موقع پا کر درندگی پر اترنے والے مسیحا


ایک خاتون اسپتال یا کلینک میں بچہ جن رہی ہو اور کوئی اجنبی اس کی نہایت فطری اور تکلیف دہ مرحلے میں خفیہ طور پر مجرمانہ فلم بندی کرنے میں مصروف ہو، تا کہ کل کو وہ اس خاتون کو اس کے نہایت ذاتی اور فطرتی عمل کی عکس بندی دکھا کے شرمسار کرے، یا ہراساں کر سکے اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر سکے۔ جہاں تک دوران پیدائش مرحلے کو فلم بند کر کے کسی کو ہراساں کرنے کا ہے، جو خالصتاً شرم ہی سے منسوب ہے، تو بتاتی چلوں کہ دنیا کا ہر انسان بشمول عورتوں کی زچگی میں فلم بندیاں کرنے والے اور عزت اور تقدس کو عورت کی زانو میں رکھ کر نفرت اور تشدد کو فروغ دیتے تمام آدم، عورت کی زانو ہی سے دنیا میں تشریف لائے ہیں، جسے وہ ماں کہتے ہیں۔

وہ ہم جماعت، ہم کار، ٹی وی پر ”تیرے جسم میں ہے کیا؟ آہ تھو“، کرنے والوں سمیت ہر کوئی عورت کے جسم سے جنا گیا ہے۔ یہ الگ مدعا ہے کہ زندگی جننے والے اعضا کو شرم سے تشبیہ دے کر ”غیرت“ کو ہوا دی جاتی ہے۔ مگر یہاں اس بحث کا محور، مجرمانہ طور پر خفیہ عکس بندیاں ہیں، جو اسپتالوں میں ہوتی ہیں۔ مریض کی بیماری سے فائدہ اٹھانے والے کم ظرف ہیں، جو مریض کی بیماری میں بھی، ذلت کے گڑھے میں کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔

عائشہ ایک استاد ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی بہت عزیز سہیلی نہایت تکلیف میں تھیں۔ دوپہر میں اچانک گردے کے درد نے اس کی جان ہلکان کر دی۔ درد کی شدت ایسی تھی کہ اسپتال جاتے ہوئے، اس کی کراہیں بند نہیں ہوتی تھیں۔ درد کی شدت ایسی تھی کہ اسپتال میں بھی گال آنسوؤں سے تر تھے۔ میل نرس نے کراہتی مریض کو ٹیکہ تو لگا دیا مگر خاطر خواہ افاقہ نہ ہوا۔ نیم بے ہوشی کی حالت میں بھی مریض کے آنسو بہتے رہے۔ عائشہ دوا کی غرض سے تھوڑی دیر کے لیے باہر گئی۔ واپس آ کر کیا دیکھتی ہے کہ میل نرس اس کی نیم بے ہوش سہیلی کے بہتے آنسو پونچھ رہا ہے۔ وہ نرس، بے ہوش مریض کی اجازت کے بنا آنسو صاف کرنے کے علاوہ بھی بہت کچھ کر سکتا تھا۔

نیلم بھی ایک استاد ہیں۔ وہ اپنا قصہ سناتی ہیں کہ ایک شب ان کی طبیعت اس قدر بگڑی کہ اسپتال لے جانا پڑا۔ درد سے کراہتی نیلم کے والد کو، طبیب نے اپنے پاس بلایا۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا، مگر نیلم کی تکلیف سے آنکھیں تک کھلنے سے عاری تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میل نرس ان کو ایک پرچی لینے پر اصرار کیے جا رہا تھا، چندھیائی آنکھوں سے نیلم دیکھتی ہیں کہ پرچی کسی دوا یا ٹیکے کی نہیں، بلکہ سامنے کھڑے مسیحا کے فون نمبر کی ہے۔ حضرت مصر تھے کہ نیم بے ہوش مریض کسی طرح اس اجنبی آدمی کا رابطہ نمبر لے لے۔

یہ گمان ذہن کے ہر گوشے سے نکال دیجیے کہ ہمیں کسی اجنبی کے رابطہ نمبر کی کوئی ضرورت ہوتی ہے، نا ہی ہمیں کوئی آرزو۔ یہ باتیں فیس بک پر توہین پر مبنی مزاحیہ خاکوں کی حد تک ہی سچ ہیں، حقیقت میں خواتین کو رابطہ نمبروں سے رتی برابر غرض نہیں ہوتی۔ بھلا یہ عام حقیقت پر مبنی زندگی ہے یا نوے کی دہائی کی کوئی میوزک ویڈیو؟

