غربت کے خاتمہ کا عالمی دن کورونا کے تناظرمیں


معاشی ترقی، تکنیکی اور مالی وسائل کے باوجود دنیا بھر میں لاکھوں افراد غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غربت کی زندگی گزارنے والے افراد کو بہت سی محرومیوں اور نا انصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہی محرومیوں، نا انصافیوں اور عدم مساوات کے خاتمے اور غریب عوام کی حالت زار کو بہتر بنانے اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہر سال غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 1993 سے یہ دن ہر سال 17 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔

اس سال اس دن کا موضوع ہے ”معاشرتی اور ماحولیاتی انصاف کے حصول کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا“ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن 2015 میں 736 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں یہ وہ افراد ہیں جو یومیہ 1.90 ڈالر بھی کما نہیں پاتے۔ اسی طرح سن 2018 میں آٹھ فیصد ورکر اور ان کے خاندان غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے زیادہ تر افراد دو خطوں جنوبی ایشیاء اور سب صحارا افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

غربت کی زیادہ تر شرح چھوٹے اور تنازعات سے متاثرہ ممالک میں پائی جاتی ہے لیکن اب کورونا وائرس نے غربت کی شرح میں حیرت انگیز تبدیلیاں کیں ہیں۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن نے لاکھوں افراد کی ملازمتوں اور کاروبار کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے اقوام متحدہ سمیت دیگر تمام فلاحی عالمی اداروں کو اس بات کا ڈر ہے کہ کورونا وائرس سے غربت میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے جس کا سب سے برا اثر بچوں پر پڑے گا کیونکہ غربت بڑھنے کی وجہ سے زیادہ تر بچے جبری محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوں گے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کے منفی اثرات کی وجہ سے غیر یقینی معاشی بحالی کے ساتھ ساتھ آئندہ دو سالوں میں پاکستان میں غربت میں اضافہ ہو گا۔ سال میں دو مرتبہ شائع ہونے والی بینک کی جنوبی ایشیا اکنامک فوکس رپورٹ کے تازہ شمارے میں کہا گیا کہ پاکستان میں اقتصادی شرح نمو مالی سال 2021 میں کم ہونے کی توقع ہے اور 0.5 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ اس سے قبل مالی سال 2019 تک تین سال کے دوران سالانہ اوسط 4 فیصد رہی۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر غربت کے خاتمے سے متعلق فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان بھی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ 30 سال سے غربت میں نمایاں کمی آئی ہے تاہم کوویڈ۔ 19 وبا کی وجہ سے عالمی کساد بازاری اس صدی کی بدترین سطح پر ہے، 10 کروڑ افراد انتہائی غربت میں چلے گئے جنہیں واپسی کے لئے کئی دہائیاں درکار ہوں گی۔ وزیراعظم نے عالمی فورم کو بتایا کہ پاکستان میں سمارٹ لاک ڈاؤن پالیسی کے ذریعے ہم نے غریب اور محروم لوگوں کو تحفظ دیا، ہماری مالی مشکلات کے باوجود ہم نے ایمرجنسی کیش کے تحت ایک ارب 25 کروڑ ڈالر کا پیکیج دیا جس سے ایک کروڑ 50 لاکھ خاندان اور 10 کروڑ افراد مستفید ہوئے۔ انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان 2023 ء تک غربت کی موجودہ 24.3 فیصد شرح کو 19 فیصد تک لانے کے لئے پرعزم ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلان کے مطابق غربت کے خاتمے کی یہ تیسری دہائی ہے جو سن 2018 سے شروع ہوئی تھی اور سن 2025 کو ختم ہوگی۔ تیسری دہائی کا تھیم ہے ”غربت سے پاک دنیا کے لئے عالمی اقدامات کو تیز کرنا“ ۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے 17 کروڑ 60 لاکھ افراد غربت کا شکار ہوئے جن میں سے دو تہائی کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور یونیسیف کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غربت میں اضافہ ہوگا جس کے باعث مزید لاکھوں بچوں سے محنت مزدوری کرائے جانے کا خطرہ ہے جو کہ جنوبی ایشیا کا ایک سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے دوران لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ترسیلات زر اور کاروباری ناکامیوں سے مزدوروں کی مانگ میں مزید کمی آئے گی، اجرت کم ہوگی اور ملازمتوں کا خاتمہ ہوگا، ان عوامل کے نتیجہ میں غربت میں مبتلا افراد کی تعداد 4 کروڑ سے 6 کروڑ تک بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان میں سی پیک منصوبہ غربت کے خاتمے میں نمایاں کردار ادا کرے گا اس کے ساتھ ساتھ غربت کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کو مزید اقدامات کرنا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).