صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ کی عالمی سطح پر اپنے روایتی کردار سے پسپائی، ترکی کے لیے آگے بڑھنے کا موقع ہے؟


صدر ٹرمپ، صدر اردوغان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر طیب اردوغان کے مابین ایک قریبی تعلق ہے
ایک ایسے وقت جب ترکی خطے میں اپنے حلقہ اثر کو بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے، ترکی میں امریکی صدارتی انتخاب میں بہت دلچسپی لی جا رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے عالمی رتبے میں کمی کو ترکی اپنے لیے ایک نادر موقع تصور کر رہا ہے۔

امریکہ ٹرمپ دور حکومت میں اپنے روایتی کردار سے پیچھے ہٹا ہے، جس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا ہے جسے پُر کرنے کے لیے کئی ممالک کوشش کر رہے ہیں۔ دیگر کئی ریاستوں کی طرح ترکی بھی اپنے قرب و جوار میں اپنی عسکری طاقت کی دھاک بیٹھانے میں مصروف ہے۔

ترک حکام نے انقرہ کے اقدامات کو سراہا ہے جنھیں وہ ایک عظیم طاقت کے طور پر ترکی کے تاریخی کردار کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے رواں ماہ تین اکتوبر کو کہا تھا کہ ’جوں جوں ترکی ترقی کرتا ہے اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ عالمی سطح پر اپنے حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم شام ،لیبیا اور بحیرۂ روم سے لے کر کوہ قاف تک اپنے دوستوں اور مظلوم بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

لیکن ترکی ہی واحد ایسا ملک نہیں ہے جو واحد عالمی طاقت کے کمزرو ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا ترکی سلطنت عثمانیہ کی تاریخ دہرانے کی کوشش کر رہا ہے؟

اگر دوسری جنگِ عظیم کے بعد بننے والا ’ورلڈ آرڈر‘ بدل گیا تو کیا ہوگا؟

ترکی یونان کشیدگی: فرانس کا بحیرہ روم میں رفال طیارے اور بحری جنگی جہاز بھیجنے کا اعلان

آنے والے برسوں میں دنیا میں بہت اچھاڑ پچھاڑ نظر آئے گئی کیونکہ دنیا کی کئی ریاستیں اس بدلتی ہوئی صورتحال میں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے پیش قدمی کرتی نظر آتی ہیں۔

ٹرمپ اردوغان تعلقات

امریکی صدر ٹرمپ اور ترک صدر اردوغان کے قریبی تعلق کی بنیاد وسیع تزویراتی حکمت عملی ہے۔ ترکی نیٹو اتحاد کا حصہ دوسرے ممالک سے اپنے اختلاف کے لیے ہمیشہ صدر ٹرمپ کا سہارا لیتا رہا ہے۔

جب ترکی نے روس سے ایس 400 میزائل خریدے تو امریکی کانگریس ترکی پر پابندیاں عائد کرنا چاہتی تھی لیکن صدر ٹرمپ نے ترکی کو بچایا۔ جرمن مارشل فنڈ کے ترکی ڈائریکٹر اوزگورن حسارچکلی کے مطابق دونوں ممالک میں خراب ہوتے تعلقات میں صرف صدر ٹرمپ ہی واشنگٹن میں ترکی کے واحد دوست ہے۔

صدر اردوغان نے ستمبر 2019 میں کہا تھا کہ ’ہم اپنے پیارے دوست ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اس صورتحال سے نکل رہے ہیں۔‘

ترکی کے ذرائع ابلاغ نے ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے اس عہد کی مذمت کی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ ترکی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف سخت موقف اپنائیں گے۔

جو بائیڈن نے رواں سال اگست میں کہا تھا کہ ’ہم (اردوغان) کے حوالے ایک مختلف رویہ اپنائیں گے۔ جو بائیڈن کا بیان واضح کرتا ہے کہ وہ ترکی کی حزب اختلاف کی قیادت کی حمایت کریں گے۔‘ جو بائیڈن کے اس بیان کی وجہ سے ترکی کے کئی ماہرین ٹرمپ کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

