے رستوں کا سراغ لگا کر اپنے بلاگ پر شائع کیا ہے اور پھر اسی نام سے ایک مقبول کتاب شائع کی، خود ہولبورن کی سرنگ میں اپنی ریسرچ کے دوران کچھ ماہرین کی مدد سے نیچے گئے تھے۔

شربسول کہتے ہیں کہ ‘وہاں وقت حیرت انگیز طور پر ٹھہر گیا ہے، اپنی بناوٹ کے لحاظ سے ستر کی دہائی میں رکا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ زیرِ زمین ایک خلائی سٹیشن ہے جہاں سے سرنگیں کئی جانب جاتی ہیں جو اِس وقت گرد سے اٹی ہوئی مشینوں اور آلات سے بھری ہوئی ہیں جنھیں سرد جنگ کے دوران مواصلات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔’

شربسول کو ان سرنگوں کے نظام کے صرف ایک حصے تک رسائی ملی، لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہاں سرنگوں کا اس سے کہیں بڑا جال بچھا ہوا ہے۔

‘ہم جس تھوڑے سے حصے تک جا سکے اب وہ زیرِ استعمال نہیں تھا اگرچہ جب ہم وہاں نیچے گئے تو وہاں اب بھی بجلی اور روشنی کا نظام موجود تھا، اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کی آج بھی کسی حد تک دیکھ بھال ہو رہی ہے۔ وہاں کچھ جگہوں سے پانی رِس رہا تھا اور ہر جانب گرد ہی گرد تھی، لیکن زیادہ گہرائی میں سرنگیں شاید اب بھی استعمال کی جا رہی تھیں، ورنہ ان کے داخل ہونے کے رستوں پر دیواریں نہ چنی گئی ہوتیں۔’

براڈکاسٹر مارک اوونڈن جو کہ زیرِ زمین شہر نامی کتاب کے مصنف ہیں اور جو اِسی برس ستمبر میں شائع ہوئی ہے، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’لندن میں اس کی گلیوں اور سڑکوں کے نیچے دنیا کا سب سے پیچیدہ، مختلف اقسام کی سرنگوں کا بہت ہی خفیہ نیٹ ورک ہے جسے ماضی میں بہت اچھے طریقے سے استعمال کیا گیا ہے۔’

مارک اوونڈن کہتے ہیں کہ اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ صنعتی انقلاب کے دوران ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب لندن دنیا کا سب سے زیادہ مصروف اور جدید شہر بن گیا تھا۔ یہاں دنیا کے کسی بھی شہر کی نسبت زیرِزمین جگہ کو بہتر استعمال کرنے کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔

‘یہ شہر اتنا بڑا تھا کہ وہ اس کی مرکزی عمارتوں کو مسمار نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اس کے نیچے ایک شہر بنانا شروع کیا۔ اس میں ان دنوں میں اتنی زیادہ تعداد میں لوگ اتنے عرصے سے آباد رہے اور اس دوران سرنگیں بنانے کی ٹیکنالوجی بہت زیادہ بہتر ہو چکی تھی۔’

برطانیہ کے نقشہ بنانے کے ادارے ‘آرڈینینس سروے’ کی وجہ سے برطانیہ میں اس کی ایک ایک جگہ کے تفصیل کے ساتھ نقشے بنے ہوئے ہیں، ملک کی ایک ایک انچ زمین کو اوپر اور اندر سے تفصیل کے ساتھ ناپا گیا ہے، بہرحال یہ ابھی تک ایک ناقابلِ فہم معمہ ہے۔

پہلی مرتبہ یہ ادارہ زیرِ زمین اثاثوں کی مدد سے برطانیہ کے زیرِ زمین نیٹ ورک کا ایک تفصیلی نقشہ تیار کر رہا ہے۔

‘پراجیکٹ آئیس برگ’ جو کہ ‘کنیکٹڈ پلیسز کیٹاپلٹ،’ ‘برٹش جیولوجیکل سروے’ اور ‘آرڈینینس سروے’ کے باہمی اتحاد کا نام ہے، لندن کا زیرِ زمین نقشہ تیار کر رہا ہے جس میں سرنگوں کے متعلق اطلاعات، جیولوجیکل ریکارڈ اور زیرِ زمین مختلف یوٹیلیٹیز کے نقشے بھی شامل ہیں۔ ان میں پندرہ لاکھ کلو میٹر لمبی پانی، نکاسئ آب، گیس کی پائپ لائنیں اور بجلی کی تاروں کی سروسز شامل ہیں۔

