سروس شوز کی کہانی: جب تین دوستوں کو فوجی بوٹ بنانے کا آرڈر ملا


سروس شوز

’ہمیں جفت سازی (جوتے بنانے) کا نہ تو کوئی علم تھا اور نہ ہی کہیں سے ٹریننگ حاصل کی۔ صرف اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش کی۔ تمام مہارت محض گہرے مشاہدے اور ذاتی تجربے پر مبنی ہے۔ کامیابی کے لیے اتنی محنت کی ہے کہ اب جفت سازی ہماری زندگی کا مقصد، بلکہ زندگی کا حصہ بن گئی ہے۔‘

یہ الفاظ چوہدری محمد حسین کی کتاب ’میں جفت ساز کیسے بنا؟‘ سے لیے گئے ہیں جنھوں نے اپنے دو دوستوں نذر محمد اور محمد سعید کے ہمراہ سنہ 1940 کی دہائی میں سروس شوز (سروس انڈسٹریز لمیٹڈ) کی بنیاد رکھی تھی۔ آج اس کمپنی کا شمار پاکستان اور خطے کی جوتا تیار کرنے والی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔

زمانہ طالبعلمی کے اِن تین دوستوں کا تعلق نیم متوسط گھرانوں سے تھا اور ان میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ انھوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مستقبل میں وہ اس شعبے سے منسلک ہو جائیں گے۔

نصف صدی سے طویل اپنے سفر میں اس پاکستانی کمپنی نے مقامی مارکیٹ کے علاوہ برآمدات کے ذریعے یورپی ممالک میں بھی اپنا سکہ منوایا۔ لیکن یہ سب کیسے ممکن ہوا؟

دوسری عالمی جنگ اور برصغیر میں کاروبار

دراصل یہ کہانی ایک کمپنی کی نہیں بلکہ تین دوستوں کی ہے جن کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ کسی معمولی سرکاری نوکری سے منسلک ہو کر اپنی زندگی گزار سکتے تھے۔

ان تین دوستوں میں سے ایک کا تعلیمی ریکارڈ اچھا تھا، دوسرے کے سرکاری دفاتر میں تھوڑے بہت تعلقات تھے جبکہ تیسرا بات چیت کرنے کا ماہر تھا۔

صوبہ پنجاب کے شہر گجرات کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد حسین کے والد اپنی سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہو چکے تھے لہذا اپنے چار چھوٹے بھائیوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنا ان کے ذمے تھا۔

اسی ذمہ داری کے تحت انھوں نے لاہور میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ انشورنس کا کام شروع کیا۔ اسی دوران ان کے بچپن کے دوست نذر محمد، جو پشاور سے بی اے کر کے واپس لاہور آئے، بھی ان کے ہمراہ چل پڑے۔

لیکن بات کچھ بنی نہیں اور دونوں کو یہ کام چھوڑنا پڑا۔ نذر محمد نے ایل ایل بی کرنے کی ٹھانی اور پھر وکالت میں مصروف ہو گئے، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر انھوں نے وکالت کی پریکٹس بھی ترک کر دی۔

یہ بھی پڑھیے

18 کرسیوں سے شروع ہونے والے راولپنڈی کے معروف ’سیور فوڈز‘ کی کہانی

وہ مچھلی جس نے پاکستانی ماہی گیروں کو لکھ پتی بنا دیا

برطانوی ارب پتی بھائی محسن اور زبیر عیسیٰ کون ہیں؟

شدت پسند تنظیم کے کارکنان میں ’چیتا‘ جاگرز مقبول

معاشی تنگی کے پیش نظر چوہدری حسین کے پاس ایک راستہ بچا جو کہ سرکاری نوکری کرنے کا تھا، مگر مصیبت یہ تھی کہ وہ سرکاری ملازمت سے بیزار تھے کیونکہ ایک طرف انھوں نے سرکاری ملازمت سے منسلک اپنے ’والد کی دیانتداری اور مشقت دیکھی تھی تو دوسری طرف اُن کی تنگدستی اور قناعت بھی۔‘