ترک حکومت کے حامی اخبار صبا کے کالم نگار محمت برلاس 17 اگست کے اپنے کالم میں لکھتے ہیں: ’مجھے ٹرمپ کی کمزوریوں کا علم ہے، لیکن اگر ہمیں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو صدر ٹرمپ کا جیتنا ہمارے مفاد میں ہے۔‘

امریکہ کی پسپائی

انقرہ کے صدر ٹرمپ کے ساتھ دوستانہ مراسم صرف دو طرفہ معاملات تک محدود نہیں ہیں۔ ترکی کی طرف سے اپنے عالمی رتبہ بڑھانے کی کوششوں اور صدر ٹرمپ کی طرف سے امریکہ کو عالمی معاملات سے الگ کرنے کی پالیسی کا آپس میں ایک تعلق بنتا ہے۔

ترکی کی پیش قدمی اور امریکہ کی پسپائی کا ایک مظاہرہ اکتوبر 2019 میں شام میں دیکھا گیا تھا۔

ترکی کی شامی کردوں کے خلاف فوجی کارروائی نے ایسے خدشات کو جنم دیا تھا کہ خطے میں موجود امریکی اور ترکی فوجیوں کی مڈبھیڑ ہو سکتی ہے۔ شامی کرد جو امریکی فوجوں کے ہمراہ نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف لڑ رہے تھے، وہ صدر ٹرمپ اور صدر اردوغان کی ٹیلیفون پر بات چیت کے بعد اس علاقے سے نکل گئے جس پر ترکی کو اعتراض تھا۔

اس کے بعد ترکی، روس اور شام حکومت کے حمایت یافتہ گروپوں نے شمالی شام کے علاقوں کا کنٹرول حاصل کر لیا۔

انقرہ اور واشنگٹن کئی معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ ترکی کی خواہش ہے کہ وہ لیبیا میں اپنے مخالفین کے خلاف امریکی اثرو رسوخ کو استعمال کرے۔

انقرہ میں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دور میں عالمی سطح پر امریکہ کی تنہائی میں اضافہ ہو گا اس میں ترکی کے لیے خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے مواقعے پیدا ہوں گے۔

ترکی کی خواہش

ترک حکومت کے حامی ایک عرصے سے ترکی کے عالمی رتبے کو بڑھانے کی خواہش کو امریکہ کی دنیا سے پسپائی کے تعلق سے جوڑتے ہیں۔

سنہ 2016 میں صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے سے پہلے ترکی کے صدارتی کمیونیکیشن ڈائریکٹر فریتن آلتن نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کا امریکہ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے خاتمے کا عہد مواقعے پیدا کر سکتا ہے۔

صدر ٹرمپ کی صدارت کے چار سال مکمل ہونے پر ترک حکومت سے جڑے سیٹا تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر برہان الدین دوران نے کہا: ’خطے سے امریکہ کی جزوی واپسی سے خلیج سے لیبیا اور شمالی افریقہ سے یورپ تک طاقت کا ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔‘

صبا اخبار کے کالم نگار حسن بصری یالسین نے دعویٰ کیا ہے کہ ترکی خطے کے سب سے طاقتور ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں پرانے ڈھانچوں کا توازن بگڑ رہا ہے۔

حسن بصری یالسین نے 18 جون کو لکھا: ’دنیا بدل چکی ہے، ترکی بدل چکا ہے، امریکہ کے گرد گھومنے والی نوے کی دہائی ختم ہو چکی ہے۔‘ وہ لکھتے ہیں کہ امریکہ اب مزید کچھ کرنے کا خواہشمند نہیں ہے، جوں جوں امریکہ کمزور ہو رہا ہے، ترکی ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔

نیوز ویب سائٹ ہیبرترک کے کالم نگار چیتنر چیتن لکھتے ہیں: ’ترکی کی اپنے روایتی دوستوں سے دوری دراصل خول کے ٹوٹنے اور خوف کی دیوار کو توڑنے کا عمل ہے۔‘

