مہنگائی کا راکٹ: مگر ہمیں اس کی فکر نہیں


کبھی کبھی تو یہ الجھن کچھ سوچنے ہی نہیں دیتی کہ پاکستان کے کون سے مسئلے کو کالم کا موضوع بنایا جائے۔ ہمارے کچھ مسائل تو مستقل نوعیت کے ہیں۔ جیسے سیاسی عدم استحکام، قانون و انصاف کی زبوں حالی، امن و امان کی خرابی، سرکاری عمال کی ناقص کارکردگی اور سیاستدانوں کی باہمی رسہ کشی۔ پاکستان کی تیسری نسل اب یہ تماشے دیکھ رہی ہے۔ اور لگتا نہیں کہ چوتھی نسل ان سے محروم رہے گی۔ ان دائمی مسائل میں فرقہ واریت، عدم برداشت اور علاقائی تعصبات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں جو دوسرے مسائل در پیش ہیں ان میں تعلیم و صحت جیسے سماجی شعبوں کی نا گفتہ بہ حالت نمایاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت بھی مسلسل نیچے کی طرف لڑھک رہی ہے۔ ہم قرض لے لے کر گزارا کرتے ہیں۔ یہ قرضے خیرات نہیں ہوتے۔ نا ہی قرض حسنہ ہوتے ہیں۔ عالمی ساہو کار سود بھی لیتے ہیں اور من مانی شرائط بھی منواتے ہیں۔ معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان عالمی ساہو کاروں کے چنگل میں پھنس جانے والے ممالک مشکل ہی سے نکل پاتے ہیں اور ان کی اقتصادی حالت بہتر ہونے کے بجائے خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے۔

ہم نت نئے مسائل پیدا کر لینے کی بھی خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ لہذا ایسے دن کم کم ہی نصیب ہوتے ہیں، جب ملک میں چاروں طرف سکون ہو، تمام ادارے اپنے اپنے کام میں لگے ہوں اور عوام کو دو وقت کی روٹی مل رہی ہو۔ مسائل کو سیاست کی آنکھ سے دیکھنا اگر چہ کوئی ایسی ناروا بات نہیں لیکن میں اکثر و بیشتر اس سے شعوری طور پر گریز کرتی ہوں۔ جماعتی سیاست کو بیچ میں لانے سے تعصب انگڑائی لیتا ہے اور قاری کو بھی یہ گمان گزرتا ہے جیسے حقائق کے بجائے کسی کی تحسین یا کسی پر تنقید مقصود ہے۔

سو پارٹی سیاست ایک طرف رکھتے ہوئے، کم از کم دو پیمانے ایسے ہیں جن سے کسی بھی مسئلے کا حقیقی چہرہ واضح ہو جاتا ہے۔ ایک زمینی حقائق، یعنی جو کچھ ہم اپنے چاروں طرف دیکھتے ہیں یا جو کچھ خود ہم پر بیت رہی ہوتی ہے اور دوسرے مصدقہ اعداد و شمار جو خود حکومتی اداروں یا معتبر عالمی ایجنسیوں کے ذریعے سامنے آتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا، ہمارے یہاں مسائل کی کمی نہیں، پھر یہ بھی ہے کہ ہر شخص کے نزدیک مسئلے کی نوعیت یا شدت الگ ہے۔ لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ آدم خور قسم کی مہنگائی ہے جس نے غریب کو فاقہ کشی پر مجبور کر دیا ہے اور متوسط طبقے کی کمر بھی توڑ کر رکھ دی ہے۔ آج آپ کسی بھی طرف رخ کریں یہ مسئلہ منہ پھاڑے سامنے کھڑا نظر آتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے اشیائے ضرورت کی قیمتیں حقیقی معنوں میں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ایسا کرونا کی وجہ سے ہوا۔ یقیناً کرونا کے برے اثرات پڑے ہیں اور ساری دنیا کی معیشت اس وبا سے متاثر ہوئی ہے لیکن ہمارے یہاں تو مہنگائی کا سیلاب کرونا سے بہت پہلے 2019ء میں ہی دستک دینے لگا تھا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت گرانے کے بعد پتا نہیں کیا ہوا کہ ہم سنبھل نہیں سکے۔ کرونا تو اس سال فروری مارچ میں آیا لیکن 2019ء کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 10.6 فی صد تک پہنچ چکی تھی، جو پچھلے دس برس میں سب سے بلند تھی۔