تیسرے دوست یعنی چوہدری محمد سعید کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد محکمہ صنعت کے شعبہ مارکیٹنگ میں چلے گئے، لیکن وہ بھی اپنی اس نوکری سے مطمئن نہ تھے۔

سنہ 1940 کی دہائی میں اس کمپنی کے آغاز کا احوال چوہدری حسین اپنی کتاب ’میں جفت ساز کیسے بنا؟‘ میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ’دوسری عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ محمد سعید اور میں نے سوچا کہ جنگ میں حکومت کو مختلف قسم کے سامان کی ضرورت رہتی ہے۔ کیوں نا ٹینڈر کا کام شروع کیا جائے۔‘

اور پھر تینوں دوستوں نے مل کر 63 روپے جمع کیے۔ ان میں سے 52 روپے میں ایک جگہ کرائے پر لینے کے بعد ٹینڈر کی بنیاد پر کام شروع کر دیا۔

جلد ہی انھیں ایک ٹینڈر کے تحت پولیس کے لیے چپل فراہم کرنے کا ٹھیکہ مل گیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے پاس نہ تو چپلیں تھیں اور نہ انھیں تیار کرنے کی صلاحیت۔

لاہور میں خام مال مہنگا تھا اس لیے وہ پولیس اہلکاروں کے لیے چپل ڈھونڈتے گجرات پہنچ گئے اور وہاں جا کر پانچ، چھ موچیوں سے یہ تمام سامان تیار کروایا۔

پولیس کے لیے لیدر چپلوں کے بعد انھیں اسی محکمے کے اہلکاروں کے لیے بوٹ بنانے کا آرڈر بھی مل گیا اور جفت سازی کا یہ کام آگے بڑھتا رہا۔ ساتھ میں انھیں مچھر دانی، وردی، ترپال اور پیٹیاں فراہم کرنے کے آرڈر بھی ملنے لگے۔

لیکن یہ کاروباری ماڈل مستحکم نہیں تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ انھیں ایک بڑے آرڈر کے لیے ایک ہزار روپے کی ضرورت تھی لیکن کوئی بینک قرض دینے کو تیار نہیں تھا۔

’تمام بینک ہندوؤں کے تھے جو زمینداروں کو قرض نہیں دیتے تھے۔ سود کی شرح تین فیصد تھی۔ ایک دوست کے ذریعے تین کی بجائے ایک سو بیس فیصد سود پر قرض ملا۔‘ یعنی انھیں تین ماہ کے لیے ایک ہزار روپے کی رقم پر تین سو روپے سود ادا کرنا پڑا۔

کمپنی کا غیر جانبدار نام

کہنے کو تو یہ تینوں اب ایک چھوٹی سی کمپنی کے مالک بن گئے تھے لیکن حساب کتاب اور مال کی پیکنگ سمیت زیادہ تر مزدوری انھیں خود کرنا پڑتی تھی۔

دوسری عالمی جنگ 1945 میں اختتام کو پہنچی اور اس کے ساتھ ترقی پاتے اس کاروبار کے آئندہ کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

جب سرکاری ٹھیکے ملنا بند ہو گئے تو کمپنی کے لیے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ بند ہو گیا۔

شاید اس میں بھی کوئی حکمت تھی جس کی بدولت انھیں خیال آیا کہ چونکہ وہ لیدر اور کینوس کا کام کر ہی رہے ہیں تو کیوں نہ اسی سے متعلق سامان تیار کر کے بیچا جائے۔ اسی خیال کے تحت انھوں نے جوتوں کے ساتھ سفری سامان اور ہینڈ بیگز بنانا شروع کر دیے۔

اب وقت آ گیا تھا کہ باقاعدہ ایک کمپنی بنائی جائے اور محض سرکاری ٹینڈرز لینے کے بجائے عام لوگوں کو بھی چیزیں فروخت کی جائیں۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ کمپنی کا نام کیا رکھا جائے۔

چوہدری حسین کے مطابق ’ان دنوں برصغیر میں ہندو مسلم سوال زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کر رہا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ نام کی وجہ سے یارانِ وطن اُن کے مال کا بائیکاٹ کریں۔‘

