بدلتی اقدار کی تیز ہوا


کائنات کے اندر زمان و مکان کا تعلق ایک واشگاف حقیقت ہے، جن کے اندر وقوع ہونے ہونے والے واقعات باہم ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ چونکہ دنیا تغیر پذیری کے اصول پہ کارفرما ہے، لہذا ہر بدلتی رت اور واقعہ کے ساتھ ایک غیر محسوس طریقے سے کچھ نئی تبدیلی واقع ہو کر رہتی ہے۔ تاہم اس نئی وقوع پذیر تبدیلی کا انحصار بہت سے عوامل پر منحصر ہے، جس میں ایک عمومی معاشرتی اقدار، سوچ کی سمت، عقل و علم کی ہیئت اور مجموعی معاشی حالت زیادہ اہم عوامل ہیں۔

ہر نئی نمو پذیر ہونے والی تبدیلی فی نفسہہ مثبت یا منفی اثرات معاشرے پہ مرتب کرتی ہے، اس کا انحصار بھی انہی مذکورہ بالا عوامل کے اوپر ہے۔ ہم اس زمانے کے بارے میں بھی جانتے ہیں، جب فرد واحد مطلق العنان ہونے کی حیثیت سے کل قوم کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا استحقاق رکھتا ہے، اور پھر وقت نے پلٹا کھایا اور اس کی جگہ ایک نئے نظام نے اپنے پاؤں جمائے جس کو جمہوریت کا نام دیا۔ ا اور ایک وہ وقت تھا جب ذرائع رسل و رسائل کا ذریعہ کچھ اور تھا، مگر آج کے دور میں میڈیا نے اپنی اہمیت ہمارے سامنے لاکر رکھ دی ہے۔ اب اس کی حقیقت کو جھٹلانا یا اس کی اہمیت کو کم گردانا اپنے آپ کو ہی گویا دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ اس نئی آنے والی تبدیلی لہر نے جہاں کئی پرانے برج گرائے وہیں کچھ نئے مسائل بھی ہمارے سامنے ایسے آ گئے جن کا پہلے چرچا نہ تھا۔

ہم زیادہ دور نہیں جاتے ابھی، کچھ دہائیاں قبل خبر تک رسائی کا سب سے بڑا ذریعہ اخبار، ریڈیو اور ٹی وی تھا، جہاں سے کچھ مخصوص تبصرے اور خبریں ہی نشر ہوتی تھیں اور اسی سے رائے عامہ کی مجموعی سوچ کا تصور ابھرتا تھا۔ مگر زمانہ موجودہ کے اندر آنے والی سوشل میڈیا نام کی نئی تبدیلی نے اس بت کہنہ کو پاش پاش کر دیا ہے۔ اور یوں معلومات کا ایک بحر ناکنار آج یوں ہمارے سامنے ہے کہ، جو انسان کو ایسے چکرا دیتا ہے کہ وہ بھول بھلیوں میں گم ہو کر اصل حقیقت کو اوجھل کر بیٹھتا ہے۔

ہم جس بھی بڑے سوشل میڈیا کے اوپر جائیں تو یہ بات بخوبی محسوس ہوتی ہے کہ، آج ہم جس دور میں زندہ ہیں وہ علم کی بجائے حصول معلومات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، اور مقصدیت، سنجیدگی، علم کی چاشنی، عقل و خرد کا استعمال وغیرہ الفاظ گویا شجر ممنوعہ بن چکے ہیں۔ اس سارے گھن چکر میں ایک عامی سوائے سچ اور حقیقت کے سب کچھ جان لیتا ہے، اور وہ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہتا ہے کہ سچ کیا ہے اور کہاں ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں جب بھی کہیں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، اس کے اوپر کسی بھی عدالتی اور تفتیشی کارروائی سے پہلے ہی، ہمارے نام نہاد جری مجاہدین ہاتھوں میں ”حق و صداقت“ کا علم لیے اس کا تیہ پانچہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔

اور عموماً ایسے بھی ہوا کہ جو ”سوشل میڈیا مجاہد“ جس خبر کے اوپر ”تبصرہ خان“ بنے علم و دانش کے موتی بکھیر رہا ہوتے ہیں، وہ اس شہر یا جگہ میں موجود تک نہیں ہوتا، مگر اپنی انا کی تسکین اور جھوٹی شہرت کی خاطر کسی بھی انسان کی عزت کی دھجیاں اڑانے اور سر عام اس کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جاننے نہیں دیتے۔

مجھ سے شاید اختلاف ہو سکتا ہے مگر میرے نزدیک ہم آج کے دور کو جو بھی نام دے لیں، مگر یہ علم و دانش کا دور ہر گز نہیں ہو سکتا ۔ جہاں معاشرے کی سوچ کی لگام اور عمومی اقدار کا رخ متعین کرنے کا اختیار یوں مقرر ہو، کہ جہاں علم اور عقل کا دور دورہ ہی نہ ہو، وہاں کیسے اثرات مرتب ہوں گے اس کا اندازہ لگانا کوئی چنداں مشکل نہیں ہے۔ آج کا یہ سوشل میڈیائی مجاید نہ صرف اپنے تئیں عقل کل ہے بلکہ، وہ کسی اختلاف رائے رکھنے والے انسان کو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔

اس بات کو سمجھنے کے لئے کسی بھی ”مجاہد“ کے لکھے یا کیے گئے تبصرے پہ اختلافی نوٹ لکھیے اورپھر اپنی عزت کی دھجیاں بکھرتے ملاحظہ فرمایئے۔ اور پھر انسان انگشت بد انداں رہ کر یہی سوچتا ہے کہ ہم اس مقام تک کیسے پہنچ گئے کہ، جہاں اختلاف رائے جیسا بنیادی انسانی حق بھی ہم سے چھینا جا رہا ہے۔ مگر علم و دانش سے تہی دستی، تربیت کا فقدان، شتر بے مہار زندگی اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے جیسے رزائل پوری طرح جواں ہو کر برگ و بار لاتے ہیں تو پھر ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).