فرحت کے ابا کا آپریشن ہوا تھا۔ فرحت جو کہ سترہ سالہ بچی تھی، بضد تھی کہ بیمار باپ کے ساتھ اسپتال میں رات قیام کرے گی۔ رات کے یہی کوئی ایک بجے کا وقت ہو گا، جب اس کے ابا کو ڈاکٹر کی ضرورت پیش آئی۔ فرحت، ابا کے کہنے پر ڈاکٹر کو لینے گئی۔ ڈاکٹر صاحب جو ایک بڑی عمر کے معزز اور معتبر شخصیت اور عہدے کے مالک تھے، فرحت سے خوش گپیوں کرنے میں دل چسپی رکھتے تھے۔ اس سے اس کا نام پوچھا۔ عمر پوچھی۔ کیا کرتی ہو؟ کیا پڑھتی ہو؟ یہ کچھ دریافت کرنے میں مگن رہے اور نہایت خوش لہجے میں فرحت سے ذاتی نوعیت کے غیر مناسب سوال کرتے رہے، جب کہ فرحت معزز اور عمر رسیدہ ڈاکٹر صاحب کی نیت بھانپ گئی اور موقع دیکھ کر فوراً سے اُلٹے پاوں چلتی بنی۔

کسی کے لیے کسی کی ’خوش اخلاق گفتگو‘، کب اور کیوں کر نا مناسب صورت احوال پیدا کر سکتی ہے، گفتگو کرنے والا خوب اچھی طرح جانتا ہے۔ فرحت کہتی ہے کہ جب وہ باہر آئی، اس کے ہاتھ پاوں پھول چکے تھے، اور بدن کانپ رہا تھا۔

یہ کہانیاں ہیں، ان کی جو کچھ ہوش میں تھیں۔ آپ پر منحصر ہے کہ یہ اندازہ لگائیں، جو بے ہوش ہوتی ہیں، ان کے ساتھ کیا کیا کچھ نہیں کیا جاتا ہو گا۔ مگر نہیں، اس ملک کی عورتیں سڑکوں پر مارچ کر کے، یہاں کا نظام اخلاق بگاڑتی ہیں۔

ان مسائل کا علاج یہ نہیں کہ آئندہ جب کوئی عورت بیمار ہو، تو اس کو تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ عموماً حل یہی تلاش کیا جاتا ہے کہ کوئی عورت جنسی تشدد کا شکار ہوئی ہے، تو باقی گھر میں رہیں۔ باہر مت نکلیں۔ کیوں؟ باہر درندے ہیں۔ گھر میں تشدد ہو تو گھر کے ایک خاص کونے یا زنان خانے میں رہیں۔ بھلا کوئی ان سے پوچھے، یہاں کب سارے امرا ہی بستے ہیں، جن کے آشیانے اس قدر وسیع و عریض ہوں کہ گھر میں زنان خانے الگ سے ہوں؟

وہ عورتیں کہاں جائیں، جن کا کوئی گھر ہی نہیں؟ وہ کہاں جائیں جو ”تجاوزات“ پر جھگیاں ڈالے بیٹھی ہیں؟ کیا ان کی جھگیوں میں بھی زنان خانے بنائے جا سکتے ہیں؟ مکان کا ایسا کونا بھی بتائیں، جہاں محرم چچا، تایا، ماموں، بھائی یہاں تک کہ باپ کی آمد پر پابندی ہوتی ہے؟ سوچ نہیں بدلنی، اخلاقیات، شعور نہیں پانا، بس پردے کے فرمان جاری کرنے ہیں اور فقط خواتین اور بچیوں پر۔ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے ہاتھوں جنسی تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بننے والی خواتین کو کیا کرنا چاہیے؟ فقط خواتین طبیب اور تیمار داروں سے علاج کرانا چاہیے؟ بالکل مگر ساتھ ساتھ حسرت لئے ساتھی مرد طبیبوں اور نرسوں کے خواتین کے خلاف رویوں کو سدھارنے کی اتنی ہی اشد ضرورت ہے، جس سے خواتین مسیحا محفوظ رہ سکیں اور خواتین مریض بھی۔

اس قسم کے رویوں کا علاج یہ ہے کہ اس پر شعور اور آگہی سے قابو پایا جائے۔ جہاں سمجھ اور درست سوچ کی ویکسین اثر انداز نہ ہو، وہاں بہتر سزا و جزا کا نظام رائج کر کے خواتین اور بچوں کے لئے راہیں محفوظ بنائی جائیں۔ وبا پھیلانے والوں کا نام لیا جائے، ان کی بیخ کنی کی جائے اور معاشرے کو اس بیماری سے محفوظ پناہ گاہ بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).