انڈے بیچو، جوتا لو


انڈے ڈیڑھ سو رنز کامیابی سے مکمل کرتے ہوئے، ڈبل سنچری کی طرف گامزن ہیں۔ جب انڈوں کی اتنی رفتار ہو تو ان کا ذکر تو لازم ہے۔ بس یہی تھا وہ انڈا خیال، جس نے انڈوں اور ہمیں آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔ انڈے کے مختلف طریقہء استعمال اور فوائد ہیں۔ جب کہ گندے انڈوں اور انڈے پڑ جانے کا ایک الگ فلسفہ ہے۔ گندے انڈوں کو انڈے پڑ جانے کی روایت، بہت قدیم مانی جاتی ہے اور اس کے لئے گندے انڈوں کو ایک جگہ جمع کر لینا مفید ہے۔

بات دور تک نکلتی نظر آ رہی ہے، اس سے پہلے انڈے پڑیں، تو واپس آتے ہیں انڈوں کے درست استعمال کی طرف۔ آملیٹ ایک لذیذ ڈش قرار دی جا سکتی ہے، جب کہ تحریر کو آملیٹ کرنا ایک آرٹ ہے۔ دوسروں کی زندگی کو آملیٹ کرنا، ہمارا قومی مشغلہ اور فریضہ ہے۔ اپنا آملیٹ چاہے پھیکا اور بد ذائقہ ہی کیوں نہ ہو، لیکن ہمیں یہ معلوم ہے کہ دوسرے کے آملیٹ میں نمک مرچ کتنا ہونا چاہیے۔ یہ تو ہم پر فرض ہے کہ نمک مرچ حسب شوق و ذائقہ ڈالیں۔ جانے کب ہم اپنا اپنا آملیٹ بنانے پر متفق ہو پائیں گے۔ یہ موجودہ حالات میں مستقبل قریب میں ہوتا تو نظر نہیں آ رہا۔ بہر حال امید پر دنیا قائم ہے۔

اسی طرح انڈا ابال کر کھایا جائے، تو مزا دو بالا ہو جاتا ہے۔ سردیوں میں ”گرم انڈے، گرم انڈے“ کی آوازیں، اکثر سنائی دیتی ہیں۔ انڈے کو ایک مخصوص وقت تک ابال کر ’ہارڈ‘ یا ’ہاف‘ بوائل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تحریر کو کتنا ابالنا ہے، اس کا خیال رکھنا، آج کل کے نازک ڈیجیٹل ایرا میں بہت ضروری ہے۔ آپ نے تحریر کو ذرا سا زیادہ ابال دیا تو بس پھر آپ اپنے لئے دعا شروع کر دیں۔ در اصل تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ چند فرسودہ روایات جیسے کہ اختلاف رائے کو برداشت کرنا، ایک دوسرے کا احترام کرنا، کسی ایسے موضوع پر بحث نہ کرنا، جو دوسرے کے لئے حساس ہو نا پید ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب اتنا ہی سادہ اور آسان ہے جتنا انڈا پہلے آیا یا مرغی۔

طالب علموں کی زندگی میں بھی انڈے کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ انڈے کی صورت میں طالب علم کا والدین کے ہاتھوں آملیٹ ہو جانا عام ہے، تو اس طرح عملی زندگی میں انڈا مختلف طریقوں سے ہمیں ہاف فرائی کرتا نظر آتا ہے۔ جیسے کہ کرکٹ میں بطخ کے انڈے کو اعزازی طور پر پہلی ہی گیند پر صفر پر آؤٹ ہونے کے بعد بخشا جاتا ہے اور وہ بھی سونے کا انڈا۔ اگر آپ کی اپنی کارکردگی انڈا ہو، تو اس کو دوسروں کے فرائنگ پین میں فرائی کرنا بھی ایک آرٹ ہے۔

جب تک آپ انڈا خود فرائی کرنا نہیں سیکھیں گے اور دوسروں کو اپنی نا کامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے رہیں گے، تو آپ کا انڈا نہیں فرائی ہونے والا۔ انڈوں کا کاروبار ایک منافع بخش کاروبار ہے اور آج کل تو کروڑ پتی بننے کا سب سے آسان نسخہ بھی ہے۔ جیسے کہ بچپن میں مرغی کے پوچھنے پر کہ انڈے میرے چنگے ہیں، پاؤں میرے ننگے ہیں، مرغے نے کہا تھا کہ کیسی باتیں کرتی ہو، انڈے بیچو جوتے لو۔ ہماری دعا ہے کہ مرغیوں کو ہدایت نصیب ہو اور وہ اتنے مہنگے انڈے دینا بند کریں، بصورت دیگر انڈا پالیسی کے تحت مرغیوں کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے۔

سید علی زیدی، راولپنڈی
Latest posts by سید علی زیدی، راولپنڈی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).