یانی شفق اخبار کے ایڈیر ان چیف ابراہیم کارگل لکھتے ہیں: ’آج ترکی خطے کی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے، جو بیسویں صدی کی صورتحال کو تبدیل کر رہی ہے۔‘

ترکی میں حکومت مخالف آوازیں بھی بدلتی ہوئی صورتحال کو محسوس کر رہی ہیں۔ میڈی سکوپ نیوز ویب سائٹ کے ایڈیٹر ان چیف روزن چاکر لکھتے ہیں :’دنیا افراتفری کے دور میں داخل ہو چکی ہے کیونکہ امریکی غلبے کے اختتام پر جمہوری اور بائیں بازور کا متبادل سامنے نہیں آیا ہے۔‘

ماہر تعلیم الہان اوزگل نے بارہ اکتوبر کو خبردار کیا ہے کہ جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے لبرل دور کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دنیا ایک بار پھر آمرانہ دور کی طرف بڑھ رہی ہے۔

ترک فوجیں

ادلیب کا شمار بھی ایسی جگہوں میں ہوتا ہے جہاں ترکی نے فوجی مداخلت کی ہے

علاقائی حریف

ترکی ہی وہ واحد ملک نہیں ہے جو امریکہ کے پیچھے ہٹنے سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں طاقت کی کشمکش جاری ہے، جہاں کئی ممالک جن میں فرانس، روس، مصر، اسرائیل، یونان اور متحدہ عرب امارات اپنا حلقہ اثر وسیع کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ترکی سے کئی معاملات پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ عرب سپرنگ کی تحریک کے بعد مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی صورتحال میں ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، لیبیا میں متحارب گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

فرانس کے صدر ایمنیوئل میکخواں بھی مشرق وسطیٰ میں اپنا حلقہ اثر پڑھانےکے لیے تگ و دو کر رہے ہیں اور حال میں ان کے لبنان اور عراق کے دوروں کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

تاریخ دان والٹر برویر اوسٹیلز نے ہفنگٹن پوسٹ کے فرانسیسی ایڈیشن کو بتایا کہ ’ اب جب کہ امریکہ بحیرۂ روم میں اپنا مرکزی کردار مزید نہیں نبھانہ چاہ رہا ایسے میں فرانس بحیرۂ روم کے خطے کا محافظ بننا چاہتا ہے۔‘

ترکی نے فرانس کی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں ‘نوآبادیاتی’ اور ‘جابرانہ’ قرار دیا ہے۔

امریکی انتخابات کے بعد کی صورتحال

امریکی انتخابات کے بعد بھی عالمی سیاست میں پنجہ آزمائی جاری رہے گی جس سے دنیا میں عدم استحکام جنم لے سکتا ہے۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ دوسری بار انتخابات میں کامیاب ہوں یا جو بائیڈن وائٹ ہاؤس پہنچ جائیں خطے میں مقابلہ کی فضا جاری رہے گی۔

ترکی کی میڈیا سکوپ نامی نیوز ویب سائٹ کے کالم نگار روسن چاکر لکھتے ہیں: ’بائیڈن شاید امریکہ کو پرانی ڈگر پر لے جانے کی کوشش کریں اور امریکہ عالمی اداروں میں اپنے کردار کو بڑھانے کی کوشش کرے، لیکن ٹرمپ کے ہارنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ ٹرمپ ایک نتیجہ ہیں، وجہ نہیں۔‘

وہ لکھتے ہیں: ’امریکہ کا عالمی غلبہ ختم ہو رہا ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں رہنے یا جانے سے کوئی فرق پڑنے والا ہے۔‘

ترکی کی امنگیں بھی ٹرمپ کے دور حکومت تک محدود نہیں ہیں۔ ترکی ایک عرصے سے اپنے دفاع پر اضافی اخراجات کر رہا ہے اور ملک میں قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دور میں ترکی کے لیے میدان وسیع ہو گیا ہے جہاں وہ اپنے حلقہ اثر کو بڑھا سکتا ہے۔

وائٹ ہاؤس میں کوئی بھی آئے، ٹرمپ یا بائیڈن، اردوغان کی سربراہی میں ترکی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp