خود کشی کا فیشن


معروف فلم سٹار رنویر سنگھ فلم پدما وت کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ فلم میں انہوں نے علاء الدین خلجی کا منفی کردار ادا کیا تھا۔ خلجی کا کردار غصیلا، بے رحم اور سنگ دل قسم کے شخص کا تھا۔ لیکن رنویر سنگھ پہ یہ اتنا حاوی ہوا کہ انہیں نارمل ہونے کے لیے اگلے کئی مہینے سائیکاٹرسٹ کے پاس سیشن کرنا پڑے۔ نفسیات اک پیچیدہ موضوع ہے۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ آپ اپنے اوپر جو کیفیت طاری کرتے ہیں، اسے حاوی ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔

آپ کو غصہ نہیں آ رہا اور آپ نے جھوٹ موٹ کے غصے کا دکھاوا کریں، چند لمحوں میں آپ سچ میں غصیلے ہو چکے ہوں گے۔ آپ اداس اور مایوس ہونے کی اداکاری کریں۔ پانچ منٹ بعد آپ واقعی اداس ہو چکے ہوں گے۔ آپ کا حلقہء احباب مطالعہ، فلم بینی، یہ سب بھی آپ کی ذہنی صحت پہ اثرانداز ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بڑی عمر کا کوئی شخص اگر نوجوانوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دے، تو کچھ عرصے میں وہ خود کو نوجوان محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی نوجوان بڑے بوڑھوں کے درمیان اٹھتا بیٹھتا ہے، تو یہ سنگت بھی اپنی رنگت دکھاتی ہے۔

عین کرونا کے عروج میں میں ڈپریشن کا شکار تھا۔ مجھے نہیں علم تھا کہ یہ ڈپریشن ہے۔ میں نے اپنی حالت و علامات (سوشل میڈیا پر) لکھیں، تو مبشر علی زیدی بھائی نے بتایا کہ یہ ڈپریشن اور پینک اٹیک کی علامات ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ فوٹو گرافر ندیم بھٹہ جو اس وقت دبئی میں تھے، نے کال کر کے تسلی اور صائب مشورے دیے۔ خیر! ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ اور یوسف بلوچ جیسے دوستوں کی مدد اور علاج سے میں بہتر ہو گیا۔ اب بھی بیچ بیچ میں حالت خراب ہو جاتی ہے ‍‍۔ یہ بہت بری بیماری ہے۔ آپ کی نیند اڑ جاتی ہے، آپ کا سانس رکنے لگتا ہے۔ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے۔ بے چینی بے قراری انجانا سا خوف اور دل کے دورے کی سی علامات ہوتی ہیں۔

مجھے حیرانی تب ہوئی، جب اگلے چند دنوں میں وہی علامات، دیگر کئی نوجوانوں کی (سوشل میڈیا) وال پہ نظر آئیں۔ نوجوانوں کو لگتا ہے کہ ڈپریشن کوئی اچھی بیماری ہے، بلکہ ہماری اکثریت تو اسے بیماری سمجھنے کو بھی تیار نہیں۔ نئی نسل نے سوشانت سنگھ راجپوت کے ڈپریشن اور ثروت کی خود کشی کو اتنا رومینٹیسائز کیا ہے کہ آج ہر دوسرا نوجوان شوقیہ ڈپریشن کا مریض بنا پھرتا ہے۔ شعرا کرام ہوں، یا عشاق، مایوسی اور یاسیت سے بھری ان کی (سوشل میڈیا) وال بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔

ہم نے نا آسودہ خواہشات کی تکمیل کا بہانہ بنا کر، ڈپریشن کو فیشن بنا لیا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے اک زمانے میں ہر دوسرا بندہ دیو داس بنا پھرتا تھا اور مے نوشی کرنا فیشن اور عشق کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔

شاید ہمارے ارد گرد پھیلی یاسیت ہی وہ وجہ ہے، جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں خود کشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان خود کشی کر رہے ہیں۔ خدارا! اس روش سے اجتناب برتیے۔ مایوسی، نفرت، اداسی، یاسیت، نحوست جیسے منفی کیفیات کو خود ساختہ طور پہ طاری نہ کریں۔ مایوسی کی جگہ امید کی بات کریں۔ فطرت کی بات کریں۔ خوشیوں کی بات کریں۔ محنت کی بات کریں۔ زندگی خوب صورت ہے۔ اس لیے زندگی کی بات کریں۔ بطور فیشن مسکرانا شروع کر دیں۔ خوش رہنا شروع کر دیں۔ یقین جانیں، ڈھیر ساری خوشیاں آپ کی منتظر ہیں۔ اگر آپ اس انتظار میں ہیں کہ جس دن پیسہ ملے گا، فلاں شخص ملے گا، شہرت ملے گی، میں تب خوش ہوں گا، تو مانیے کہ وہ دن کبھی نہیں آئے گا۔ خوش رہنے کے لیے انتظار مت کریں، بس خوش رہنا شروع کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).