2018ء میں یہ شرح 5.8 فی صد، 2017 میں 9 4۔ فی صد، 2016 میں 3.77 فی صد اور 2015 میں 2.53 فی صد تھی۔ صرف دو برس میں مہنگائی یا افراط زر کی شرح 4.9 فی صد سے 10.6 فی صد پر آ جانا، تعجب کی بات ہے۔ اب ذرا پاس پڑوس کے کچھ ممالک پر بھی نظر ڈال لیجیے۔ 2019ء میں بھارت میں یہ شرح 7.66 فی صد، بنگلہ دیش میں 5.59 فی صد، مالدیپ میں 4.84 فی صد، سری لنکا میں 3.53 فی صد، بھوٹان میں 2.73 فی صد، نیپال میں 5.6 فی صد اور چالیس برس سے خانہ جنگی سے تباہ حال افغانستان میں 2.3 فی صد تھی۔

سمندر پار جائیں تو متحدہ عرب امارات میں مہنگائی کی شرح منفی 1.9 فی صد تھی۔ ہمارے یہاں مہنگائی کے گراف میں کمی آنے کے بجائے 2020ء میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2020ء میں یہ شرح 14.6 فی صد ہو چکی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ جون 2020ء کی قیمتوں میں جولائی 2020ء میں پچاس فی صد اضافہ ہو گیا۔ اوپر 2019ء کے اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق اس سال پاکستان سمیت دنیا کے 149 ممالک میں مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح اوسطا 3.8 فی صد تھی، جب کہ ہم گیارہ فی صد کو چھو رہے تھے۔

اگر بات صرف کھانے پینے کی اشیائے ضروریہ تک محدود رکھی جائے تو مہنگائی کی شرح تیس سے چالیس فی صد بڑھ گئی ہے۔ آٹا، چینی، چاول، گھی، دودھ، انڈے، گوشت، سبزیاں، مہنگائی کی اس سطح کو چھو رہی ہیں، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دکاندار سے جب کسی چیز کا بھاو یا ریٹ پوچھا جائے تو وہ کلو کی بجائے پاو میں بتاتا ہے۔ کیوں کہ اسے بھی مٹر تین سو بیس روپے کلو کہتے ہوئے حجاب آتا ہے اور وہ پاو میں نرخ بتاتا ہے۔

ادھر اعداد و شمار یہ بتا رہے ہیں کہ 24 فی صد سے زائد پاکستانی خط غربت سے نیچے لڑھک گئے ہیں۔ پوری آبادی کا لگ بھگ ایک چوتھائی حصہ کس احوال میں ہے اور کس طرح زندہ ہے، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ باقی 76 فی صد آبادی میں سے بھی 40 فی صد کا شمار غربا یا کم آمدنی والے افراد میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد زیریں متوسط اور متوسط طبقے کی باری آتی ہے جو تیزی سے معدوم ہوتا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دو سالوں میں سیلاب کی صورت امڈ آنے والی مہنگائی کے مقابلے میں سال ہا سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین اور پنشنروں کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ گویا ان کی آمدنی بھی جامد ہو گئی اور مہنگائی کے سامنے کوئی بند بھی نہ باندھا جا سکا۔ اس وقت سرکاری ملازمین مہنگائی کے خلاف اسلام آباد کی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔

انسان کو زندہ رہنے کے لئے اگر ہوا اور پانی کے بعد کسی شے کی ضرورت ہے تو وہ روٹی ہے۔ مفلوک الحال آدمی کو اگر گوشت، سبزی، دال یا کچھ بھی میسر نہیں تو وہ ایک آدھ روٹی پانی کے ساتھ ہی کھا لیتا ہے۔ اب یہ روٹی بھی اس کی پہنچ سے نکل گئی ہے۔ سنتے ہیں کہ ایوب خان کے دور میں جب آٹا 20 روپیہ من ہو گیا تو حبیب جالب مرحوم نے ایک پوری انقلابی نظم لکھ ڈالی تھی۔ اب ایک کلو آٹا ایک سو روپے کو چھو رہا ہے۔ ایک دیہاڑی دار مزدور اور محنت کش اپنے کنبے کا پیٹ کیسے پالے گا؟

ان سب چیزوں سے بڑھ کر ایک چیز ہے جس کا نام ہے دوا۔ جب والدین اپنے بچوں کے لئے روٹی، تعلیم اور دوا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جائیں تو سوچ لیجیے کہ معاشرے پر کیا گزر رہی ہے۔ یہی ہے وہ صورت احوال جب گھروں میں نا چاقیاں ہوتی ہیں، مائیں بچوں کو مار کر خود کشیاں کر لیتی ہیں، باپ پاگل ہو جاتے ہیں، جرائم کا طوفان امڈ آتا ہے اور لوگوں کے دل و دماغ پریشر ککر بن جاتے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ اس انتہائی سنگین مسئلے پر بیانات کی بھرمار ہے۔ مہنگائی کا ملبہ جانے والوں کے سر تھوپنے پر توانائیاں صرف ہو رہی ہیں۔ عملی قدم ایک بھی نہیں۔ اور مہنگائی ہے کہ راکٹ کی طرح اوپر ہی اوپر جا رہی ہے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ آمین۔

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).