چنانچہ کمپنی کا نام ’سروس لمیٹڈ‘ رکھا گیا۔ تقسیم ہند سے قبل سروس کے بیشتر گاہک غیر مسلم تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انگریزی نام کے ذریعے ممکنہ اعتراضات سے بچا گیا۔

پاکستان کا قیام ہوا، آزادی ملی لیکن کاروبار اور تجارت کے لیے یہ آزادی قید کی سی تھی۔ کوئی لُٹ گیا تو کسی کی ادائیگیاں رہ گئیں۔ سروس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور سرحد پار گاہک اور سپلائر ہمیشہ کے لیے دور ہو گئے۔

کاروبار کو ہونے والے اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے انھیں حکومت کی طرف سے لاہور مال روڈ پر ایک دکان دی گئی لیکن کمپنی کے مستقبل پر اب سوالیہ نشان لگ چکا تھا۔

چمڑے کی چپل کے بعد فوجی بوٹ

پاکستان کے قیام کے بعد سروس نے دوبارہ حکومتی ٹینڈرز کے کام میں حصہ لینا شروع کر دیا جہاں کینوس میں ترپال اور چمڑے کے سامان کے ساتھ چپلیں بنانے کے آرڈر ملتے رہے۔

لیکن اس موقع پر یہ نئی کمپنی ایک تاریخی موڑ سے ہمکنار ہوئی۔ سروس کو پیشکش ہوئی کہ وہ فوجی جوانوں کے لیے بوٹ بنائیں۔

چوہدری حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ہم تو صرف چمڑے کی چپل تیار کرتے تھے۔ فوج کے لیے بوٹ بنانے کا کام گورنمنٹ نے باٹا کو دے رکھا تھا۔‘

بین الاقوامی کمپنی باٹا آج بھی پاکستان میں جوتوں کے لیے مشہور ہے لیکن اُس وقت ملک میں اسے ٹکر دینے کے لیے کوئی بڑی کمپنی موجود نہ تھی۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’سنا ہے کہ ایک بار بریگیڈیئر صاحب بوٹوں کے معائنے کے لیے باٹا شو فیکٹری گئے۔ انھوں نے بوٹوں میں کچھ نقائص نکالے تو مینیجر نے کہا اس سے بہتر بوٹ نہیں بن سکتا، صرف ہم آرمی بوٹ بنا سکتے ہیں۔ بریگیڈیئر صاحب خاموش رہے۔‘

فوجی بوٹ، سروس

اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد ایک حکومت عہدیدار نے انھیں فوجی بوٹ بنانے کا مشورہ دیا اور سنہ 1950 میں انھیں فوجی بوٹ بنانے کا پہلا ’آزمائشی آرڈر‘ مل گیا۔

لیکن لیدر کی چپلیں بنانے والی اس کمپنی کے پاس فی الحال خاص آرمی بوٹ بنانے کے لیے مہارت اور مشینری نہیں تھی۔

انگلینڈ سے استعمال شدہ میشنری منگوائی گئی اور کاریگروں کو یہ مہارت سکھائی گئی۔ یوں سروس فوجی بوٹ بنانے کے میدان میں آن کھڑی ہوئی۔

تقسیم ہند کے بعد ایک مسئلہ یہ تھا کہ اب وہ پہلے کی طرح چمڑا خریدنے کے لیے جالندھر اور کانپور نہیں جا سکتے تھے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سروس کمپنی نے سنہ 1954 میں گجرات میں ’ہلال ٹینریز‘ قائم کی۔

سول جوتوں میں غلطیاں، پھر غلطیاں

کمپنی چاہتی تھی کہ وہ صرف حکومتی ٹینڈرز پر انحصار نہ کریں اور وسیع مارکیٹ میں اپنے جوتے متعارف کرائیں۔ انھوں نے عام لوگوں تک رسائی کے لیے فلیکس شوز کے میدان میں اترنے کی ٹھان لی تھی۔

لیکن عزم اور شوق کے علاوہ سروس کے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا۔ وہ دوبارہ استعمال شدہ مشینری کی تلاش میں انگلینڈ گئے اور یہاں بھی ان کی قسمت اچھی رہی۔

چوہدری حسین لکھتے ہیں کہ: ’برطانوی معیشت پر دوسری عالمی جنگ کے اثرات ابھی باقی تھے۔ وہ چھوٹے سے چھوٹے گاہک سے بھی بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔‘ اس طرح یہاں انھیں عوامی جوتے بنانے کے لیے بھی موزوں مشینری مل گئی۔

کمپنی نے مشینری اور فن تو سیکھ لیا مگر ایک بڑی غلطی ہو گئی۔ انھوں نے بیرون ملک مشینری خریدتے وقت جوتوں کے فرمے (لکڑی کے سانچے جن کی مدد سے جوتے تیار کیے جاتے ہیں) بھی خرید لیے۔ یہ فرمے برطانوی ساختہ تھے۔

انھیں پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ مختلف نسلوں کے پاؤں کی ساخت میں قدرتی طور پر کچھ فرق ہوتا ہے۔ برطانوی فرمے کی فٹنگ پاکستانی پاؤں کے لیے کچھ ٹھیک ثابت نہ ہوئی اور یہ غلطی خاصی مہنگی رہی۔ کئی برسوں بعد انھیں پتا چلا کہ جرمن لوگوں کے پاؤں پاکستانیوں سے ملتے جلتے ہیں اس لیے وہاں کے فرمے یہاں موزوں ثابت ہو سکتے تھے۔

یہ کمپنی کی واحد غلطی نہیں تھی۔

کسی کمپنی کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کی پسند ناپسند کو پہلے سے سمجھ کر اس کے مطابق اپنے چیزیں بنا سکیں۔

چوہدری حسین سمجھتے تھے کہ زیادہ لوگ آکسفورڈ شوز پسند کرتے ہوں گے اور ڈربی شوز کم خریدنا چاہیں گے۔ لیکن بات الٹ ثابت ہوئی اور گاہکوں نے ڈربی شوز زیادہ پسند کیے۔

دراصل کمپنی سے منسلک افراد آکسفورڈ شوز پسند کرتے تھے اور ان کی اپنی سوچ جانبدار رہی تھی۔

اس زمانے میں سروس لوگوں کی پسند ناپسند سے اتنی واقف نہ تھی۔ وقت کے ساتھ انھیں احساس ہوا کہ یہاں لوگ مالی اعتبار سے چمڑے کے جوتے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اس لیے انھیں کینوس شوز بھی بنانا پڑے۔

کمپنی کو جو نقصان سول شوز میں غلطیوں سے ہوا اس کی تلافی کسی حد تک فوجی بوٹ بنانے سے ہو رہی تھی۔ شاید اس لیے انھیں ایسے تجربات کرنے کا موقع ملتا رہا۔

سنہ 1957 میں سروس نے اپنے ریٹیل سٹور قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ دوسری برانڈز کی دکانوں کے بجائے اپنی دکانوں میں جوتے فروخت کر سکیں۔۔

کینوس شوز بنانے کے لیے جاپانی مشینری اور ماہرین کا سہارا لیا اور انھیں عملے کی ٹریننگ کے لیے پاکستان بھی بلایا گیا۔

سنہ 1960 میں گجرات میں نئی شو فیکٹری بنائی گئی اور اسی دوران فوجی بوٹ، سول شوز اور ریٹیل دکانوں کے اچھے کاروبار کے دوران صنعتی ترقی کے خواہشمند پاکستانی صدر ایوب خان نے سروس کی لاہور فیکٹری کا دورہ کیا۔

برآمدات کی ابتدا

60 کی دہائی میں پاکستان نے روس کے ساتھ مال کے بدلے مال کی بنیاد پر تجارت شروع کی تھی۔ اور مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں کو برآمدات بڑھانے کے لیے حکومتی حوصلہ افزائی حاصل تھی۔

سروس نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہے۔ ایکسپورٹس کے لیے ان کا ہدف یورپ تھا۔

محمد اکرم سروس گروپ کے سابق ڈائریکٹر ایکسپورٹ ہیں جنھوں نے 1967 کے دوران گجرات میں کمپنی کے شریک بانی چوہدری محمد سعید کو نوکری کے لیے خط لکھا تھا۔ یہی خط آئندہ 50 سے زیادہ برسوں تک سروس کے ساتھ ان کی وابستگی کا نتیجہ بنا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے کہا گیا ہم نے یہاں سے برآمدات شروع کرنی ہیں جو کہ اس سے پہلے نہیں تھیں۔ اُس وقت پاکستان سے زیادہ تر خام مال بھیجا جاتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم ایسی ہی ایک درمیانی شکل برآمد کرنا چاہتے ہیں جسے بعد میں باآسانی جوتوں میں تبدیل کیا جا سکے۔ یہ ایسا تھا جیسے روٹی بنانے کے لیے پہلے آٹا گوند لیا جائے۔‘

’میں نے پاکستان میں دوسرے ممالک کے سفارت خانوں کو خط لکھنا شروع کر دیے۔ خط ٹائپ رائٹر پر لکھ کر اسے ڈاک خانے پوسٹ بھی میں ہی کیا کرتا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’میری انگریزی کمزور ہی ہو گی کیونکہ میں گجرات سے پڑھا تھا لیکن اس کے باوجود میری حوصلہ افزائی کی گئی۔‘

اس زمانے میں سروس نے برطانوی کمپنی ’ڈنلوپ‘ اور جرمن کمپنی ’پوما‘ کو اپنا سامان فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور آہستہ آہستہ برآمدات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

اپنے تجربات سے متعلق اکرم بتاتے ہیں کہ فینکس نامی ایک جرمن کمپنی کے ساتھ سروس کی برآمدات برلن میں موجود مسٹر ڈریسر دیکھا کرتے تھے۔

’یہ شخص زرا کڑوے مزاج کا تھا۔ وہ ہمارا گاہک تھا لیکن ہم سے اکثر آرڈر میں تاخیر پر شکایت بھی کیا کرتا تھا۔ ہم ان کے لیے کینوس شوز کا ایک آرڈر بنا رہے تھے۔ لیکن ہمارے ہاں کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر ہو جاتی تھی۔ اس نے ہمیں آرڈر دیا اور کہا آپ نے اس میں دیر نہیں کرنی کیونکہ خطے میں تناؤ کی وجہ سے سوئز کینال بند تھی۔ کنٹینرز اس زمانے میں سامان کی ترسیل کے لیے مستعمل نہیں تھے اور طویل سفر کے دوران جوتے خراب ہونے کا خدشہ موجود ہوتا تھا‘۔

’ہمارے ہاں وہ مال تاخیر کا شکار ہو گیا۔ میں نے بات کی اور اس نے مزید مہلت دے دی لیکن پھر ہمارا مال اس سے بھی زیادہ لیٹ ہو گیا۔‘

اس مصیبت سے نمٹنے کے لیے محمد اکرم نے کچھ ایسا کیا کہ اس کے بعد مزید تاخیر پر مسٹر ڈریسر نے کمپنی سے شکایت کرنا چھوڑ دی اور آرڈر کی ڈیڈلائن میں بھی توسیع کر دی۔

جب اکرم سے پوچھا گیا کہ انھوں نے مسٹر ڈریسر سے ایسا کیا کہا تھا تو انھوں نے بتایا کہ ’میں نے اسے ایک ایسی وجہ بتائی جس کا وہ جواب نہیں دے سکتے تھے۔ میں نے کچھ تصاویر دکھا کر انھیں بتایا کہ سکھر کے پاس ہمارا ایک ٹرک الٹ گیا ہے اور تمام سامان ضائع ہو گیا ہے۔‘

امید کے برعکس اس چال پر اکرم کے باسز خوش نہ ہوئے اور انھیں آئندہ سچ پر انحصار کرنے کا حکم دیا گیا۔ حتی کہ انھیں یہ بھی کہا گیا کہ اس بات کا اعتراف مسٹر ڈریسر کے سامنے بھی کریں جو کہ انھیں کرنا پڑا۔