برٹش جیولوجیکل سروے کی اربن جیوسائینس کی ٹیم لیڈر سٹیفینی برِکر کے مطابق ایک بات جو سب سے بڑی ہے وہ یہ کہ زیرِ زمین شہر کی ان معلومات کا کوئی سینٹرل ڈیٹا بینک نہیں ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ‘یہ سب مختلف جگہوں پر مختلف افراد اپنے پاس رکھتے ہیں۔’ بریٹش جیولوجیکل سروے کی ابتدائی سطح پر ساری توجہ یوٹیلیٹیز پر تھی – یعنی گیس، بجلی، پانی کے پائیپوں کے نیٹ ورک، وغیرہ وغیرہ — زیرِ زمین سہولیات کے ثقافتی اور تاریخی پہلو بھی ہیں جن کے بارے میں معلومات جمع نہیں کی جا رہی ہیں۔

سٹیفینی کہتی ہے کہ ‘ہم دو اور شہروں کے نقشہ بنانے کے لیے مالیاتی مدد کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ شہر ہیں نوٹنگہم اور ایڈنبرا جن کی زیرِ زمین سرگرمیوں کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ ہم صرف نقشے نہیں بنانا چاہتے ہیں بلکہ ان لوگوں کا سماجی میل ملاپ بھی سمجھنا چاہتے ہیں جو ان زیرِ زمین راستوں کو استعمال کرتے رہے ہیں۔’

اب رازوں کو افشاء کرنے کا رجحان پہلے سے کہیں زیادہ ہے جو نہ صرف برطانیہ میں ہے بلکہ دنیا کے کئی حصوں میں ہے، اور یہ رجحان صرف استعارے کے طور پر نہیں ہے بلکہ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے کہ ہم سے جو باتیں اب تک پوشیدہ رہی ہیں ہم اُن کا کھوج لگا رہے ہیں۔

ایک غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار پبلک ڈیٹا کی بانی، اینا پاؤل سمتھ کہتی ہیں کہ ‘یہ ماضی میں کسی وقت حقیقی طور پر قومی سلامتی کے راز تھے اور پھر یہ بوسیدہ باتیں رہ گئیں اور کسی سرکاری محکمے نے ان کے نقشے بھی نہیں بنائے کیونکہ ان کو بنانے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔’

ایسی افواہیں بھی گشت کرتی رہی ہیں کہ ویسٹ مِنسٹر ٹیوب سٹیشن کو بھی اس لیے تعمیر کیا گیا تھا کیونکہ حکومت نے بغیر کسی وجہ کے بہت سے روٹس رد کر دیے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں زیرِ زمین سرنگوں کا پہلے سے ایک جال بچھا ہوا تھا جو حکومت کے مختلف محکموں کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھا۔ اور یہی بات بعد میں درست بھی ثابت ہوئی۔

لندن جیسے شہر میں جس کی بہت زیادہ نگرانی کی جاتی ہے، زیرِ زمین جگہیں وہ ہیں جہاں رازوں کو دفن کر دیا جاتا ہے۔

اوونڈن کہتے ہیں کہ ‘آپ لندن کے کسی بھی فٹ پاتھ پر جیسے ہی قدم رکھتے ہیں آپ اصل میں سینکڑوں میل لمبی سرنگوں، راستوں، اور ایس خفیہ جگہوں کے اوپر قدم رکھ رہے ہوتے ہیں جن کے بارے میں لوگوں نے کبھی سنا ہی نہیں ہے۔’ مثال کے طور زیرِ زمین ایسی سرنگوں کی بھی افواہیں ہیں جو کسی حادثے کی صورت میں باہر نکلنے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں۔

کیا یہ افواہیں درست ہو سکتی ہیں؟ اوونڈن کہتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن یہ باتیں افشاء ہو جائیں گی۔ لیکن فی الحال یہ لندن کی مصروف سڑکوں میں محفوظ دیگر رازوں کی طرح ایک اور راز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp