مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز قیادت سے وابستہ غیر حقیقی توقعات



مقبوضہ کشمیر کی قیادت کے بھارت نواز دھڑے نے جو مکمل بھارت مدد اور سرپرستی سے ماضی قریب تک مقبوضہ کشمیر میں مسلسل زیر اقتدار رہا ہے، نے اب بھارت کی طرف سے مکمل پالیسی تبدیل کر دینے کے بعد ایک نیا سیاسی اتحاد جسے ”پیپلز الائنس فارگپکار ڈیکلریشن“ کے نام سے قائم کیا گیا ہے، جس کی حیثیت باشعور کشمیری عوام کی نظر میں ”نئی بوتل میں پرانی شراب“ کی طرح ہے۔ یہ بھارت نواز عناصر، اب بے چین ہیں کہ کانگریس کے برخلاف مودی کی طرف سے جو کشمیر کے سلسلے میں براہ راست جارحانہ پالیسی اپنا چکا ہے، جس میں ان روایتی ضمیر اور قوم فروشوں کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔

جبکہ پہلے بھارت پر حکمران کانگریس پارٹی اپنے غاصبانہ قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے کشمیری لیڈر شپ کے اسی بھارت نواز ٹولے میں سے کشمیر کی حکومت سازی کے لئے انتخاب کیا کرتی تھی لیکن بھارت میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اس ک پالیسیوں اور طریقہ کار میں بھی جوہری تبدیلی لائی گئی ہے اور اب حکمران پارٹی نے براہ راست جارحانہ پالیسی جس کو درپردہ امریکی حمایت بھی حاصل ہے، اپنائی ہے اسی پالیسی کے تحت طاقت کے زور پر کشمیر کا بھارت کے آئین میں طے شدہ، اسٹیٹس تبدیل کرتے ہوئے اسے باقاعدہ طور پر بھارت میں ضم کرنے اور یہاں بیرون ریاست سے بھارتی شہری لا کر اور ان کو یہاں کی شہریت کے حقوق دے کر ریاست جموں کشمیر کی آبادی میں مسلمانوں کے تناسب اور اکثریت کو بے اثر کرنے کے منصوبے پر عملی طور پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے ساتھ بھی سیاسی اور عسکری طور پر جارحانہ روئیے کا واضح اظہار کیا جا رہا ہے جس کی ایک واضح علامتی مثال پاکستان میں گرفتار کئیے گئے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے مقدمے میں پاکستان کی بار بار کی پیشکش کے باوجود کیس کی پیروی تک سے انکار کی صورت میں نظر آتی ہے، بھارت کی اس پالیسی کا مقصد اس کی نظر میں، پاکستان کی کمزوری اور مجبوری کو ثابت کرنا، اور حریت پسند کشمیری عوام کو مایوسی کا شکار کرنا ہے۔

اس ماحول میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں اب اس بھارت نواز ٹولے کا رونا دھونا اور چیخ و پکار اپنی ”بے روزگاری“ کی وجہ سے ہے ان کے شور و غوغا کی وجہ کشمیریوں ے ہمدردی نہیں بلکہ اپنی دلالی کے خاتمے پر ہے۔ ان کے انفرادی بیانات اس صورتحال کے گواہ ہیں، کبھی یہ بھارت کو اپنی خدمات گنواتے ہیں اور کبھی اپنے زیادہ بڑے بھارتی ہونے کی دہائیاں دیتے ہیں۔ کچھ باشعور دانشوروں کو اب بھی ”مجاہد منزل“ سے کوئی توقعات ہیں تو یہ بات ان کی پاکستان ہجرت کے پس منظر میں حیران کن ہے۔

میری نظر میں تو ہمیں اپنے وطن کی جنت سے ہجرت پر مجبور کرنے والے غاصبوں کے مدد گاروں کی سری نگر میں رہائش گاہ کا نام ”مجاہد منزل“ نہیں بلکہ ”غدار منزل“ ہونا چاہیے۔ اس ٹولے کی اچھل کود کشمیری عوام کے لیے نہیں ان ہی کی حکومتوں میں پچھلے تیس سال میں مرکز جو سلوک کشمیری عوام سے کرتا رہا ہے اس میں ان کے مدد گار کے کردار کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے بھی اگر کسی کو اس دلال بھارت نواز ٹولے سے کچھ توقع ہے تو پھر یہ توقع رکھنے والے کو بھی ”گرے ایریا“ سے باہر آ کر واضح پوزیشن لینی چاہیے۔

اس ٹولے کو اگر کشمیری عوام سے اور ان کی ابتلاء و مشکلات سے کوئی حقیقی دلچسپی ہوتی تو یہ اپنے اقتدار کے دنوں میں اس وابستگی کا کچھ اظہار کرتے۔ لیکن یہ بخوشی اپنی ”قوم کے خلاف مرکز کے ظالمانہ غیر انسانی اقدامات میں مستقل طور پر ان کے مدد گار بنے رہے، ان دنوں ان کو کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی پامالی اور ظلم و ستم دکھائی نہیں دیتا تھا، آج یہ کس منہ سے پھر سے کشمیریوں کے ہمدرد بن کر سامنے آنے اور بھارتی حکومت کو بلیک میل کر کے سابقہ دلالی کا کاروبار بحال کروانا چاہتے ہیں۔

دراصل یہ ان کے آر پار کے مدد گار اور ان کے مخالف“ دوسرے دھڑے ”والے حالیہ حقائق سے بے خبر ہیں یا جان بوجھ کر ان کی طرف دیکھنا نہیں چاہتے۔ امریکہ کی نگرانی اور سرپرستی میں ہوئی خفیہ مفاہمت جو اب بڑی حد تک آشکار ہو چکی ہے کی موجودگی میں کشمیری قوم کو تقسیم کشمیر پر ہوئی اس مفاہمت کے پس منظر کے پیش نظر ایک نئے لائحہ عمل اور حکمت عملی اپنانے کی ضرورت تھی لیکن ایسا دکھائی نہیں دے رہا اور دونوں اطراف ابھی تک ماضی ہی کی طرح کے ناز برداری اور سرپرستی کی توقعات باندھے ہوئے ہے، جو اب مستقبل میں جاری رہنی مشکل نظر آتی ہیں لہذا ان اصحاب کو اب اس چینل سے مزید مفادات اور کمائی کی توقعات ترک کر کے کمایا گیا پیسہ دوسرے کاروباروں میں انویسٹ کرنے پر غور کرنا چاہیے، یا توبہ کر کے اور کشمیری قوم سے اپنے ماضی کے کردار پر صدق دل سے معافی مانگ کر موجودہ صورتحال کے مطابق نئی، مشترکہ اور موثر حکمت عملی بنانی چاہیے اور اس کے مطابق قوم کو تقسیم کرنے کے بجائے اکٹھے کر کے نئے عزم کے ساتھ آزادی کی جدوجہد کا نیا آغاز کر کے قوم کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔ ایک طرف ہماری تمام تحریک کی بنیاد ہی اخلاقی، انسانی اور قانونی ہے اور دوسری طرف بھارت یا پاکستان کے کرنسی نوٹ، لہذا یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اخلاقی یا قانونی موقف پر رہنا ہے یا تحریک کو دھندا بناے رکھنا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).