موت سے لڑتے افراد کی خواہشات پوری کرنے والا ایمبولینس ڈرائیور
کیر ویلڈبرو کے روزانہ کے معمول میں ساحلِ سمندر، عجائب گھروں، چڑیا گھروں، کھیلوں کے میدانوں، گرجا گھروں یا پھولوں کے باغات کے چکر لگانا شامل ہے لیکن ہالینڈ کے یہ ساٹھ سالہ شخص کوئی ٹورسٹ گائڈ نہیں ہیں۔
ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں انھوں نے متعدد مرتبہ چلنے پھرنے اور اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے معذور قریب المرگ افراد اور لاعلاج مریضوں کو موت سے قبل اپنی پسندیدہ جگہوں کو دیکھنے میں مدد کی۔
بی بی سی کو انھوں نے اپنے ایسے کئی تجربات کی روداد سنائی۔
ویٹیکن کا سفر
ویلڈبرو نے کہا ہے کہ ان کا سب سے یاد گار سفر روم کا تھا۔
سنہ 2013 میں ایک ساٹھ سالہ خاتون جو بسترالمرگ پر تھیں انہیں پوپ سے ملنے کی خواہش تھی۔
ویٹیکن کی ویب سائٹ سے انہیں علم ہوا کہ پوپ معمول کے مطابق باہر نکل کر عوام کو دیدار کراتے ہیں۔
انہیں لگا کہ یہ ایک موقع ہے کہ وہ اس خاتون کی آخری خواہش پوری کرنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں گو اس کے لیے انہیں ہالینڈ کے شہر روٹاڈیم سے سولہ سو کلو مٹیر کا سفر طے کرنا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ابتدائی طبی امداد موٹرسائیکل ایمبولینس کے ذریعے
صومالیہ کی واحد مفت ایمبولینس سروس کے بانی
انہوں نے اس خاتون کو سٹریچر پر ڈال کر ویٹیکن کے سینٹ پیٹر کے احاطے کی سب سے پہلی صف میں پہنچا دیا۔ اس صف میں موجود بہت سے لوگ ویل چیئر پر بیٹھے تھے۔ ویلڈبرو کو توقع تھی کہ سٹریچر پر لیٹی اس خاتون پر پوپ کی نظر پڑ جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔ پوپ نیچے اتر کر آئے اور اس خاتون سے بات کی اور اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر دعا کی۔ ان کی آخرت کے لیے بھی دعا کی۔
ویلڈبرو کے مطابق ان لمحات سے اس خاتون کو بہت سکون نصیب ہوا اور انہوں نے فوراً ہی واپسی کا سفر اختیار کیا۔ یہ خاتون پوپ سے ملاقات کے چند ہی دن بعد انتقال کر گئیں۔
سمندر کی یاد
ویلڈبرو نے بہت سی عجیب و غریب خواہشات بھی پوری کیں۔ وہ ایک مریض کو گھوڑوں کے استبل لے کر گئے اور انہیں اپنے پسندیدہ گھوڑے سے آخری مرتبہ ملنے میں مدد دی۔ بہت سے اور لوگ بھی اپنے پالتو جانوروں سے ملنا چاہتے تھے۔
اپنے گھر اور اپنے محلوں کو دیکھنے کی خواہش تو اکثر لوگوں کو ہوتی ہے۔ لیکن مرنے سے پہلے بہت سے لوگوں کو یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ وہ کھیلوں کا کوئی مقابلہ دیکھیں یا کسی عجائب گھر، چڑیا گھر یا کسی اکویریم کی سیر کریں۔
ایک موقعے پر وہ بڑے صبر سے سٹریچر پر لیٹے ایک شخص کو مچھلی کا شکار کرتے دیکھتے رہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کی سمندر کو دیکھنے کی خواہشں کو ویلڈبرو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کی جو اتنے بیمار نہیں تھے، سمندر میں سرفنگ کرنے میں مدد کی ہے۔
ویلڈبرو طبی شعبے سے وابستہ رہے اور ایک عرصے تک ایمبولینس ڈرائیور رہے ہیں اور ایک طویل عرصے تک انہوں نے بہت سے لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ جن لوگوں کی انہوں نے مدد کی ان کی اکثریت ساٹھ، ستر یا اسی سال کی تھی لیکن کبھی کبھار انہیں کم عمر مریضوں کی طرف سے بلایا جاتا تھا جن کو ان کے مطابق سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
دل آزاری
عمر رسیدہ لوگوں کا مرنا سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن نوجوان موت سے وہ صدمہ بڑھ جاتا ہے۔
سنہ 2009 میں انہیں ایک مایوس نوجوان کی کال موصول ہوئی اور اس نے ان سے اپنی گرل فرینڈ کو ہسپتال سے لانے کو کہا۔
وہ سرطان کی مریض تھیں۔ ان کا بوائے فرینڈ چاہتا تھا کہ ان کو ہسپتال سے اس فلیٹ میں لے جایا جائے جو انہوں نے کچھ دن پہلے ہی خریدا تھا اور اسے دیکھ نہیں سکیں تھیں۔
ڈاکٹروں سے اجازت لینے کے بعد ویلڈبرو اس لڑکی کو اس فلیٹ میں لے کر گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ‘میں نے کچھ دیر کے لیے دونوں کو تنہا رہنے دیا۔ لیکن جب وہ اس لڑکی کو لے کر واپس ہپستال پہنچے تو ایک گھنٹے بعد ہی اس لڑکی کی موت واقع ہو گئی۔
موت سے پنجا آزمائی
ویلڈبرو کی سابق پیشہ وارانہ زندگی سے انہیں موت کو قریب سے دیکھنے کا بہت تجربہ ہوا اور انہوں نے ایسی صورت حال سے نمٹنے کے طریقے نکال لیے تھے۔
انہیں جلد ہی یہ معلوم ہو گیا تھا کہ جو ہونے والا ہوتا ہے اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا لیکن وہ ان آخری لمحات کو آسان بنا سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’جب آپ کو یہ سمجھ میں آ جائے تو آپ کا سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ ہم موت کو نہیں ٹال سکتے اور ہمیں کبھی کبھار اس سوچ کو چھوڑ دینا چاہیے۔’
کورونا وائرس کی مہلک وبا کے دوران بھی وہ لوگوں کو ان کی آخری خواہش پوری کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔
اصل میں سوچ کیا تھی
انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں یہ نہیں سوچا تھا۔ نومبر سنہ 2006 میں ہونے والے ایک حادثے نے ان کی زندگی بدل دی۔
‘اس وقت میں ایک ہسپتال میں کام کر رہا تھا اور شدید بیمار ایک مریض کو ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال منتقل کر رہا تھا۔ اس مریض کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ تین ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہیں گے۔’
وبلڈبرو نے اس مریض سے پوچھا کہ کیا وہ کسی جگہ کو سب سے زیادہ یاد کرتے اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ مریض سمندری جہاز اور سمندر دیکھنا چاہتا تھا۔
ویلڈبرو نے روٹاڈیم کی بندرگاہ کے حکام سے بات کی اور اس مریض کے بارے میں بتایا جو سمندر اور سمندری جہاز دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے۔ بندرگاہ کے حکام نے کہا کہ وہ مریض کو لا سکتے ہیں۔
‘میں نے اپنے دو ساتھیوں سے مدد کرنے کو کہا اور اپنی چھٹی کے دن میں مریض کو بندرگاہ پر سمندر کے کنارے لے گیا۔’
انہوں نے بتایا کہ مریض کے مزاج پر اس کا بہت خوشگوار اثر پڑا۔ 'وہ اچانک مسکرانے لگا اور ان میں جیسے نئی توانائی آ گئی۔'
ویلڈبرو یہ دیکھتے ہوئے مریض کے سٹریچر کو ایک کشتی پر لے گئے جہاں سے وہ مریض بندرگاہ میں آتے جاتے جہاز اور کشتیوں کو دیکھ سکتا تھا۔
وہ مریض اس سب سے بہت خوش اور جذباتی ہو گیا اور کہنے لگا ‘میرے لیے تم اجنبی ہو اور تم نے میرے لیے اتنا کچھ کیا۔’
’اس مریض کو کینسر تھا اور وہ بیماری کے اُس مرحلے پر پہنچ گیا تھا کہ وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو گیا تھا۔’
ویلڈبرو نے یاد کرتے ہوئے کہا لیکن اُسے زندگی سے بہت پیار تھا۔ ہسپتال واپس پہنچنے کے بعد وہ مریض بہت خوش تھا اور اپریل سنہ 2007 میں اُس کا انتقال ہوا اور وہ ڈاکٹروں کے اندازے سے تین ماہ زیادہ زندہ رہا۔
‘اس تجرے کے بعد میں نے سوچنا شروع کیا اور اپریل سنہ 2007 میں اپنی بیوی کے ساتھ مل کر میں نے ایک فاونڈیشن بنائی تاکہ ایسے مریضوں کی مدد کی جائے۔’
اور یوں ’ایمبولینس وِش فاونڈیشن‘ قائم ہوئی۔
مفت سروس
پہلے دو برس وہ اور اُن کی بیوی اس طرح کی درخواستوں کو اپنی نوکری کے ساتھ پوری کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ بڑھتی ہوئی درخواستوں کے پیش نظر انہوں نے اپنی نوکری چھوڑ دی اور اپنا پورا وقت فاؤنڈیشن کو دینے لگے۔
‘ہماری فاؤنڈیشن اب تک 15000 مریضوں کو ان کی مرضی کی جگہوں پر لے کر گئی ہے۔ میں نے ذاتی طور پر کئی ہزار لوگوں کو ان کی پسندیدہ جگہوں کی سیر کرائی۔’
انہوں نے کہا کہ متعدد مرتبہ انہوں نے بہت سے چہروں پر خوشی دیکھی۔ اور مریضوں کے چہروں پر خوشی انہیں یہ کام جاری رکھنے پر مجبور کرتی رہی۔
اب ان کی فاونڈیشن کے پاس سات ایمبولینس ہیں اور 14 دیگر ملکوں میں وہ اس کی شاخیں قائم کر چکے ہیں۔ یہ کوئی کاروبار نہیں ہے اور مریضوں سے کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا۔
ویلڈبرو نے کہا کہ وہ حکومت سے بھی کوئی پیسہ نہیں لیتے اور اپنی فاؤنڈیشن عطیات سے چلاتے ہیں۔
مشکل گفتگو
مریض کے علاوہ ایمبولینس میں دو اور افراد سفر کر سکتے ہیں۔ لیکن اکثر کبھی کوئی بات نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ موت کے بارے میں بات نہیں کرتے۔ خواتین اپنے شوہروں سے یہ بات کرتی ہیں لیکن مرد اکثر اپنی بیویوں سے اپنی موت کے بارے میں بات نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ اکثر جوڑوں کو اپنے دل کی بات ایک دوسرے سے کرنے کا موقع دیتے ہیں اور ان کی حوصلہ آفزائی کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اکثر بات شروع کرتے ہیں اور اس کے بعد دونوں کو بات کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو ان کی آنکھیں نم دیکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے مرتے ہوئے لوگوں کے بہت مختلف رویے دیکھے ہیں۔
کچھ لوگ موت کو گلے لگانے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور کچھ مرنا نہیں چاہتے اور آخری سانسوں تک وہ سمجھتے ہیں کہ وہ موت سے لڑ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت کم لوگ اپنی زندگی کے اختتام پر اپنی ناکامیوں کو یاد کرتے ہیں اور اکثر لوگ اچھے دنوں کو یاد کرتے ہیں۔
ویلڈبرو سے اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں کیا کرنا چاہیں گے اور وہ کہتے ہیں کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کیا دیکھنا چاہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی یہ کہنا مشکل ہے لیکن اس کا فیصلہ انسان اپنے آخری دنوں میں ہی کر سکتا ہے۔
‘شاید میں اپنی اولاد کے درمیان مرنا پسند کروں۔’
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).