لاہور فیکٹری میں ہنگامہ آرائی

چوہدری حسین اپنی کتاب میں 1981 کے دوران لاہور فیکٹری پر ’حملے‘ کو اپنی زندگی کی تلخ ترین حقیقت بتاتے ہیں۔

’صبح حسب عادت فیکٹری کھلنے کے وقت میں وہاں پہنچا۔۔۔ اچانک فیکٹری کھلنے سے قبل وہاں کچھ لوگوں نے حملہ کر دیا۔‘

وہ اس واقعے کا ذکر کر رہے ہیں کہ جب فوجی آمر جنرل ضیا کے دور میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں ان کی فیکٹری اور ہیڈ کوارٹر پر بدامنی اور ہنگامہ آرائی کا ایک واقعہ پیش آیا جس میں عملے کی کاریں جلا دیں گئیں، کمروں کی کھڑکیاں توڑ دی گئیں اور کئی افراد کو زخمی کیا گیا۔

کمپنی نے یہ فیکٹری ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا اور تمام پروڈکشن گجرات لے جانی پڑی۔

چوہدری حسین کے مطابق اس واقعے میں کاریگر نہیں بلکہ باہر سے تخریب کار بلائے گئے تھے۔

یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ان دنوں سروس اور لیبر یونینز کے درمیان تلخیاں چل رہی تھیں اور کمپنی سے معاوضوں اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

کمپنی کے مطابق ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ لاہور فیکٹری بحال کر کے وہاں لوگوں کو دوبارہ ملازمت دیں جبکہ لیبر یونینز کا موقف تھا کہ سروس نے انھیں ناکافی سہولیات فراہم کر رکھی تھیں۔

اس ہنگامہ آرائی کے بعد قانونی کارروائی بھی ہوئی لیکن کئی باتیں غیر واضح رہیں اور آخر میں سب معاملات ایسے طے پا گئے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

سروس بمقابلہ باٹا

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کارپوریٹ رائولری، یعنی ایک جیسی اشیا بنانے والی مختلف کمپنیوں کے درمیان مقابلہ بازی، اشتہاروں میں بھی جھلکتی ہے۔

کچھ ماہ قبل ایسا ہی ہوا جب کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے اقدامات کے تحت باٹا نے گاہکوں کے لیے اپنی نئی ہدایات میں لکھا کہ ‘نو ماسک، نو سروس۔’

پہلی نظر میں تو یہ سادہ سا پیغام معلوم ہوتا ہے یعنی اگر ماسک نہ پہنا تو آپ یہاں شاپنگ نہیں کر سکتے۔

لیکن یہاں سروس کے وہ سپیلنگ لکھے گئے تھے جو باٹا کی حریف کمپنی سروس ( Servis) کے ہیں۔

سروس باٹا رائولری پر مسٹر اکرم کہتے ہیں کہ اپنی ابتدا سے سروس کی کوشش رہی ہے کہ وہ باٹا کو ٹکر دے سکیں۔

وہ کہتے ہیں کہ شروع میں باٹا کی دکانوں کے پاس سروس کی دکانیں کھولی گئیں تاکہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔ لیکن بعد میں ایسا بھی ہوا کہ مقابلہ اس قدر سخت ہو گیا کہ باٹا کو ان جگہوں پر نئی دکانیں کھولنا پڑیں جہاں سروس کی دکانیں موجود تھیں۔

یہ مقابلہ تاحال جاری ہے۔ باٹا کو ایک بڑے بین الاقوامی گروپ کا حصہ ہونے کا فائدہ رہا ہے مگر سروس والے مقامی سطح پر لوگوں کی پسند ناپسند کو سمجھنے پر فخر کرتے ہیں۔

وہ تینوں دوست جنھوں نے سروس کی بنیاد رکھی تھی اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور ان کی تیسری نسلیں اس کمپنی کو چلا رہی ہے۔ جوتوں کے ساتھ ٹائرز کے کاروبار کو وسعت دینے کی بھی کوششیں ہو رہی ہیں۔

سروس گروپ کے مطابق گذشتہ 10 سال سے ان کی کمپنی ملک میں جوتوں کی سب سے بڑی ایکسپورٹر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp